ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی
سانپوں کے متعلق ایک مشہور محاورہ ’آستین کا سانپ‘ شاید سیاستدانوں سے زیادہ کسی پر صادق نہیں آتا اگر یقین نہ ہو تو شرد پوار کے آستین کو دیکھ لیں۔
بالی ووڈ میں یوں تو ہر طرح کی فلمیں بنتی ہیں مگر ان کی دو بڑی قسمیں ایکشن اور فیملی ڈرامہ ہیں۔ مہاراشٹر کی سیاست میں پچھلا سال ایکشن کا تھا جب ایکناتھ شندے کی غداری کے بعد مار دھاڑ، بھاگ دوڑ، گالم گلوچ اور الزام تراشی وغیرہ کا دور دورہ تھا۔ لیکن این سی پی کی بغاوت کے بعد ایک فیملی ڈرامہ شروع ہوگیا ہے۔ محبت ہو یا سیاست دونوں میں بغاوت تو ہوتی ہے مگر اس کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ فیملی ڈرامہ میں رونا دھونا اور ملنا بچھڑنا چھایا رہتا ہے۔ اجیت پوار کو نہ جانے کس جیوتشی نے اتوار کا مہورت نکال کر دے دیا تھا کہ انہوں نے اپنی تازہ حلف برداری کے لیے اسی دن کا انتخاب کیا۔ تازہ اس لیے کہ پہلے چار مرتبہ وہ نائب وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لے چکے ہیں۔ ہر بار اس امید میں حلف برداری کی جاتی ہے کہ جلد ہی اچھے دن آجائیں اور وزارتِ اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہونے کا موقع مل جائے گا مگر مودی جی کے اچھے دن کی مانند وہ آکر نہیں دیتے اور دل کے ارماں آنسووں میں بہہ جاتے ہیں۔ پہلے یہ باتیں دل کے اندر یا نجی محفلوں تک محدود رہتی تھیں لیکن اب پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور عوامی جلسوں میں اس کا اظہار ہونے لگا ہے۔
ہندی فلموں کے اندر والدین کی خواہش کے مطابق طے ہونے والی شادی میں بھی تنازع پیدا کیا جاتا ہے تاکہ تین گھنٹوں تک ناظرین کو پیسے وصول کرنے کا موقع دے کر آخر میں ہیپی اینڈ کر دیا جائے لیکن ماں باپ کی مرضی کے خلاف ہونے والی شادی میں اچانک گھر سے فرار لازمی ہوتا ہے چاہے اس کے لیے سورت سے گوہاٹی جانا پڑے یا یہ دوڑ راج بھون تک محدود ہو۔ اتوار کی حلف برداری کا یہ جواز پیش کیا گیا کہ شکونی چاچا شرد پوار کو بھنک لگ گئی تھی اس لیے انہیں قلعہ بندی کے موقع سے محروم رکھنے کی خاطر چھٹی کے دن گورنر کو زحمت دی گئی۔ ویسے گورنر حضرات کے پاس اواخر زندگی کی تعطیلات گزارنے کے سوا کام ہی کیا ہوتا ہے۔ ان کو تو اتوار اور پیر کے درمیان کا فرق بھی کم ہی معلوم ہوتا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ مرکز جب کسی سازش میں انہیں شامل کرتا ہے تو ایک مصروفیت ان کے ہاتھ آجاتی ہے اور وہ اس میں جوش و خروش کے ساتھ جٹ کر وقت گزاری کرنے لگتے ہیں۔ مہاراشٹر کے سابق گورنر بھگت سنگھ کوشیاری تو چونکہ سیاست کی دنیا سے آئے تھے اس لیے ان کے مضحکہ خیز بیانات سے بھی عوام لطف اندوز ہوتے تھے۔ اب وہ سلسلہ تو رک گیا ہے مگر سازشوں کا جال ہنوز بنا جا رہا ہے اور اس میں اجیت پوار پھر ایک بار بصد شوق پھنس گئے ہیں۔
اجیت پوار حلف برداری کے بعد اپنی من پسند وزارت کے لیے ہاتھ پیر مارنے لگے۔ یہ بات ان کے دوست اور دشمن سب جانتے تھے کہ وزارت داخلہ میں انہیں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے ورنہ مہا وکاس اگھاڑی کی سرکار میں چاچا کے آشیرواد سے وہ قلمدان حاصل کرنا مشکل نہیں تھا۔ این سی پی کو وہ اہم عہدہ انیل دیشمکھ کو سونپ دینا پڑا۔ یہ مودی راج کا کمال ہے کہ مہا وکاس اگھاڑی سرکار کے دوران گلے تک بدعنوانی میں غرق اجیت پوار تو جیل جانے سے محفوظ و مامون رہے مگر بے قصور انیل دیشمکھ اور ان کے بعد بدعنوانی کے خلاف لڑنے والے نواب ملک کو ’نہ کھاوں گا نہ کھانے دوں گا‘ کا نعرہ لگانے والوں نے جیل بھیج دیا۔ ان میں ایک ضمانت پر رہا ہوگیا ہے اور دوسرا ہنوز اسپتال میں نظر بند ہے۔ اجیت پوار کو نظم و نسق جیسے جھنجھٹ کے کاموں میں دلچسپی نہیں ہے اس لیے ان کی پہلی پسند وزارتِ خزانہ ہے۔ وہ اپنی دریا دلی کے لیے خاصے مشہور ہیں۔ اجیت پوار ’خوب کھاوں گا اور جی بھر کے کھانے دوں گا‘ کے نعرے پر عمل کرتے ہیں لیکن خزانہ صرف اپنے خاص خاص لوگوں پر ہی لٹاتے ہیں۔
ایکناتھ شندے کی بغاوت کا ایک جواز یہ پیش کیا گیا تھا کہ اجیت پوار صرف اپنے حامیوں کو سرکاری خزانے سے نوازتے تھے۔ اس کی وجہ سے دیگر سیاسی جماعتوں کے لوگ محروم رہ جاتے تھے اور اپنے حلقہ انتخاب میں عوامی فلاح و بہبود کا کام نہیں کرپاتے تھے۔ ایکناتھ شندے اور ان کے حامی اجیت پوار کو وزیر خزانہ بنائے جانے کے مخالف اسی لیے تھے کہ وہ انہیں بھگتنا پڑا تھا۔ اجیت پوار ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جن کو دبایا جاسکے اس لیے وہ کالو بالو کا تماشہ کرنے والے شندے اور پھڈنویس کو چھوڑ کر سیدھے دہلی پہنچ گئے اور امیت شاہ کو رام کرلیا۔ ایکناتھ شندے کی ناراضی سے متعلق سنجے راوت نے ایک بیان میں کہا ہے چونکہ ان کی ضرورت ختم ہوگئی ہے اس لیے بی جے پی نے کہہ دیا ہے رہنا ہے تو رہو ورنہ راستہ ناپو۔ ایکناتھ شندے کو استعمال کرنے کے بعد کوڑے دان میں ڈالنے کی تیاری چل رہی ہے لیکن اگر بی جے پی اگلا انتخاب اپنے بل بوتے پر جیت جائے تو یہی سلوک اجیت پوار کے ساتھ بھی ہوگا۔ موجودہ دور کے ابن الوقت سیاستداں چونکہ قریبی فائدے کو سب کچھ سمجھتے ہیں اس لیے دوسروں کے انجام سے عبرت نہیں لیتے۔
انتظارِ بسیار کے بعد امسال مئی میں ایکناتھ شندے اور ان کے ساتھ پارٹی سے نکلنے والے سولہ ارکان کی رکنیت سے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار عدالت عظمیٰ نے اسپیکر راہل نارویکر کو سونپ دیا۔ وہ گزشتہ تین ماہ سے اس پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس کے خلاف ادھو ٹھاکرے کے ساتھی پربھو نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو اس نے دو ہفتوں کے اندر فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا۔ اس سے بھی کھلبلی مچ گئی ہے۔ اس طرح بی جے پی کے پاس ایکناتھ شندے سے گلو خلاصی حاصل کرنے کا ایک نادر موقع ہاتھ آگیا ہے۔ وہ اپنی پارٹی اسپیکر کے ذریعہ ایکناتھ شندے کو گھر بھیج کر اس بوجھ سے چھٹکارا حاصل کر سکتی ہے۔اپنی من پسند وزارت کو حاصل کرنے کے ایک ہفتہ بعد اجیت پوار اپنی چاچی سے ملنے ان کے گھر پہنچ گئے۔ اس پر لوگوں نے تعجب کا اظہار کیا تو کہا گیا کہ وہ بیمار ہیں اس لیے عیادت کی خاطر گئے تھے اور خاندانی رشتوں کے درمیان سیاست کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔
یہ معاملہ ابھی رفع دفع بھی نہیں ہوا تھا کہ اگلے دن اجیت پوار اپنی پارٹی کے تمام ساتھی وزراء کے ساتھ شرد پوار کے دفتر بن بلائے پہنچ گئے اور ان کے پیر چھو کر آشیرواد حاصل کیا۔ شرد پوار خاموشی سے ان کی چکنی چپڑی باتیں سنتے رہے اور ایک لفظ نہیں کہا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سی چیز اجیت پوار کو اپنے چاچا کے چرنوں میں لے گئی۔ اس دوران پچھلے اتوار کو اگر اجیت پوار کا عوامی جلسہ نہ ہوا ہوتا تو وہی نورا کشتی والی سازشی تھیوری چل پڑتی کہ شردپوار نے اپنی مرضی سے اجیت پوار کو بی جے پی میں بھیجا ہے۔ باندرہ میں منعقد ہونے والے خطاب عام میں اجیت پوار نے اپنے چاچا کو جو کھری کھوٹی سنائی ویسا تو کوئی اپنے دشمن سے بھی نہیں کہتا۔ اس لیے وہ امکان تو خارج ہوگیا۔ اب یہی وجہ رہ گئی چونکہ مطلوبہ تعداد میں ارکان اسمبلی ساتھ نہیں آسکے۔ چھتیس کے بجائے انتیس ہی آئے اس لیے فی الحال جو شندے کے ساتھ ہو رہا ہے وہی کل ان کے ساتھ بھی ہوگا اس لیے کچھ اور ارکان کو رجھا کر ساتھ لانے کی یہ ایک کوشش تھی۔ بظاہر یہ تو کامیاب نہیں ہوگی مگر اب اجیت پوار کے ساتھیوں کی گھر واپسی کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔
اجیت پوار کو سرکار کے گرنے کا ڈر ستا رہا ہے اس لیے وہ چاچا کے چرن چھو رہے ہیں جبکہ شرد پوار کے دل میں اپوزیشن اتحاد کی آگ لگی ہوئی ہے اس لیے وہ اجیت پوار سے دوری بنا رہے ہیں۔ اس میں ایک اور زاویہ یہ ہے کہ اجیت پوار نے یہ حرکت حزب اختلاف کے اتحاد سے دو دن قبل کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ شرد پوار کا جھکاو این ڈی اے کی جانب ہے اور حزب اختلاف کے اندر انتشار ہے۔ بی جے پی کی خوشی اس سازش کی چغلی کھاتی ہے۔ ابھی چند دن قبل بی جے پی رہنما سدا بھاو کھوت نے شرد پوار کو شیطان کہہ کر مخاطب کیا اور اب وہ اپنی ہی حکومت کے وزیر خزانہ کے اپنے چاچا سے ملنے پر بغلیں بجا رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شرد پوار کی شبیہ کو داغ دار یا مشکوک کرنے کے منصوبے پر عمل آوری کی خوشی منائی جارہی ہے۔ اسٹیج کے اوپر تو اس کالو بالو کے تماشے سے عوام کو بہلایا جارہا ہے مگر پردے کے پیچھے ہاوسنگ منسٹر کے طور اپنی مدت کار کے خاتمہ پر دیویندر پھڈنویس نے اڈانی کے دھاراوی پراجیکٹ کو منظوری دے کر بڑا ہاتھ مار لیا ہے۔ اس فیصلے سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو انہیں یقین نہیں تھا کہ ان کے بعد قلم دان سنبھالنے والے وزیر امکنہ اس پراجیکٹ کو منظوری دیں گے یا وہ اس سے ملنے والی ملائی میں کسی کو شریک نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وجہ جو بھی ہو پردے کے پیچھے ایک بڑا کھیل ہوگیا۔
مہاراشٹر کی سیاست میں اجیت پوار کی پینترے بازی کو دیکھ کر سانپ اور سیاست دانوں کے درمیان کمال مشابہت اظہر من الشمس ہو جاتی ہے۔ ان میں پہلی یکسانیت دونوں کی بے شمار قسموں کا پایا جانا ہے۔ سانپوں کی معلوم اَقسام کی تعداد تقریباً دو ہزار آٹھ سو ہے لیکن اس کے علاوہ جنگل بیابان میں کئی ایسے سانپ بھی ہوں گے جن سے حضرت انسان کا ابھی تک سابقہ ہی پیش نہ آیا ہو یا اس کا شکار ہونے والے کو قسم معلوم کرنے کا موقع ہی نہ ملا ہو۔ عوام کی بڑی اکثریت کو اس اقسام بندی میں دلچسپی بھی نہیں ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق محض دس فیصد یعنی تقریباً دو سو اسی قسم کے سانپ زہریلے ہوتے ہیں۔ سیاست دانوں کے معاملے میں یہ تناسب نوے فیصد بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔
یہ تحقیق بھی دلچسپ ہے کہ زہریلے سانپوں کا شکار بننے والوں کی تعداد تقریباً پچیس لاکھ ہے۔ سیاست دنواں کو یہ تعداد سن کر ہنسی بھی آئے گی اور اپنی عظمت کا بھی احساس ہوگا اس لیے کہ ان کی تعداد تو کروڑوں میں ہے۔ سانپ کا ڈسا ہوا ہر شخص موت کے منہ میں نہیں جاتا، پچیس لاکھ میں سے محض ایک لاکھ ہلاک ہوتے ہیں بقیہ چوبیس لاکھ تو بچ جاتے ہیں جبکہ سیاست دانوں کا اسٹرائیک ریٹ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ان کا شکار ہونے والے چھیانوے فیصد سے زیادہ بچ نہیں پاتے، اس لیے اثر پذیری میں سیاستدانوں کے سامنے سانپ بھی کچھ نہیں۔ ایک سانپ دوسرے سانپ کو نہیں کاٹتا مگر اجیت پوار جیسے سیاستداں اپنے محسنوں کو بھی نہیں چھوڑتے بلکہ اپنی احسان فراموشی کو جائز ٹھہرا کر اس پر فخر بھی جتاتے ہیں۔
سانپ اور سیاست داں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ اول الذکر انسان سے بھاگتا ہے اور مؤخر الذکر سے انسان بھاگتا ہے۔ بھاگم بھاگ دونوں صورتوں میں مشترک ہے۔ ویسے سیاست دانوں سے بھاگنا انسان کے لیے نہایت مشکل ہے کیونکہ ہر گلی نکڑ پر ان کا پوسٹر، بینر یا ہورڈنگ آویزاں ہوتا ہے۔ وہ کہیں جی ٹوینٹی تو کہیں مفت سیلنڈر کی تقسیم کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اروند کیجریوال تو سڑک پر اپنی قطار میں چلنے کا مشورہ بھی دیتے نظر آتے ہیں جبکہ یہ ان کا کام ہی نہیں ہے۔ وزیر اعظم وندے بھارت ریل گاڑی کو ہری جھنڈی دکھاتے نہیں تھکتے۔ وہ ریل گاڑی کو ہری جھنڈی دکھانے کی خاطر آٹھ ہزار کروڑ کے ہوائی جہاز میں ادھر ادھر مارے مارے پھرتے ہیں۔
یہ سیاست داں سال میں کم سے کم پانچ چھ مرتبہ سالگرہ کے پوسٹرس و بینرس لگوا کر مبارکباد وصول کرتے ہیں۔ ان کے لیے مبارکبادیاں وصول کرنا ضروری بھی ہے تاکہ ہر طبقہ کا ووٹر انہیں اپنا خیر خواہ سمجھے۔ وہ کبھی ٹیلی ویژن کے پردے پر نمودار ہوجاتے ہیں تو کبھی موبائل کے اندر سے جھانکنے لگتے ہیں، غرض ذرائع ابلاغ کا کوئی شعبہ سیاست دانوں کی آلودگی محفوظ نہیں ہے یہاں تک کہ کورونا کے ٹیکے کے سرٹیفکیٹ پر بھی ان کا ہنستا ہوا چہرا نمودار ہوکر عوام کو چونکاتا ہے اور سرکاری اہلکاروں کو مشکل میں ڈال دیتا ہے، کیونکہ سرٹیفکیٹ پر لکھے نام و چہرے کا فرق ان کو پریشان کر دیتا ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران بیرون ملک سفر کرنے والوں کو ان مشکلات سے گزرنا پڑا مگر وزیر اعظم نے ’آفت میں راحت‘ کا سامان کرلیا۔
سانپوں کے ماہر ڈاکٹر وولف گانگ بوہمے سانپ کی ایذا رسانی سے بچنے کی خاطر انسان کو ہمیشہ پاؤں زمین پر زور کے ساتھ رکھتے ہوئے چلنے کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ سانپ انتہائی لطیف سے ارتعاش کو بھی محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور وہ کسی شخص کو زور زور سے آتا ہوا محسوس کرکے وہاں سے چلے جاتے ہیں۔ سیاست دانوں کا معاملہ بھی اسی طرح کا ہوتا ہے۔ ویسے تو وہ نہایت بے حس ہوتے ہیں لیکن زور زور سے اپنے قریب آنے والے کے بارے میں یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ مفید ہے یا مضر؟ بی جے پی کی مثال لیں تو جب اجیت پوار جیسا فائدہ بخش آدمی قریب آئے تو اس کا استقبال کیا جاتا ہے بصورتِ دیگر ایکناتھ شندے جیسے لوگوں کو بے دردی سے کچلنے کی سازش رچی جاتی ہے۔ سانپوں کی زبان دو شاخہ ہوتی ہے لیکن سیاست دانوں کی زبان پر شاخوں کا شمار مشکل ہے جو کبھی بھی کچھ بھی بول سکتی ہے۔ سانپ اپنی زبان کو حساس انٹینا کی طرح استعمال کرکے فضا میں سے بو کو جذب کرتا ہے جبکہ بد زبان سیاستداں اپنی زبان سے نفرت کا زہر پھیلاتے ہیں۔ سانپ کو اپنی زبان سے شکار کے مقام، سمت اور رفتار کے بارے میں بھی معلومات مہیا ہو جاتی ہے۔ سانپ کی زبان گویا راڈار کی طرح کام کرتی ہے لیکن سیاست داں تو اپنے لچھے دار الفاظ سے رائے دہندگان کو فریب دے کر انہیں اپنا شکار بناتا ہے اور حسب موقع گرگٹ کی مانند اپنی زبان بدل دیتا ہے۔ سیاست دانوں کی مانند سانپ بھی ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ وہ کبھی پانی میں تیرتے نظر آتے ہیں تو کبھی زمین پر رینگتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ سانپوں میں اڑنے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے۔ سیاست دانوں کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں ہوتا ہے۔ وہ کبھی سماج وادی کی سائیکل چلانے گتے ہیں تو کبھی کمل کے ہوائی جہاز میں اڑنے لگتے ہیں۔ وہاں بات نہیں بنتی تو کانگریس کا ہاتھ تھام کر پانی میں تیرتے نظر آتے ہیں۔ اجیت پوار اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ سانپ کا کیچلی بدلنا ایک مشہور محاورہ ہے۔ اس کے اصل معنیٰ تو سانپ کا پرانی کھال اتار کر نئی کھال اوڑھ لینا ہے مگر مجازاً اسے چولا بدلنے یا نیا روپ دھارنے، نئی وضع اختیار کرنے یا دوسرا رنگ اختیار کرنے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور ان ساری حالتوں سے پرفل پٹیل جیسے سیاست داں گزرتے رہتے ہیں۔ ان پر اعتماد کرکے شرد پوار نے انہیں پارٹی کا کارگزار صدر بنا دیا تھا۔ کیچلی بدلنے کا ایک مطلب پوشاک یا لباس بدلنا بھی ہوتا ہے۔ سیاستدانوں کے اس شوق کی جیتی جاگتی مثال وزیر اعظم نریندر مودی ہیں جن کو خود اندازہ نہیں ہوتا کہ ایک دن میں وہ کتنی بار چولا بدلتے ہیں۔ سانپوں کے متعلق ایک مشہور محاورہ ’آستین کا سانپ‘ شاید سیاست دانوں سے زیادہ کسی پر صادق نہیں آتا اگر یقین نہ ہو تو شرد پوار کے آستین کو دیکھ لیں۔ جمہوری سیاست میں میڈیا سانپ کے سامنے نیولے کا کردار ادا کر سکتا ہے مگر وہ اس سے لڑنے کے بجائے فی الحال وہ انہی کے تلوے چاٹ رہا ہے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
***
اجیت پوار کو سرکار کے گرنے کا ڈر ستا رہا ہے اس لیے وہ چاچا کے چرن چھو رہے ہیں جبکہ شرد پوار کے دل میں اپوزیشن اتحاد کی آگ لگی ہوئی ہے اس لیے وہ اجیت پوار سے دوری بنا رہے ہیں۔ اس میں ایک اور زاویہ یہ ہے کہ اجیت پوار نے یہ حرکت حزب اختلاف کے اتحاد سے دو دن قبل کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ شرد پوار کا جھکاو این ڈی اے کی جانب ہے اور حزب اختلاف کے اندر انتشار ہے۔ بی جے پی کی خوشی اس سازش کی چغلی کھاتی ہے۔ ابھی چند دن قبل بی جے پی رہنما سدا بھاو کھوت نے شرد پوار کو شیطان کہہ کر مخاطب کیا اور اب وہ اپنی ہی حکومت کے وزیر خزانہ کے اپنے چاچا سے ملنے پر بغلیں بجا رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شرد پوار کی شبیہ کو داغ دار یا مشکوک کرنے کے منصوبے پر عمل آوری کی خوشی منائی جا رہی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 جولائی تا 29 جولائی 2023