معدنی ذخائر: خوشحالی کے نقیب یا بربادی کا ذریعہ ؟
قدرتی دولت کا استعمال عوامی بہبود اورصنعتی ترقی کے لیے کیا جائے
زعیم الدین احمد حیدرآباد
پچھلے مضمون میں ہم نے پڑھا تھا کہ ہمارا ملک کثیر معدنی ذخائر سے مالا مال ہے اور اگر ان معدنی ذخائر کو نکالا جاتا ہے تو اس کے کیا ماحولیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جو معدنی ذخائر ہمارے ملک میں ابھی دریافت ہوئے ہیں اس سارے ذخیرہ کو نکال کر معاشی ترقی کی جاسکتی ہے جس سے کوئی ماحولیاتی تبدیلی نہیں ہوگی لیکن ان کی کانکنی سے جغرافیائی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اگر بالفرض سب کچھ ٹھیک رہا تب بھی کیا ہمارے ملک کی تقدیر بھی خلیجی ممالک کی طرح یکسر بدل جائے گی؟ تاریخ کے اوراق میں ہمیں ان ذخائر سے فائدہ اٹھانے والے ممالک بھی نظر آتے ہیں اور ایسے ممالک کے نام بھی ملتے ہیں جن کو انہی ذخائر نے تباہی سے دوچار کر دیا۔ اس مضمون میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ جن ممالک میں اس قسم کے معدنی ذخائر ملے ہیں کیا ان سارے ممالک نے واقعی ترقی کی ہے؟ کیا حقیقت میں وہاں کے عوام معاشی طور پر خوش حال ہو گئے ہیں؟ اور کون سے ممالک ہیں جنہوں نے معدنی ذخائر کے ذریعے معاشی ترقی کی اور کون سے ممالک ہیں جو معدنی ذخائر ملنے کے بعد بھی معاشی طور پر کنگال رہے۔
ہماری نظریں ایسی مثالوں پر تو مرکوز ہوتی ہیں جو خوش نما نظر آتی ہیں۔ ہماری نگاہ صرف خوش حالی، ترقی اور کامیابی کو دیکھتی ہے یا دیکھنا چاہتی ہے لیکن ان ہی عوامل کے سبب کوئی ملک ناکام ہوتا ہے، معاشی بد حالی کا شکار ہو جاتا ہے اور تنزلی کا شکار ہو جاتا ہے تو ہم اس طرف توجہ نہیں دیتے۔ کچھ ممالک نے معدنی ذخائر کی وجہ سے بے مثال ترقی کی اور کچھ ممالک بے پناہ معدنی ذخائر رکھنے اور ان سے استفادہ کرنے کے باوجود معاشی بد حالی کا شکار ہیں۔
جس طرح خلیجی ممالک میں تیل کی دریافت نے ان کی تقدیر بدل دی اسی طرح ناروے، بوٹسوانا اور روانڈا جیسے ممالک کی تقدیر بھی تیل کی دریافت کے بعد یکسر بدل گئی۔ اس کے برعکس بولیویا، کانگو، نیدرلینڈز وغیرہ جیسے ممالک معدنی ذخائر کی دریافت کے بعد تباہ حال ہوگئے۔ ان ممالک کے پاس بے پناہ معدنی ذخائر تو موجود ہیں لیکن وہ آج معاشی بد حالی کا شکار ہیں، نیدرلینڈز کی صورت حال تو سارے جہاں والوں کے لیے مثال بن گئی۔ نیدرلینڈز کی اس معاشی تباہی کو ایک نام سے موسوم کر دیا گیا جسے ‘ڈچ بیماری’ کہا جاتا ہے۔ قدرتی ذخائر سے مالامال ملک کو چند ہی سالوں میں دنیا کا امیر ترین ملک بن جانا چاہیے لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ آئیے اس کو نیدر لینڈز کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 1959 میں نیدرلینڈز میں قدرتی گیس کے ذخائر کی دریافت ہوئی جسے اس نے دیگر ممالک کو برآمد کرنا شروع کیا جس سے اس کو معاشی فائدے حاصل ہوئے، ملک نے خوب معاشی ترقی کی، لیکن یہ خوش حالی اور معاشی ترقی چند دن کی ہی مہمان رہی۔ ٹھیک دس سال بعد یعنی 1970 تا 1977 کا دورانیہ نیدرلینڈز کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھا۔ اس دہائی میں نیدرلینڈز میں بے روزگاری کی شرح پانچ اعشاریہ ایک فیصد تک جا پہنچی جو پہلے ایک فیصد سے بھی کم ہوا کرتی تھی۔ خانگی شعبے کی سرمایہ کاری میں غیر معمولی حد تک کمی واقع ہو گئی۔ ملک کی برآمدات میں مسلسل اضافہ ہوا اور اس کے ساتھ ہی بے روزگاروں کی تعداد میں بھی اضافہ اور خانگی سرمایہ کاری میں کمی واقع ہونے لگی۔ ماہرین معاشیات یہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ آخر ماجرا کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جہاں کہیں معدنی ذخائر دریافت ہوتے ہیں وہاں اس کے دو طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں:
پہلا یہ کہ وہ ملک اس قدرتی ورثے کو دیگر ممالک کو برآمد کرتا بھی ہے، اس کی وجہ سے اس ملک میں باہر کی سرمایہ کاری بڑھتی ہے۔ جیسے جیسے باہر سے سرمایہ کاری ہوگی ویسے ویسے اس ملک کا زر مبادلہ مضبوط ہوتا ہے اور اس کے زر کی قدر بڑھ جاتی ہے۔ کسی ملک کا زر مبادلہ بڑھنا اچھی بات ہے لیکن جب زر مبادلہ بڑھے گا تو دیگر صنعتوں کی برآمد کردہ اشیاء کی قیمتیں بھی بڑھیں گی، اور جب قیمتیں بڑھیں گی تو طلب کم ہوتی چلی جائے گی اور اس کے اثرات ملک کی برآمدات پر پڑیں گے۔ یہی صورتحال تقریباً ہر شعبے کی ہو جائے گی۔ نیدرلینڈز کا بھی یہی حال ہوا کہ اس کی گیس کی برآمدات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا لیکن وہیں اس کی دیگر صنعتوں کی برآمدات شدید طور پر متاثر ہوئیں، قیمتیں بڑھیں تو ان کی طلب میں بھی کمی واقع ہوئی اور اس کا راست اثر ان صنعتوں پر مرتب ہوا اور وہ نقصان کا شکار ہو گئیں۔
معدنی ذخائر کے نکلنے کا دوسرا منفی اثر یہ ہوتا ہے کہ ان معدنی ذخائر کی کانکنی کے لیے مزدوروں کی ضرورت پڑتی ہے تو مزدوروں کی طلب ایک جگہ مرکوز ہوجاتی ہے، لوگ زیادہ تعداد میں اسی شعبے کی طرف رخ کرتے ہیں، دیگر صنعتوں کو افراد نہیں ملتے، لوگ دوسری صنعتوں سے نکل کر اس شعبے میں کام کرنے کے لیے آنے لگتے ہیں اور اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مزدوروں کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہ صنعتیں کمزور ہو جاتی ہیں اور آہستہ آہستہ دم توڑ دیتی ہیں۔ کسی بھی صنعت کو چلانے کے لیے ضروری ہے کہ فنی طور پر ماہر مزدور دستیاب ہوں ورنہ وہ صنعت ختم ہو جائے گی جب کہ اس کے برعکس معدنیات کی کانکنی کے لیے فنی طور پر مہارت والے اور زیادہ پڑھے لکھے مزدوروں کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، اسی وجہ کوئی بھی آسانی سے اس شعبے میں ملازمت اختیار کر سکتا ہے۔ ایک ایسی صنعت جہاں افراد کو تعلیم یافتہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، جنہیں کسی خاص فن کی مہارت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس صنعت میں زیادہ مزدور لگ جائیں تو ان افراد کی فنی مہارت اور تعلیمی قابلیت پر بھی اثرات مرتب ہوں گے، جس کے اثرات بہت دور رس ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح کے مسائل سے نیدرلینڈز کو بھی دوچار ہونا پڑا۔ قدرتی ذخائر سے مالامال ہونے کے باوجود وہ معاشی تباہی کا شکار ہو گیا۔
وینیزویلا اور ایران کا معاملہ بھی یہی نظر آتا ہے، ان ممالک میں تیل کے ذخائر موجود ہیں لیکن یہ معاشی طور پر بد حال ہیں۔ ان ممالک نے اپنی ساری توجہات اور اپنی ساری توانائیاں صرف تیل کی پیداوار اور اس کو برآمد کرنے میں ہی صرف کردیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دیگر صنعتیں کمزور ہوتی چلی گئیں بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دیگر صنعتی کمزور ہوتی چلی گئیں بلکہ بند ہوگئیں۔ کانگو اور زمبابوے بھی قدرتی معدنی ذخائر رکھنے کے باوجود بدترین معاشی بد حالی کا شکار ہیں۔ ان ممالک میں نہ صرف ان قدرتی ذخائر کا بے جا استعمال ہوا بلکہ حکمراں بھی رشوت خوری جیسی تباہ کن خرابی میں مبتلا ہو گئے، ان کی معاشی تباہی کے پس پردہ اسباب میں رشوت خوری کو بھی ایک اہم سبب قرار دیا جاسکتا ہے۔
اس کے برعکس خلیجی ممالک پر اگر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ یہ ممالک تیل کے سوا کوئی اور چیز برآمد نہیں کرتے ہیں۔ اس صورت حال میں اگر ان ممالک کا زر مبادلہ بڑھ بھی جاتا تو کوئی فرق نہیں پڑتا، مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا جب ان کی برآمدات میں دوسرے اشیاء بھی شامل ہوتیں۔ یہ ممالک اکثر چیزیں صرف درآمد کرتی ہیں۔ دراصل خلیجی ممالک کی کوئی خاص معیشت نہیں ہے۔ اگر ان ممالک میں تیل کے ذخائر دریافت نہ ہوتے تو ان کی معیشت درست نہ ہوتی۔ ان ممالک نے اپنی تیل کی آمدنی سے اپنی معیشت کو ہمہ جہت ترقی دی ہے لیکن اب وہ بھی اپنی معیشت کا دارومدار صرف تیل پر رکھنا نہیں رکھنا چاہتے ہیں اس لیے انہوں نے دیگر صنعتوں کو بھی ترقی دینی شروع کی ہے اور اب ان ممالک کا تیل پر انحصار کم ہوا ہے۔ دبئی اس وقت نہ صرف سیاحت کا مرکز بنا ہوا ہے بلکہ اس نے بطور عالمی تجارتی مرکز کے ترقی دے کر اپنے آپ کو منوالیا ہے۔ اس ملک کی 95 فیصد جی ڈی پی کا تعلق دیگر شعبوں سے ہے، یعنی جی ڈی پی میں تیل کا حصہ محض پانچ فیصد ہے۔ متحدہ عرب امارات کی بنیادی آمدنی کا 30 فیصد حصہ تیل اور گیس سے آتا ہے۔
ایک اور مثال ناروے کی ہے جہاں تیل کے ذخائر دریافت ہوئے جنہیں اس نے دیگر ممالک کو برآمد کرکے نہ صرف اپنی معیشت مضبوط کی بلکہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو تعلیم پر بھرپور طریقے سے خرچ کیا، علاوہ ازیں صنعتوں کو بھی ترقی دی اور دیگر شعبوں میں روزگار فراہم کیے۔ اس نے اپنی معیشت کا دارومدار صرف تیل پر ہی نہیں رکھا بلکہ دیگر صنعتوں کو بھی خوب ترقی دی۔ یہی معاملہ آسٹریلیا کا بھی ہے، اس نے بھی تعلیم و دیگر شعبوں میں خوب ترقی کی اور خاص طور پر زراعت پر بھرپور توجہ دی۔
معاشی تباہی سے بچنے کا ایک اور طریقہ ہے وہ یہ کہ قدرتی ذخائر سے ہونے والی آمدنی کو عوامی بہبود کے کاموں میں صرف کیا جائے، عوام کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے، انہیں فنی مہارتوں سے لیس کیا جائے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ ان قدرتی ذخائر کا فائدہ چند ایک کھرب پتی افراد کو ہی ملے۔ یہ خدا کی عطا کردہ عظیم نعمتوں میں سے ہے لہذا اس کا فائدہ اور اس کے ثمرات بھی تمام انسانوں کو حاصل ہونے چاہئیں۔ چوں کہ یہ کام حکومتی سطح پر ہوتا ہے اس لیے حکومت کو چاہیے کہ ان قدرتی ذخائر کا بھر پور اور صحیح استعمال کرے تاکہ اس کے ثمرات سے ہر کوئی بہرہ مند ہو۔ اس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ ایک فلاحی فنڈ کا قیام عمل میں لائے جس کے ذریعہ وہ عوامی فلاح و بہبود کے کاموں کو انجام دے۔
***
***
معاشی تباہی سے بچنے کا ایک اور طریقہ ہے وہ یہ کہ قدرتی ذخائر سے ہونے والی آمدنی کو عوامی بہبود کے کاموں میں صرف کیا جائے، عوام کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے، انہیں فنی مہارتوں سے لیس کیا جائے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ ان قدرتی ذخائر کا فائدہ چند ایک کھرب پتی افراد کو ہی ملے۔ یہ خدا کی عطا کردہ عظیم نعمتوں میں سے ہے لہذا اس کا فائدہ اور اس کے ثمرات بھی تمام انسانوں کو حاصل ہونے چاہئیں۔ چوں کہ یہ کام حکومتی سطح پر ہوتا ہے اس لیے حکومت کو چاہیے کہ ان قدرتی ذخائر کا بھر پور اور صحیح استعمال کرے تاکہ اس کے ثمرات سے ہر کوئی بہرہ مند ہو۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 اپریل تا 08 اپریل 2023