مدھیہ پردیش: کھرگون میں رام نومی کے موقع پر حساس علاقوں میں ’’جے ہندو راشٹر‘‘ کے بینر لگے نظر آئے
نئے دہلی، مارچ 30: مدھیہ پردیش کے گھرگون میں، جہاں گذشتہ سال فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے، رام نومی کے جلوس کے دوران ’’جے ہندو راشٹر‘‘ کے بینر لگے پائے گئے ہیں۔
کپڑوں کا ایک بینر تالاب چوک پر لگا ہوا ہے، وہ چوراہا جہاں علاقے کی جامع مسجد واقع ہے اور جہاں گذشتہ سال پہلی بار جھڑپیں ہوئی تھیں۔
ایک اور بینر صرافہ بازار میں لگایا گیا ہے، بازار کا وہ علاقہ جہاں گذشتہ سال فسادیوں نے دھان منڈی مسجد کو نقصان پہنچایا تھا۔
ایک مسلمان تاجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ یہ بینرز ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں۔ ’’انھیں بالکل اسی جگہ لگایا گیا ہے جہاں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔‘‘
10 اپریل 2022 کی شام کو رام نومی منانے والے ہندو گروپوں کے ذریعے جامع مسجد کے باہر اونچی آواز میں اشتعال انگیز موسیقی بجانے کے بعد کھرگون میں تشدد پھیل گیا تھا۔
اگلی صبح بھارتیہ جنتا پارٹی کے ریاستی وزیر داخلہ کے ذریعے یہ کہنے کے بعد کہ فسادیوں کو سزا دی جائے گی، انتظامیہ نے مسلمانوں کی ہی کئی جائیدادیں مسمار کر دیں۔ تشدد کے بعد پولیس نے 175 افراد کو گرفتار کیا، جن میں 14 کو چھوڑ کر باقی سب مسلمان تھے۔
ایک مقامی تاجر نے کہا کہ جمعرات کو رام نومی کی تقریبات سے پہلے ان بینرز نے مقامی مسلم کمیونٹی کو پریشان کر دیا ہے، لیکن زیادہ تر لوگ احتجاج کرنے سے گریزاں ہیں کیوں کہ انھیں انتظامیہ کی طرف سے مزید ردعمل کا خدشہ ہے۔
ایک پرائیویٹ اسکول کے ایک مسلم ٹیچر نے کہا ’’جے ہندو راشٹر کے زیادہ تر بینر بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں ہیں، کچھ تھانوں کے باہر اور چوکیوں کے باہر بھی۔ لیکن پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔‘‘
دریں اثنا کھرگون کے ایم ایل اے روی جوشی نے، جن کا تعلق کانگریس پارٹی سے ہے، کہا کہ وہ پولیس سے بینرز ہٹانے کے لیے کہیں گے۔ جوشی نے کہا ’’میں پولیس کو اس کی جانچ کرنے کی ہدایت دوں گا اور وہ مناسب کارروائی کریں گے۔‘‘
انھوں نے مزید کہا کہ پولیس کو پہلے ہی ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس سال رام نومی کے موقع پر مساجد کے باہر کوئی اشتعال انگیز موسیقی نہ بجائی جائے۔ جوشی نے کہا ’’پچھلی بار جب فسادات ہوئے تو پولیس غائب تھی۔ اس بار وہ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔‘‘
کھرگون بلاک کانگریس کے صدر پورنا ٹھاکر نے کہا کہ بینرز کے سامنے آنے کے باوجود شہر میں ’’سکون‘‘ ہے۔ انھوں نے کہا کہ انتظامیہ کی طرف سے دونوں برادریوں کے رہنماؤں کے ساتھ کئی امن میٹنگیں کی گئی ہیں اور تمام حساس علاقوں میں پولیس کو تعینات کیا گیا ہے۔
دریں اثنا ایک مسلمان رہائشی نے بتایا کہ پولیس نے ان کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے لیے مسلم اکثریتی محلوں میں رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔