مالدار طبقہ بھارت کی شہریت کیوں چھوڑ رہا ہے؟

حکومت کی معاشی پالیسی، مواقع کی کمی اور ملک کے نفرت آمیز سیاسی حالات اہم اسباب !

نوراللہ جاوید، کولکاتا

11سالوں میں 17لاکھ تعلیم یافتہ، کروڑ پتی افراد نے اچھی اور محفوظ زندگی کی امید میں بھارت کی شہریت ترک کی
کیا اب بھی پسماندہ طبقے اور مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوالات کھڑے کیے جائیں گے؟
اگرچہ اس وقت ’امرت پال‘ اور ’امرت کال‘ دونوں سرخیوں میں ہے مگر آج بات کریں گے امرت کال یعنی اس سنہرے دور کی جس میں جمہوری روایات، سیکولرزم کے بقا اور اس کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگتا جا رہا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سے دنیا بھر میں امیدوں سے زیادہ اندیشے ظاہر کیے جارہے ہیں۔ غیر ملکی میڈیا اور عالمی اداروں کو تشویش لاحق ہے کہ بھارت کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کی نسلی تطہیر کے اندیشے بڑھ گئے ہیں۔راہل گاندھی کی لوک سبھا کی رکنیت کا ختم کیا جانا اگرچہ قانونی معاملہ ہے مگر یہ جن حالات اور جس موقع پر ہوا ہے اس نے پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالی ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ نئے بھارت میں مخالفیں اور اپوزیشن کی آواز کو دبانے کا یہ نقطہ عروج ہے۔ سیاست کی اس نئی روایت کا انجام کیا ہوگا اور اس کی وجہ سے جمہوریت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اس تعلق سے پیشن گوئی قبل از وقت ہو گی۔ بس کہنا یہ کہ ’’وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے‘‘۔ یہ ساری تشویش اپنی جگہ لیکن وزیر اعظم مودی کے ترقی پسندی کے چہرے کی عاشق جماعت کے افراد ہی اگر محفوظ، پرسکون زندگی اور اپنے بچوں کے روشن مستقبل کے لیے بھارت کی شہریت چھوڑ کر دنیا کے امیر ترین ممالک کی شہریت حاصل کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں تو امرت کال کے تعلق سے سوالات اٹھنا لازمی ہے۔ کیوں کہ جن اندھے عاشقوں نے بانڈ کی شکل میں کروڑوں روپے چندہ دے کر بی جے پی کو دنیا کی سب سے بڑی اور مالدار پارٹی بنایا ہے، انہی کو اگر اس نئے بھارت کی ترقی پر یقین نہیں ہے تو پھر پڑوسی ممالک کے ہندو، سکھ، عیسائی اور بدھ شہریت ترمیمی ایکٹ کے ذریعے ہندوستانی شہریت کیوں حاصل کریں گے؟
75ویں یوم آزادی کے موقع پر وزیر اعظم مودی نے اعلان کیا کہ 2047میں جب بھارت اپنا سواں یوم آزادی منائے گا تب تک بھارت امرت کال میں ہوگا۔2014کے بعد سے ہی بھارت کی عظمت و رفعت کو لے کر بلند وبانگ دعوے کیے جارہے ہیں۔ وزیرا عظم مودی کے بقول ’’2014سے قبل تک دنیا بھر میں مقیم بھارتیوں کو خود کو بھارتی کہلائے جانے پر شرمندگی محسوس ہوتی تھی۔ وہ سوچتے تھے کہ انہوں نے کیا جرم کیا ہے کہ وہ بھارت میں پیدا ہوئے مگر اب وہ خود کو بھارتی کہلائے جانے پر فخر کر رہے ہیں۔ مودی دور حکومت میں بھارت کے پاسپورٹ کو لے کر بھی بڑے بڑے دعوے کیے گئے کہ اس کی اہمیت بڑھ رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 2018میں پاسپورٹ کی درجہ بندی میں بھارت کے پاسپورٹ کی اہمیت کا گراف مزید گرگیا اور اس کی کمبوڈیا کے ساتھ درجہ بندی کی گئی ۔اس وقت عالمی انڈیکس میں پاسپورٹ 84ویں پوزیشن پر ہے۔تاہم کسی ملک کی ترقی کا واحد پیمانہ پاسپورٹ کی درجہ بندی نہیں ہے بلکہ دیگر کئی اہم عوامل ہیں۔اسی طرح کسی بھی شخص کی اپنے ملک سے محبت اور وفاداری کا پیمانہ بھی پاسپورٹ نہیں ہے مگر بھارت کے پاسپورٹ کو ترک کرکے دوسرے ممالک کی شہریت حاصل کرنے کے واقعات میں اضافے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے کیوں کہ کسی بھی ملک کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ، ہنر مند، اقتصادی طور پر مستحکم ومضبوط شہری بڑا سرمایہ ہوتے ہیں۔ اگر یہ طبقہ بالخصوص امیر اور مراعات یافتہ طبقہ ہی بھارت کی شہریت ترک کرتا ہے تو یہ ملک کے لیے کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔
بھارت جیسے ترقی پذیر ممالک میں بہتر مواقع اور ملازمت کے لیے نقل مکانی کوئی نئی بات نہیں ہے۔نو آبادیاتی دور میں بھی بڑی تعداد میں کسانوں اور مزدور طبقہ کو کئی ممالک میں آباد کیا گیا۔ آزادی کے بعد نقل مکانی کرنے والوں کا رخ اور طریقہ کار تبدیل ہوگیا مگر حالیہ برسوں میں جس تیزی سے بھارت کی شہریت چھوڑنے سے متعلق جو اعداد وشمار سامنے آئے ہیں وہ یہ بتاتے ہیں کہ شہریت ترک کرنے والوں میں بڑی تعداد آسودہ حال طبقے سے ہے جنہوں نے سب سے زیادہ بھارت کی جمہوریت اور اس کے وسائل سے فائدہ اٹھایا ہے۔ نیشنلزم کے سوال پر وہی سب سے آگے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ وطن کی محبت اور اس کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر وطن چھوڑ رہے ہیں تو سوال ہے کہ حب الوطنی یا ملک کے لیے قربانی کا سارا بوجھ صرف غیر مراعات یافتہ طبقے کے کندھوں پر ہی کیوں ہو؟ جب کسان حکومت کے کسی فیصلے یا پھر آئینی اقدامات کے خلاف سڑکوں پر اترتے ہیں تو یہی مراعات یافتہ طبقہ کسانوں کی حب الوطنی پر سوالات کھڑے کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اگر اقلیتیں جمہوری نظام پر اپنے یقین و اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اپنے جائز مطالبات کے لیے سڑکوں پر احتجاج کرتی ہیں تو یہی لوگ انہیں مطعون کرنے کی مہم میں شامل ہو جاتے ہیں۔ خود احتسابی کے بجائے بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں کہ پوری دنیا آج بھارت کی طرف دیکھ رہی ہے۔ ان بلند بانگ دعوے کرنے والوں سے سوال پوچھا جانا چاہیے کہ جب پوری دنیا بھارت کی طرف دیکھ رہی تھی اور ان کے دعوے کے مطابق بھارت دنیا کے نقشے پر ایک مضبوط معیشت کے طور پر تیزی سے ابھر رہا تھا اور اس کی عظمت کا ڈنکا ہرطرف بج رہا تھا تو پھر گزشتہ دس سالوں میں سب سے زیادہ اسی کے شہریوں نے شہریت کیوں ترک کی؟ کیا اس حقیقت کے باوجود مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال کھڑے کیے جائیں گے؟
یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ وزیر اعظم مودی جس دور کو باعث شرم قرار دیتے ہیں، اسی دور یعنی 2007-2015 کے درمیان ’’گلوبل سروے ہینڈرک اینڈ اسٹریکل‘‘ کی رپورٹ کے مطابق 60 ہزار این آر آئیز نے دوبارہ ہندوستان کی شہریت حاصل کی۔ بڑی تعداد میں ہنر مند نوجوانوں نے ملک میں واپسی کی۔ ملک نے ترقی کی، شرح نمو بہتر ہونے کے بعد بھارت کو بہتر مواقع والے ملک کے طور پر دیکھا جانے لگا مگر 2015کے بعد آخر ایسا کیا ہوا کہ واپسی کے بجائے الٹا ملک سے جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ پڑوس کے مسلم ممالک میں آباد ہندو، سکھ، عیسائی اور بدھسٹوں کو مظلوم بتاکر آئین کے روح کو پامال کرتے ہوئے شہریت ترمیمی ایکٹ پاس کیا گیا مگر اس کے باوجود اتنے بڑے پیمانے پر ان ممالک سے نقل مکانی نہیں ہوئی جتنی کی امید کی جا رہی تھی۔ گزشتہ چند سالوں میں محض چار ہزار ہندوؤں نے بھارت کی شہریت حاصل کی ہے، بلکہ بعض رپورٹوں کے مطابق پاکستان اور افغانستان سے آنے والے ہندو پناہ گزیں دوبارہ اپنے ملکوں کو واپس جارہے ہیں۔ دوسری طرف سال 2022 میں دو لاکھ سے زائد لوگوں نے ہندوستانی شہریت ترک کی ہے۔ وزارت خارجہ کے ذریعہ پارلیمنٹ میں پیش کردہ رپورٹ کے مطابق 2011 سے لے کر اب تک 17لاکھ کے قریب بھارتی شہریوں نے اپنی شہریت ترک کی ہے۔2022 میں امرت کال کی شروعات ہوئی جس میں سب سے زیادہ 2018 میں 2,25,620 افراد نے شہریت ترک کی ہے، 2019 میں 1,34,56 افراد نے اور 2019 میں 1,44,017 نے شہریت ترک کی۔ 2020 میں جبکہ کورونا وبا کی وجہ سے پوری دنیا معطل ہوگئی تھی، سب سے کم 85,256 افراد نے ہندوستان کی شہریت ترک کی تھی۔ کورونا کی وبا کے اثرات کم ہونے کے ساتھ ہی 2021 میں ایک بار پھر ملک چھوڑنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور تعداد 1,63,370 تک پہنچ گئی۔
اتنی بڑی تعداد میں شہریت چھوڑنے والے کون ہیں، ان کا تعلق کس طبقے سے ہے، کیا انہیں بھارت میں مشکلات، سیکیورٹی یا عدم تحفظ کا سامنا تھا؟ کوئی شہری اپنے ملک کی شہریت کن حالات اور کن وجوہات کی بنیاد پر چھوڑتا ہے؟ عام طور پر دنیا بھر میں لوگ بہتر ملازمتوں اور بہتر مواقع کی تلاش میں اپنے ملک کی شہریت چھوڑتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے رونما ہونے والے حالات اور ناموافق سیاسی حالات کی وجہ سے بھی ملک کی شہریت چھوڑ دیتے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں بھارتی تارکین وطن کی تعداد میں قابل لحاظ اضافہ ہوا ہے۔ گلوبل ویلتھ مائیگریشن ریویو کی 2020 کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح، کاروبار کے عدم مواقع، سیکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے پیسے والے لوگ شہریت چھوڑتے ہیں۔ گلوبل ویلتھ مائیگریشن ریویو کے مطابق بھارت کی شہریت چھوڑنے کی دیگر وجوہات میں خواتین اور بچوں کی حفاظت، طرز زندگی کے عوامل، جیسے آب و ہوا اور آلودگی، مالی خدشات بشمول ٹیکس، خاندان کی بہتر صحت کی دیکھ بھال، بچوں کے لیے تعلیمی مواقع اور جابر حکومتوں سے تحفظ بھی شامل ہے۔ لندن میں قائم گلوبل سیٹیزن شپ اینڈریسیٹنڈ ایڈوائزری ہینلی اینڈ پارٹنر (global citizenship and residence advisory Henley & Partners) کی رپورٹ کے مطابق 22022 میں بھارتی شہریت ترک کرنے والوں میں سے تقریباً 7000 کی سالانہ آمدنی 8 کروڑ روپے سے زائد تھی۔ 2014 میں روزانہ بھارت کی شہریت چھوڑنے والوں کی تعداد 354 تھی جو 2022 میں اضافہ ہوکر روزانہ 604 ہو گئی۔
بھارت کی شہریت چھوڑنے والوں سے لیے گئے انٹرویوز اور تجزیے بتاتے ہیں کہ بیشتر بھارتی شہریت چھوڑنے والوں کا کہنا ہے کہ انہیں بھارت میں بہتر مواقع نہیں مل رہے ہیں، اگر کہیں اور اچھے مواقع ملیں تو پھر شہریت چھوڑنے میں حرج کیا ہے؟ بی بی سی کو دیے گئے انٹرویوز میں کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد نے بتایا کہ انہوں نے بھارت کے سیاسی حالات اور نفرت انگریز ماحول کی وجہ سے شہریت چھوڑ دی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ اگرچہ انہیں کبھی بھی نفرت انگیز حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے مگر موجودہ حالات سے وہ خوف زدہ ہیں کہ کہیں ان کے بچے اس نفرت کے شکار نہ ہوجائیں ۔ایک رپورٹ کے مطابق شہریت ترک کرنے کے پیچھے چھ وجوہات بتائی گئیں ہیں جن میں بے روزگاری کی مسلسل بلند ہوتی ہوئی شرح، نوٹ بندی کی وجہ سے ترقی کے کم مواقع اور اشیا و خدمات ٹیکس (جی ایس ٹی) کا ناقص نفاذ، بھوک، صنفی تفریق، تین عالمی انڈیکسوں میں ملک کی خراب پوزیشن، پریس کی آزادی کا نہ ہونا اور دنیا میں غریبوں کی سب سے زیادہ تعداد کا ہونا شامل ہیں۔
کیا ترک شہریت کی وجہ ملک کا معاشی ڈھانچہ ذمہ دار ہے؟
ایسا نہیں ہے کہ گزشتہ 70 برسوں میں بھارت نے ترقی نہیں کی ہے، تقسیم اور فرقہ وارانہ فسادات کے مہیب سایوں میں آزاد بھارت کی تشکیل ہوئی تو سیاسی اعتبار سے حالات انتہائی غیر مستحکم تھے۔ معاشی اعتبار سے بھی غربت اور پسماندگی کا شکار تھے مگر محض دو دہائی بعد یعنی 1960 کی دہائی کے وسط میں سبز انقلاب کی وجہ سے بھارت غذائی اجناس کو امپورٹ کرنے والے ممالک سے نکل ایکسپورٹ کرنے والے ممالک میں شامل ہو گیا۔ پھلوں، دودھ اور دالوں کی پیداوار میں ناقابل یقین اضافہ ہوا۔ 1947 کے مقابلے میں بھارت میں خواندگی کی شرح میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ نو زائیدہ بچوں کی شرح اموات کم ہوئیں۔ بھارت نے پولیو کا تقریباً خاتمہ کر دیا ہے اور کوویڈ 19 کی وباکے دوران تیزی سے ویکسین دریافت کرنے والے ممالک کی صف میں شامل ہوگیا۔ ویکسین کی تیاری نے سائنسی تحقیق اور ٹیکنالوجی میں بھارت کو ترقی یافتہ قوم بنا دیا ہے۔ ٹیلی کام انقلاب، خلائی ٹکنالوجی اور ایٹمی توانائی کے محاذ پر بھی بھارت نے ترقی کی۔انفراسٹکچر میں انقلاب آیا۔ ملک میں بڑے پیمانے پر نیشنل ہائی ویز اور ائیر پورٹس کی تعمیرات ہو رہی ہیں۔ انڈیکس ڈوئنگ بزنس میں کئی ممالک سے آگے ہے۔ امیر اور امیر ہو رہے ہیں، کروڑ پتیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ توقع ہے کہ ہندوستان میں امیر اور اشرافیہ کی آبادی میں 2031 تک 80 فیصد اضافہ ہو گا مگر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی غریب آبادی بھی بستی ہے جہاں بے روزگاری کی شرح میں خطرناک حدتک اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم بڑھتی جا رہی ہے۔ آکسفیم انڈیا کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی نصف آبادی کے پاس ملک کی محض 3 فیصد دولت ہے۔ یو این ڈی پی اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق 2020 میں بھارت میں 22.8 کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے تھے۔ وبائی امراض کے دوران عالمی سطح پر انتہائی غریب ہونے والے 79 فیصد افرار کا تعلق بھارت سے ہے۔ آکسفیم انڈیا کے مطابق بھارت میں تیزی سے متوسط طبقے کی تعداد میں کمی آتی جارہی ہے۔بھارت کی معاشی نظام کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ سوشلزم پر مبنی بھارت کی معیشت عام شہریوں کو براہ راست نفع پہنچانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے لیکن اس کے لیے کوئی ایک حکومت ذمہ دار نہیں ہے۔آزادی کے ابتدائی سال ہنگامہ خیز تھے بعد میں بھارت کے معاشی ماہرین نے بھارت کی معیشت کے مختلف عوامل اور حالت کا تجزیہ کیے بغیر صرف شہری علاقوں میں اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں غریبوں کی تعداد میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمی آنے کے بجائے اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ دیہی بھارت میں بڑے پیمانے پر جاگیردارانہ نظام جاری رہا۔ جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ کم ہے، زرعی معیشت پر آبادی کے بوجھ میں خاطر خواہ کمی نہیں آئی۔ 1990 کی دہائی میں معاشی پالیسی میں تبدیلی کے باوجود، ہندوستانی متوسط طبقے کا سائز چھوٹا ہی رہا۔متوسط طبقے کے حجم میں اضافہ کسی بھی ملک کی مضبوط معیشت کے لیے ضروری ہوتا ہے مگر اس جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ حالیہ برسوں میں ترقی کی شرح میں گراوٹ آنے کے ساتھ ساتھ بے روزگاری کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں بیرون ممالک بہتر مواقع کی تلاش میں جانا ایک بہتر متبادل ہے۔ مگر بہتر مواقع کے لیے بیرون ممالک جانا اور ملک کی شہریت کو چھوڑ دینا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ خلیجی ممالک میں پٹرول کی دریافت اور اس کے نتیجے میں روزگار کی مارکیٹ کا حجم بڑا ہونے کے بعد ہنر مند، غیر ہند مند اور مزدوری کرنے والوں کے لیے خلیجی ممالک ایک بہتر مواقع کی جگہ کے طور پر ابھرے۔ اس وقت 8.5 ملین بھارتی شہری خلیجی ممالک میں مقیم ہیں۔خلیجی ممالک اور بھارت کے درمیان معاشی تعلقات اور معاہدہ سے قطع نظر ہر مہینہ بڑی رقم زر مبادلہ کے طور پر بھارت میں آتی ہے جو اس کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی وجہ سے بھارت کے زرمبادلہ کے ذخیرہ میں کمی نہیں آتی ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا کے اعداد و شمار کے مطابق 2018-19 کے دوران، مجموعی طور پر 76.4 بلین ڈالر زر مبادلہ کے طور پر بھارت کو موصول ہوئے۔2019-20 (اپریل تا ستمبر) کے دوران 41.9 بلین امریکی ڈالر موصول ہوئے۔ آر بی آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کو موصول ہونے والی کل ترسیلات کا 82 فیصد حصہ سات ممالک متحدہ عرب امارات، امریکہ، سعودی عرب، قطر، کویت، برطانیہ اور عمان سے آیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خلیجی ممالک میں تیل کی قیمتوں میں کمی اور مالیاتی سختی کے باوجو کل ترسیلات کا 50 فیصد حصہ انہی خلیجی ممالک سے موصول ہوا ہے۔ خلیجی ممالک نے بھارت میں متوسط طبقے کا حجم بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ متحدہ عرب امارت کو چھوڑ کر بیشتر خلیجی ممالک میں شہریت اور اقامہ کے لیے سخت قوانین نافذ ہیں۔ مگر ہم یہاں جس نقل مکانی کی بات کر رہے ہیں وہ اس لیے خطرناک ہے کہ ہنر مند اور تعلیم یافتہ طبقہ بہتر مواقع کے لیے نقل مکانی کرنے کے ساتھ شہریت کو بھی ترک کر رہا ہے۔ ایسے میں ان سے امید نہیں کی جاسکتی کہ ان کے ذریعہ زر مبادلہ کی ترسیل ہوگی۔ یہ بات اس لیے بھی تشویش ناک ہے کہ بھارت کی شہریت چھوڑنے والوں کی بڑی تعداد امیر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی ہے۔ یہ ایک مراعات یافتہ طبقہ ہے۔ انہوں نے ہندوستانی معاشی نظام اور اعلیٰ تعلیم کے ملک کے اعلیٰ اداروں سے فائدہ اٹھایا ہے مگر اب وہ بہتر مستقبل کے لیے کسی اور ملک کی طرف دیکھ رہے ہیں۔بڑے پیمانے پر بھارت سے سرمایہ کی منتقلی کی وجہ سے ملک کو ٹیکس کی منصوبہ بندی اور اقتصادی اہداف کو پورا کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کی وجہ سے اس کی معیشت کو براہ راست نقصان پہنچے گا۔
وزارت داخلہ نے پارلیمنٹ میں دعویٰ کیا کہ ہندوستانی شہریت ترک کرنے کی وجوہات ذاتی ہیں، اس کی وجہ سے بھارت کی معیشت کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ تاہم 2018 میں مورگن اسٹینلے کی رپورٹ کا تجزیہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ذاتی وجوہات سے کہیں زیادہ ملک کی موجودہ اقتصادی رفتار، ٹیکس نظام، مرکزی ایجنسیوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اور ملک کی سیاسی اور سماجی حالات بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں کیوں کہ عالمی انڈیکس میں بھارت کی جمہوریت سمٹتی جا رہی ہے۔ پریس کی آزادی میں بھی کمی آئی ہے۔ ملک کی معیشت پر چند افراد کا دبدبہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال اقتصادی سرگرمیوں کے لیے سازگار نہیں ہے۔ چنانچہ 2014 سے 2018 کے درمیان 23 ہزار کروڑ پتیوں نے شہریت چھوڑ دی ہے۔ بھارت کی شہریت چھوڑنے والوں میں بڑی تعداد کا تعلق اشرافیہ سے ہونے کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ جو لوگ بھارت کی شہریت چھوڑ رہے ہیں وہ ایسے ممالک میں آباد ہو رہے ہیں جہاں شہریت کے سخت قوانین کے علاوہ قابل، ہنر مند اور مالی طور پر مستحکم ہونا لازمی ہے۔ فروری میں وزارت خارجہ کے ذریعہ پارلیمنٹ کو فراہم کی گئی معلومات کے مطابق شہریت چھوڑنے والوں کی پہلی پسند امریکہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، اٹلی، کینیڈا، انگلینڈ اور دیگر یورپی ممالک شامل ہیں۔ ان ممالک نے اگرچہ ٹیکس میں اگرچہ دے رکھی ہے لیکن شہریت کے قوانین سخت ہیں۔ اس کے باوجود اگر ان ممالک کی طرف بھارت کے شہری رخ کر رہے ہیں تو مطلب واضح ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ان کے شرائط پر کھرے اترتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس سلسلے پر کیسے روک لگائی جائے؟ کیا دوہری شہریت دے کر ملک سے جانے والے ہنر مند اور کروڑ پتیوں کو راغب کیا جاسکتا ہے؟ ہندوستانی شہریت ایکٹ 1955 کے تحت ہندوستانی نژاد افراد کو دو ممالک کی شہریت کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کسی شخص کے پاس کبھی ہندوستانی پاسپورٹ ہے اور پھر وہ کسی دوسرے ملک کا پاسپورٹ حاصل کرتا ہے، تو اسے دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرنے کے فوراً بعد اپنا ہندوستانی پاسپورٹ واپس سونپنا ہوگا۔ ہندوستانیوں کے اپنی شہریت ترک کرنے کے بعد بھارت کی شہریت ترک کرنے کے سرٹیفکیٹ کے لیے درخواست دینا ضروری ہے۔ اس کے بعد ان کے پاسپورٹ پر مہر لگا دی جاتی ہے کہ’’غیر ملکی شہریت حاصل کرنے کی وجہ سے ہندوستانی پاسپورٹ منسوخ کر دیا گیا ہے۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ دنیا کے کئی ممالک نے دوہری شہریت سے متعلق قوانین میں تبدیلی کی ہے کیوں کہ جن ممالک کے پاسپورٹ، رینکنگ اور انڈیکس میں سرفہرست ہیں ان ممالک کے پاسپورٹ حاملین کے لیے حمل و نقل کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ اس وقت ہندوستانی پاسپورٹ کی ریکنگ 84ویں پوزیشن پر ہے جب کہ جاپان اور سنگاپور پہلے نمبر ہیں۔ جرمنی اور جنوبی کوریا دوسری پوزیشن پر، فرانس کا درجہ چوتھا، آسٹریلیا اور کینیڈا کا ساتواں اور امریکہ اور برطانیہ چھٹویں نمبر پر ہیں۔ اس لیے ان ترقی یافتہ ممالک کی شہریت حاصل کرکے تجارتی دورے کو آسان بنایا جاتا ہے۔ دوہری شہریت سے متعلق یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ دونوں ممالک میں اپنی سرگرمی جاری رکھنے کے مواقع ہوتے ہیں۔دوہری شہریت کو حل کے طور پر پیش کرنے والے یہ جانتے ہیں کہ بھارت کی شہریت ترک کرنے والوں کے لیے حکومت نے کئی رعایتیں دے رکھی ہیں جن میں اووسیز کارڈ بھی ہے۔ اس کارڈ کے حاملین زرعی زمین کے علاوہ بھارت میں کاروبار اور دیگر سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں۔دراصل دوہری شہریت کے سوال سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ملک کے اقتصادی اور سماجی تانے بانے کو از سرنو مرتب کیا جائے۔ سماجی و اقتصادی جبر کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اس اعدادو شمار کو ویک اپ کال کے طور پر لینا چاہیے کہ ہمارے نوجوان اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ممالک کی طرف رخ کیوں کرتے ہیں۔ جنگ زدہ ملک یوکرین میں اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر ہمارے نوجوان وہاں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ کیا ہم ان نوجوانوں کو ملک میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم نہیں کرسکتے؟ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سماجی تانے بانے کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے تو نقل مکانی میں مزید اضافہ ہوگا کیوں کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں جب سیاسی و سماجی عدم استحکام کی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو اس ملک کا خوش حال لیکن خود غرض طبقہ ہی سب سے پہلے محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں نکل جاتا ہے۔ اس وقت حب الوطنی یا دیش کے لیے قربانی کے تمام نعرے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 وزارت داخلہ نے پارلیمنٹ میں دعویٰ کیا کہ ہندوستانی شہریت ترک کرنے کی وجوہات ذاتی ہیں، اس کی وجہ سے بھارت کی معیشت کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ تاہم 2018 میں مورگن اسٹینلے کی رپورٹ کا تجزیہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ذاتی وجوہات سے کہیں زیادہ ملک کی موجودہ اقتصادی رفتار، ٹیکس نظام، مرکزی ایجنسیوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اور ملک کی سیاسی اور سماجی حالات بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں کیوں کہ عالمی انڈیکس میں بھارت کی جمہوریت سمٹتی جا رہی ہے۔ پریس کی آزادی میں بھی کمی آئی ہے۔ ملک کی معیشت پر چند افراد کا دبدبہ بڑھتا جا رہا ہے


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 اپریل تا 08 اپریل 2023