معدنی ذخائر سے مالامال کشمیر!

ساٹھ لاکھ ٹن ’’لیتھیم‘‘ کے ذخائر ! کیا قدرتی دولت کا استعمال عوام کی بدحالی دور کرنے کے لیے کیا جائے گا؟

زعیم الدین احمد حیدرآباد

نو فروری 2023 کو وزارت معدنیات نے حیرت انگیز اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جموں وکشمیر کے ضلع ریاسی میں تقریباً ساٹھ لاکھ ٹن ’’لیتھیم‘‘ کے ذخائر موجود ہیں۔ یہ وہ دھات ہے جس کی دنیا میں اس وقت بڑی مانگ ہے اور جسے ’سفید سونا‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہی لیتھیم ہے جس کا استعمال بیٹریاں بنانے میں کیا جاتا ہے۔ دور جدید میں اس دھات کو بڑی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس دھات کو روایتی ایندھن کے نعم البدل کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے۔ فضائی آلودگی سے بچنے کے لیے جتنے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں ان میں پٹرول و ڈیزل اور دیگر گیسوں کے استعمال کو کم کرنا بھی شامل ہے انہی میں سے ایک لیتھیم کو بھی مانا جا رہا ہے تب ہی اسے سفید سونے کی قدر کا درجہ حاصل ہوا ہے۔ لیتھیم کے استعمال میں غیر معمولی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ آج کل ہم جو موبائل فون استعمال کر رہے ہیں جسے اسمارٹ فون بھی کہا جاتا ہے، اس میں جو بیٹری استعمال ہوتی وہ بھی لیتھیم سے بنی ہوتی ہے۔ دور جدید کی شان سمجھے جانے والی الکٹرک کاروں میں جو بیٹری کا استعمال ہوتا ہے وہ بھی لیتھیم سے بنی ہوئی ہوتی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے یہ قدرتی دھات کتنی اہمیت کی حامل چیز بن گئی ہے۔
دنیا بھر پائے جانے والے اس قدرتی معدنی ذخائر کا تخمینہ لگائیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ دنیا میں سب سے زیادہ لیتھیم کا ذخیرہ جنوبی امریکی ملک چلی میں پایا جاتا ہے، جہاں نو عشاریہ دو ملین ٹن یعنی بانوے لاکھ ٹن لیتھیم کا ذخیرہ موجود ہے۔ دوسرے نمبر پر آسٹریلیا ہے جہاں پانچ عشاریہ سات ملین ٹن یعنی ستاون لاکھ ٹن لیتھیم کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب جموں وکشمیر میں پائے جانے والے معدنی ذخائر ملک کی قسمت بدلنے والے ہیں!
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ یہ دھات اس وقت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اسمارٹ فون چاہے کسی بھی ملک کا ہو کسی بھی کمپنی کا ہو اس میں یا تو لیتھیم آئن بیٹری پائی جاتی ہے یا تو لیتھیم پولیمر بیٹری پائی جاتی ہے۔ اس وقت جو بھی الکٹرک کار بنائی جا رہی ہیں اس میں لیتھیم بیٹری ہی پائی جاتی ہیں، دیگر بیٹریاں جیسے لیڈ ایسڈ بیٹریوں کے مقابلے میں لیتھیم بیٹریوں کی مدت حیات تقریباً دس گنا زیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح لیتھیم بیٹریوں کا وزن دیگر بیٹریوں کے مقابلے میں ساٹھ فیصد کم ہوتا ہے، یہی نہیں بلکہ اس کی کارکردگی بھی دیگر بیٹریوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قابل تجدید توانائی یعنی ریونیوایبل انرجی کو محفوظ کرنے کے لیے لیتھیم کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہمارے ملک نے سال 2020-21 میں دیگر ممالک سے آٹھ ہزار آٹھ سو کروڑ روپے کی لیتھیم بیٹریاں اور ایک سو ستر کروڑ روپے کا لیتھیم درآمد کیا ہے۔ سال 2022 میں بین الاقوامی سطح پر کل لیتھیم کی قدر تقریباً سات ہزار کروڑ ڈالرس تھی اور امید کی جارہی ہے کہ اس کی قدر سال 2028 تک دو عشاریہ چھبیس لاکھ کروڑ ڈالرس کو پار کر جائے گی۔ جیسے جیسے پٹرول و ڈیزل کی گاڑیوں کا استعمال کم ہوگا ویسے ویسے الکٹرک گاڑیوں کا استعمال بڑھنے کی امید کی جا رہی ہے، چونکہ الکٹرک گاڑیوں میں لیتھیم کی بیٹریاں ہوتی ہیں اسی لیے اسی تناسب سے اس کی طلب میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوگا۔ حکومتی سطح پر بھی فضائی آلودگی کو مدنظر رکھتے ہوئے لیتھیم بیٹریوں کے استعمال کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ ایسی صورت میں یہ بات یقینی ہے کہ مستقبل میں لیتھیم کا استعمال زیادہ ہوگا۔ اسی طرح ہوائی توانائی کو محفوظ کرنے کے لیے لیتھیم بیٹریوں کے استعمال میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوگا۔
ان تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے لیتھیم دھات کو متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ معدنی ذخائر دنیا کے مختلف ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ اس بات کی دریافت کہ یہ دھات کے ذخائر ہمارے ملک کے مرکزی زیرانتظام علاقے جموں وکشمیر میں موجود ہیں ہمارے لیے خوش آئند بات تو ہے لیکن اندیشہ ہے کہ کیا لیتھیم کا استعمال کسی ماحولیاتی خرابی کا باعث تو نہیں بنے گا؟ یہ زمین کے اندر کس سطح پر ہے؟ اسے کیسے باہر نکالا جاسکتا ہے؟ اس ذخیرے کے نکالنے کی وجہ سے ماحولیات پر کس قسم کے اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ یہ بڑے اہم سوالات ہیں۔ یہ بات کہی جاتی ہے کہ پٹرول، ڈیزل اور دیگر گیسوں کے استعمال سے فضا آلودہ ہو رہی ہے، کاربن کے بھاری اخراج سے ماحولیاتی خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں، اس مسئلہ سے چھٹکارا پانے کے لیے توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کیے جا رہے ہیں۔ انہیں میں سے ایک لیتھیم دھات بھی ہے۔ کیا اس کے استعمال سے ماحولیاتی خرابی پیدا نہیں ہوگی؟ یہ جاننا بھی ضروری ہے۔
جموں وکشمیر میں جو ذخائر موجود ہیں انہیں ’’انفرڈ ریسورسیس‘‘ (اندازہ شدہ وسائل) کہا جاتا ہے یعنی ایسے ذخائر جن کے بارے میں صرف اندازہ لگایا جاسکتا ہے لیکن یقینی طور یہ ذخائر کتنی مقدار میں ہیں، اس کا معیار کیا ہے، اس ذخیرے کو نکالنے میں کتنا خرچ آئے گا، کیا اس کا نکلنا معاشی طور پر فائدہ مند ثابت ہوگا؟ اس کے کیا ماحولیاتی اثرات مرتب ہوں گے؟ ان تمام باتوں کا اندازہ لگایا جانا ابھی باقی ہے۔ ایسے ذخائر کو ’’انفرڈ ریسورسیس‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی اس بابت مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔
جیالوجیکل سروے آف انڈیا نے جموں وکشمیر میں پائے جانے والے معدنی ذخائر کو جی-3 درجے میں رکھا ہے اور کہا ہے کہ ہمیں ان معدنی ذخائر کو جی-2 یا جی-1 درجے تک لے جانے کے لیے مزید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ ہمیں صرف معلوم ہوا ہے کہ ان علاقوں میں لیتھیم کے ذخائر موجود ہیں۔ بات یہ ہے کہ انفرڈ ریسورسیس (اندازہ) کے اوپر کا درجہ ہوتا ہے، انڈیکیٹیڈ ریسورسیس (معلوم شدہ) پھر اس سے ایک درجہ اوپر ہوتا ہے میژر ریسورسیس (پیمائش کردہ) پھر پرووین ریزروس (مصدقہ) پروبیبل ریزروس (ممکنہ) ان سب کے بعد علم طبقات الارض سے معلوم ہوسکتا ہے کہ لیتھیم کا کتنا ذخیرہ موجود ہے۔ لیکن یہ بات بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اس ذخیرے کو نکالنے میں کتنے سرمایہ کی ضرورت ہوگی۔ کیا اس کے ماحولیاتی اثرات بھی مرتب ہوں گے اور اس کا نکالنا معاشی اعتبار سے مفید ثابت ہوگا اس کا تخمینہ لگانا بھی ضروری ہے۔ تبھی تو جیالوجیکل سروے آف انڈیا نے اسے جی-3 کے درجے میں رکھا ہے جس میں یہ پتہ چلے گا کہ کتنا ذخیرہ موجود ہے، کتنا نکالا جاسکتا ہے اور وہ کس معیار کی دھات ہوگی وغیرہ۔ ان سب کی تحقیق کے لیے اس محکمے کو تقریباً پانچ سے سات سال لگ سکتے ہیں تبھی یہ سارے راز آشکار ہو سکتے ہیں۔ 2021 میں اسی طرح کی ایک خبر ریاست کرناٹک سے آئی تھی جب وہاں کی حکومت نے کہا تھا کہ اسے ایک ہزار چھ سو ٹن لیتھیم کے ذخائر ملے ہیں، اس وقت بھی ان ذخائر کو جی-3 کے درجے میں ہی رکھا گیا تھا۔ اب ریاست جموں و کشمیر کی خبر بھی ہمارے ملک کے لیے خوش آئند ہے لیکن یہ ذخائر ریاست کرناٹک میں دریافت شدہ ذخائر سے کہیں زیادہ ہیں۔
لیتھیم کے اس انفرڈ درجے کے ذخائر کے اعتبار سے سب سے زیادہ ذخائر بولیویا میں پائے جاتے ہیں، جہاں اندازہ کے مطابق اکیس ملین ٹن لیتھیم کے ذخائر موجود ہیں۔ دنیا میں اس وقت لیتھیم کی جملہ سربراہی ستاسی ملین ٹن، یعنی آٹھ عشاریہ سات کروڑ ٹن کی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا میں جتنے ذخائر موجود ہیں ان کا تقریباً پانچ عشاریہ پانچ ملین ٹن ہمارے ملک میں موجود ہے۔ دنیا بھر میں جتنے ذخائر پائے جاتے ہیں ان کا آدھا حصہ جنوبی امریکی ریاستوں بولیویا، چلی اور ارجنٹائن میں پایا جاتا ہے۔ دوسری طرف اس ذخیرے کا استعمال کرکے بیٹریاں بنانے والا سب سے بڑا ملک چین ہے۔ لیتھیم بیٹریاں بنانے میں چین کی حصہ داری پچھتر فیصد سے زیادہ ہے۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے مطابق بین الاقوامی سطح پر لیتھیم پروسیسنگ میں اٹھاون فیصد حصہ چین کا ہی ہے۔ دوسرے درجے میں چلی ہے جس کی انتیس فیصد حصہ داری ہے اور تیسرے درجے میں ارجنٹائن ہے جس کی حصہ داری دس فیصد ہے۔ جہاں تک لیتھیم کے ذخائر کو نکالنے کی بات ہے اس میں آسٹریلیا سب سے اوپر ہے، جس کا حصہ تقریباً باون فیصد ہے۔ دوسرے نمبر پر چلی ہے جو بائیس فیصد تک کانکنی کرتا ہے اور تیسرے نمبر پر چین ہے جو تقریباً تیرہ فیصد کانکنی کرتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان ذخائر کو نکالنے میں کسی قسم کے ماحولیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ جی ہاں! اس کے بہت شدید ماحولیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جس طرح دوسری دھاتوں کی کانکنی سے پانی، مٹی اور فضائی آلودگی پیدا ہوتی ہے اسی طرح لیتھیم کی کانکنی سے بھی پانی، مٹی اور فضائی آلودگی ہوتی ہے۔ لیتھیم کو زمین سے نکالنے کا جو عمل ہے وہ بہت زیادہ پانی کا طالب ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک ٹن لیتھیم کو نکالنے کے لیے دو عشاریہ دو ملین لیٹرس پانی درکار ہوتا ہے اور یہ کوئی معمولی مقدار نہیں ہے۔ اس کے علاوہ لیتھیم کی کانکنی زیر زمین سخت گیر پتھروں اور زیر زمین پانی کے ذریعے کی جاتی ہے جس سے زیر زمین پانی کی سطح میں خطرناک حد تک کمی واقع ہو سکتی ہے اور زمین کھسکنے کے واقعات میں بھی غیر معمولی اضافہ ہو سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان معدنی ذخائر کے نکلنے سے وہاں کے عوام کو کچھ فائدہ ہو گا بھی یا یہ بھی سیاست دانوں کی تجوریاں بھرنے کے کام آئے گا؟ کیا ملک کی معاشی بد حالی دور ہوگی یا چند حکومت کے دل پسند سرمایہ داروں کی چھولی بھرے گی؟ یہ معدنی ذخائر عوام کی خوشحالی کا ذریعہ بنیں گے یا سرمایہ داروں کے سرمایہ میں مزید اضافے کا؟ یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ یہ قدرتی ذخائر جن ممالک میں بھی پائے گئے انہوں نے یا تو زبردست معاشی ترقی کی ہے یا یہ ذخائر ان کے لیے تباہی کا باعث بن گئے۔ یہ بھی ایک تحقیق کا موضوع ہے، اس پر ہم آئندہ لکھنے کی کوشش کریں گے۔
***

 

***

 جموں وکشمیر میں جو ذخائر موجود ہیں انہیں ’’انفرڈ ریسورسیس‘‘ (اندازہ شدہ وسائل) کہا جاتا ہے یعنی ایسے ذخائر جن کے بارے میں صرف اندازہ لگایا جاسکتا ہے لیکن یقینی طور یہ ذخائر کتنی مقدار میں ہیں، اس کا معیار کیا ہے، اس ذخیرے کو نکالنے میں کتنا خرچ آئے گا، کیا اس کا نکلنا معاشی طور پر فائدہ مند ثابت ہوگا؟ اس کے کیا ماحولیاتی اثرات مرتب ہوں گے؟ ان تمام باتوں کا اندازہ لگایا جانا ابھی باقی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 مارچ تا 01 اپریل 2023