اپوزیشن کے احتجاج کے درمیان لوک سبھا نے ڈیٹا پروٹیکشن بل پاس کیا

نئی دہلی، اگست 7: لوک سبھا نے پیر کو ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل کو اپوزیشن کے احتجاج کے درمیان صوتی ووٹ سے منظور کر لیا۔

یہ ڈیٹا پرائیویسی سے متعلق ہندوستان کا پہلا قانون ہوگا اور یہ سپریم کورٹ کے ذریعے متفقہ طور پر رازداری کے حق کو تمام ہندوستانیوں کا بنیادی حق قرار دینے کے چھ سال بعد آیا ہے۔

الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے وزیر اشونی ویشنو نے کہا کہ ’’اچھا ہوتا اگر اپوزیشن آج [ایوان میں] اس بل پر بحث کرتی۔ لیکن کسی اپوزیشن لیڈر یا رکن کو شہریوں کے حقوق کی فکر نہیں۔‘‘

بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے کہا ہے کہ یہ بل شہریوں کے ذاتی ڈیٹا کی حفاظت کرے گا اور ’’جدید معیشت‘‘ کو وسعت دینے کی اجازت دے گا۔ یہ سرکاری ایجنسیوں اور نجی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ کلاؤڈ سروس فراہم کنندگان یا تجزیاتی فرموں جیسے ڈیٹا پروسیسرز کے ذریعہ ذاتی ڈیٹا کو جمع کرنے، پروسیسنگ، ذخیرہ کرنے، منتقلی اور حذف کرنے کے قوانین مرتب کرتا ہے۔

اس بل میں ڈیٹا فیڈیشرز سے کے لیے بھی ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ معمول کے معاملے کے طور پر کسی شہری کے ذاتی ڈیٹا پر کارروائی کے لیے رضامندی حاصل کریں اور فرد کو اپنے ڈیٹا تک رسائی، اسے درست کرنے، مٹانے، پورٹ کرنے اور اسے محدود کرنے کا حق فراہم کرتا ہے۔ یہ افراد کے ڈیجیٹل ڈیٹا کے غلط استعمال یا حفاظت میں ناکامی پر اداروں پر 250 کروڑ روپے تک کے جرمانے کی تجویز پیش کرتا ہے۔

تاہم یہ بل حکومت کو ’’قومی سلامتی اور وبائی امراض اور زلزلوں جیسی ہنگامی صورت حال‘‘ کے دوران شہریوں کے ذاتی ڈیٹا تک ’’قانونی اور جائز رسائی‘‘ کی بھی اجازت دیتا ہے۔

اپوزیشن اور سول سوسائٹی کے رہنماؤں نے دعویٰ کیا ہے کہ مجوزہ قانون رازداری کے حق کی خلاف ورزی کر سکتا ہے اور حکومت کو بڑے پیمانے پر عام شہریوں کی ناجائز جاسوسی اور نگرانی کے قابل بنا سکتا ہے۔

اتوار کو ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے ایک بیان میں کہا کہ یہ بل شہریوں کی نگرانی کے لیے فریم ورک بنانے کی اہلیت رکھتا ہے۔

بل کے سیکشن 36 کے تحت حکومت کسی بھی سرکاری یا نجی ادارے سے شہریوں کی ذاتی معلومات فراہم کرنے کے لیے کہہ سکتی ہے۔ گلڈ نے مزید کہا کہ اس سے آزادی صحافت پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔

ایسوسی ایشن نے لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا پر زور دیا کہ وہ اس بل کو دوبارہ غور کے لیے پارلیمانی کمیٹی کو بھیجیں۔

کئی کارکنوں اور ماہرین نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بل معلومات کے حق کی دفعات کو کمزور کر دے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بل ’’نجی معلومات‘‘ کے دائرہ کار کو بڑھاتا ہے اور اس لیے اس بات کا خدشہ پیدا کرتا ہے کہ سرکاری اہلکار اپنی سرگرمیوں کے بارے میں یہ دعویٰ کر کے معلومات چھپا سکتے ہیں کہ یہ ’’نجی معاملات‘‘ ہیں۔