لوک سبھا الیکشن،آئین ہند ،ووٹ کی اہمیت اور ہندی مسلمان
حق رائے دہی کا استعمال قیام عدل وقسط کے لیے ماحول سازی کا ایک موقع
محمد آصف اقبال، نئی دہلی
امن کی برقراری اور ظلم کے خاتمے کے لیے بھارتی مسلمانوں پر دوہری ذمہ د اری عائد
لوک سبھا الیکشن 2024کواس لحاظ سے حد سے زیادہ اہمیت دی جارہی ہے کہ دس سالہ برسراقتدار حکومت اگر دوبارہ منتخب ہوکر آتی ہے تو خیالِ عام ہے کہ مزید پانچ سال بعد اس طرح لوک سبھا الیکشن نہیں ہوں گے جیسا کہ اب ہورہے ہیں۔ویسے اپوزیشن پارٹیاں اب بھی برسراقتدار پارٹی پر الزام عائد کررہی ہے کہ الیکشن آزادانہ اور منصفانہ انداز میں نہیں ہو رہے ہیں۔جیسا کہ بہت سی پارٹیوں کے لیڈران جیلوں میں بند ہیں اور انہیں عوام میں اپنی بات کہنے کا موقع نہیں مل رہا ہے ۔ اسی طرح بہت سے سرکردہ سماجی کارکن،پروفیسر،وکیل اور صحافی بھی جیلوں میں بند ہیں۔ اگرچہ ان کے جیلوں میں بند ہونے کی وجوہات بتائی گئی ہیں لیکن جو بند ہیں ان کے متعلقین کا کہنا ہے کہ وہ ملزم ہیں مجرم نہیں ہیں اور ملزم پر جب تک جرم ثابت نہ ہوجائے اسے جیل میں بند نہیں کرنا چاہیے۔اورخصوصاً اس وقت جب الیکشن قریب ہوں۔ آخر سیاسی لیڈران کو جیلوں میں بند کیوں کیا جارہا ہے ؟یہ کام تو الیکشن کے بعد بھی ممکن ہے۔اسی تعلق سے حالیہ دنوں میں الپا شاہ کی کتاب The incarcerations(قید و بند) شائع ہوئی ہے جواس موضوع پر مزید روشنی ڈالتی ہے، ممکن ہو تو قارئین کو اِسے پڑھنا چاہیے ۔
ملک میں جب کبھی الیکشن آتے ہیں تو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے تصور پر گفتگو ہوتی ہے جو بنیادی طور پر سیاسی آزادی اور مساوات سے متعلق ہے۔ انتخابی معاملات میں اس کا مطلب یہ ہے کہ انتخابی عمل کے تحت کوئی بھی شخص کسی دوسرے کی غلامی میں نہیں ہے، اس کے ذاتی حقوق، سماجی اور سیاسی آزادی، آزادانہ سوچ اور انتخاب قانونی نظم و ضبط کے تابع ہیں۔ساتھ ہی اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوئے کوئی بھی پارٹی ڈسپلن، مذہب، ذات پات، عقیدہ، جنس، زبان کے زیر اثر نہیں ہے اور کوئی بھی بدعنوان طرز عمل وغیرہ کی زد میں نہیں ہے۔ اس طرح آزادانہ اور منصفانہ انتخابات جمہوری طرز حکومت کی بنیاد ہیں۔
دوسری جانب سیاسی لیڈر،سماجی کارکنان،عوامی نمائندوں اور میڈیا سے وابستہ حضرات اس جانب بھی اشارہ کررہے ہیں کہ اگر برسراقتدار حکومت دوبارہ اقتدار اپنے ہاتھ میں لیتی ہے تو ہندوستان کے آئین میں کچھ بڑی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔جس کے بعد بھارت کے آئین کی وہ حیثیت نہیں رہے گی جو فی الوقت ہے۔ لوک سبھا الیکشن2024کے تعلق سے یہ دو اہم تذکرے عوام و خواص میں گفت و شنید کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔لہٰذا ضروری ہے کہ پہلے ہندوستان کے آئین کی چند نمایاں اور اہم خصوصیات دیکھ لی جائیں اور اس کے بعد لوک سبھا الیکشن میں ووٹ کی حیثیت اور اہمیت کو بھی سمجھنے کی کوشش کی جائے۔بھارت کے آئین کی تمہید کہتی ہے کہ: ’’ہم بھارت کے عوام متانت و سنجیدگی سے عزم کرتے ہیں کہ بھارت کو ایک مقدر سماج وادی غیر مذہبی وعوامی جمہوریہ بنائیں اور اس کے تمام شہریوں کے لیے حاصل کریں۔ (i) انصاف، سماجی معاشی اور سیاسی۔ (ii) آزادی خیال، اظہار، عقیدہ، دین اور عبادت۔ (iii) سب کے درمیان مساوات بہ اعتبار حیثیت اور موقع (iv) اخوت کا فروغ ، جس سے فرد کی عظمت اور قوم کے اتحاد اور سالمیت کا تیقن ہو؛ آئین ساز اسمبلی میں آج چھبیس نومبر 1949 کو یہ آئین ذریعہ ہذا اختیار کرتے ہیں ، وضع کرتے ہیں اور اپنے آپ پر نافذ کرتے ہیں۔‘‘
آئین ہند ،جمہوریہ بھارت کا دستور اعلیٰ ہے۔ اس ضخیم قانونی دستاویز میں جمہوریت کے بنیادی سیاسی نکات اور حکومتی اداروں کے ڈھانچہ، طریقہ کار، اختیارات اور ذمہ داریوں نیز بھارتی شہریوں کے بنیادی حقوق، رہنما اصول اور ان کی ذمہ داریوں کو بیان کیا گیا ہے۔ آئین ہند دنیا کا سب سے بڑاتحریری دستور ہے ۔آئین ہند کی مجلس مسودہ سازی کے صدر بی آر امبیڈکر کو عموماً اس کا معمار اعظم کہا جاتا ہے۔آئین ہند کے مطابق بھارت میں دستور کو پارلیمنٹ پر فوقیت حاصل ہے کیونکہ اسے مجلس دستور سازنے بنایا تھا نہ کہ بھارتی پارلیمنٹ نے؟ آئین ہند کی تمہید کے مطابق بھارتی عوام نے اسے وضع اور تسلیم کیا ہے۔لہٰذا پارلیمنٹ آئین کو معطل نہیں کر سکتی ہے۔آئین ہند، بھارت کو آزاد، سماجی، سیکولر اور جمہوری ملک بناتا ہے جہاں عوام کے لیے انصاف، مساوات اور حقوق کو یقینی بناتا ہے اور سب مذہبی برادریوں کو فروغ دینے پر ابھارتا ہے۔بھارت کے آئین کے کسی حصہ میں اضافہ کرنے، کچھ حذف کرنے یا تبدیلی کرنے کے لیے پارلیمنٹ کو ترمیم کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ دفعہ 368 میں ترمیم کی تفصیل درج ہے۔ترمیمی بل دونوں ایوانوں سے کل ارکان میں سے دو تہائی ارکان کی منظوری ضروری ہے اور وہ بھی اس صورت میں کہ دو تہائی ارکان ایوان میں حاضر ہوں۔ دستور کے فیڈرل طبیعت والی دفعات میں ترمیم کے لیے بھی صوبائی مققنہ کی اکثریت کا ووٹ ضروری ہے۔ دفعہ 245 اور (مالی بل) کے علاوہ کسی بھی بل کے لیے لوک سبھا اور راجیہ سبھا کا مشترک اجلاس ضروری نہیں ہے۔ جب پارلیمنٹ کا کام کاج نہیں چل رہا ہو تب صدر کسی بھی بل کو دفعہ 123، باب 3، آئین میں ضروری ترامیم کے تحت اپنے مقننہ اختیار کو حاصل کر کے ممتاز نہیں کر سکتا ہے۔ صدر کو یہ اختیار 24ویں ترمیم میں دفعہ 368 الف میں دیا گیا ہے۔ 252 ترمیم کے اتنے سخت قوانین کے بعد بھی آئین ہند دنیا کے سب سے زیادہ ترمیم کیے جانے والے دستوروں میں سے ایک ہے۔اس پس منظر میں یہ بات تو واضح ہے کہ ترمیمات ہوتی رہی ہیں اور حسب ضرورت آئندہ بھی ہوتی رہیں گی۔لیکن جن ترمیمات کے اشارے لوک سبھا الیکشن2024کے بعد کے سلسلے میں کیے جارہے ہیں اس میں کتنی حقیقت ہے؟یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
لوک سبھا الیکشن2024کے تعلق سے ایک دوسرا پہلو جو گزشتہ ایک سال سے خصوصاً ابھر کر سامنے آرہا ہے وہ سیاسی پارٹیوں کی شناخت کو کمزور کرنے، ان کے لیڈروں کو خرید و فروخت کے ذریعہ اپنی جانب مائل کرنے یا پھر کرپشن کے نام پر سیاسی نمائندوں، وزراء ریاست اور یہاں تک کہ چیف منسٹروں کو راست نہ سہی بالواسطہ طور پر برسراقتدار پارٹی میں شمولیت کے لیے مجبور کرنا ہے جو عرف عام میں ’آپریشن لوٹس‘کے نام سے مقبول ہے۔دی انڈین ایکسپریس نے رپورٹ میں بتایا ہے کہ اپوزیشن کے 25 لیڈر جنہوں نے مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کی جانب سے کارروائیوں کا سامنا کیا تھا، بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد چھوڑ دیے گئے ۔ اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ23 لیڈروں کے خلاف تفتیش ختم کر دی گئی ہے اور 2 معاملات جو سابق کانگریس کی ایم پی جیوتی مردھا اور سابق تیلگو دیشم پارٹی کے ایم پی وائی ایس چودھری سے متعلقہ ہیں، میں عدم ثبوت کی بنیاد پر مرکزی تفتیشی ایجنسیوں نے تفتیش ختم کی ہے۔ اس آپریشن لوٹس کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ تمام طرح کے افکار و نظریات اور آئیڈیالوجی کو وہ ختم کردیتا ہے اور باقی رہتا ہے تو صرف ‘ہندوتو’کا نظریہ، اس کی فکر، اس کی جستجو اور اس کے قیام کی راہوں میں تعاون و اشتراک۔ جس کے بعدیہ نہیں کہا جا سکتا کہ جو لوگ برسراقتدار پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے ہیں یعنی بی جے پی کا راست یا بلاواسطہ دامن تھامتے ہیں یا اس میں ضم ہوجاتے ہیں، اُن کا خود کا کبھی کوئی نظریہ تھا بھی یا نہیں؟ اور تقریباً اسی سے ملتی جلتی صورت حال دوسری جانب بھی ہے، یعنی اپوزیشن پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرنا یا ان میں ضم ہو جانا تو ایسے سیاسی لیڈروں کے تعلق سے بھی رائے قائم کرنے میں دشواری ہوتی ہے کہ یہ ایسا کرتے ہیں تو آخر کیوں کرتے ہیں؟کیا اقتدار میں رہ کر جائز و ناجائز مفاد ہی ان کا مقصد ہے یا اس کے علاوہ بھی ان کی نظر میں سیاست میں آنے اور داخل ہونے کا کوئی مقصد ہے؟ سادہ زبان میں کہا جائے تو عموماً سیاست داں اس شخص کو کہتے ہیں جو ‘عوامی فلاح و بہبود’ کے نام پر عوام کے درمیان سیاسی میدان میں سرگرم نظر آئے ۔لیکن ایسے سیاسی نمائندے کی کیا حیثیت جس کے پاس نہ کار ہو،نہ بنگلہ، نہ زر نہ زمین اور نہ ہی اقتدار؟اس لیے جہاں جس طرح جیسے بھی حالات میں اور جو کچھ بھی برداشت کرنا پڑے کریں گے لیکن پارٹی اگر ٹکٹ دیتی ہے یا بعد میں کچھ اہم عہدہ دینے کا اشارہ کرتی ہے تو سیاست دانوں کا ایک پارٹی سے دوسری پارٹی اور دوسری سے تیسری پارٹی میں جانا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کیونکہ عوام و خواص سبھی کی نظر میں عہدہ ہی سب کچھ ہے اور عہدوں ہی سے تمام مسائل حل بھی ہوتے ہیں۔اگر وہ مسائل عوام کے نہ ہوں، اہل سیاست کے تو حل ہو ہی جاتے ہیں۔ کبھی وہ جیل جانے سے بچ جاتے ہیں،کبھی پولیس اور ایجنسیوں کے شکنجے سے بچ جاتے ہیں تو کبھی انکم ٹیکس اور ای ڈی کے حوالے سے ان پر نرمی برتی جاتی ہے۔ اس صورت حال میں سیاسی لیڈروں، ان کی پارٹیوں اور ان کے مقاصد اور طرز عمل کو دیکھتے ہوئے ملک میں اگر کوئی سب سے زیادہ پریشانی میں مبتلا ہیں تو وہ مسلمان اور ان کے قائدین ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے مواقع پر مسلمان کون سا رویہ اختیار کریں؟ گفتگو کے اس مرحلے میں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا میں ایک جانب وہ ممالک ہیں جنہیں ’اسلامی جمہوریہ‘کہا جاتا ہے تو دوسری جانب وہ ہیں جنہیں ‘سیکولر جمہوریہ’کہا جاتا ہے اور تیسری جانب وہ بھی ہیں جن کا جھکاؤ الحاد پر ہے اور اسی فکر کے تحت وہ قوانین اور پالیسیاں بناتے اور نافذ بھی کرتے ہیں۔ لہٰذا اگر کوئی مسلمان کسی اسلامی جمہوریہ میں ہے اور ووٹ دے رہا ہے تو اس کی حیثیت تین طرح کی ہوگی :
ووٹ کی پہلی حیثیت شہادت کی ہے، یعنی اگر ایک مسلمان کسی شخص کو اپنا ووٹ دے رہا ہے تو دراصل وہ اس کے متعلق اس بات کی شہادت دے رہا ہوتا ہے کہ یہ شخص اس کام کی قابلیت رکھتا ہے اور دیانت دار اور امانت دار بھی ہے، اور اگر اس کے اندر یہ صفات نہیں ہیں اور ووٹر یہ جانتے ہوئے بھی اس کو ووٹ دیتا ہے تو وہ ایک جھوٹی شہادت ہے جو کبیرہ گناہ اور وبالِ دنیا و آخرت ہے۔ حدیث میں شہادتِ کاذبہ کو شرک کے ساتھ کبائر میں شمار کیا گیا ہے (مشکٰوۃ) ایک اور حدیث میں جھوٹی شہادت کو اکبر کبائر کہا گیا ہے (بخاری و مسلم)
دوسری حیثیت ووٹ کی شفاعت، یعنی سفارش کی ہے کہ ووٹر اس کی نمائندگی کی سفارش کرتا ہے۔ اس سفارش کے بارے میں قرآن کا یہ ارشاد ہر ووٹر کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے: ’’جو شخص اچھی سفارش کرتا ہے اس میں اس کو بھی حصہ ملتا ہے اور بری سفارش کرتا ہے تو اس کی برائی میں اس کا بھی حصہ لگتا ہے‘‘(النساء:85) یعنی اچھی سفارش یہی ہے کہ قابل اور دیانت دار آدمی کی سفارش کرے جو خلقِ خدا کے حقوق صحیح طور پر ادا کرے اور بری سفارش یہ ہے کہ نااہل، نالائق، فاسق و ظالم کی سفارش کر کے اس کو خلق خدا پر مسلط کرے۔ معلوم ہوا کہ ہمارے ووٹوں سے کامیاب ہونے والا امیدوار اپنے پنج سالہ دور میں جو نیک یا بدعمل کرے گا ہم بھی اس کے شریک سمجھے جائیں گے۔
ووٹ کی تیسری حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹ دینے والا اس امیدوار کو اپنا نمائندہ اور وکیل بناتاہے لیکن اگر یہ وکالت اس کے کسی شخصی حق کے متعلق ہوتی اور اس کا نفع نقصان صرف اس کی ذات کو پہنچتا تو اس کا یہ خود ذمہ دار ہوتا مگر یہاں ایسا نہیں کیونکہ یہ وکالت ایسے حقوق کے متعلق ہے جن میں اس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے۔ اس لیے اگر کسی نااہل کو اپنی نمائندگی کے لیے ووٹ دے کر کامیاب بنایا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اس کی گردن پر رہا۔ لہٰذا جو امیدوار نظامِ اسلامی کے خلاف کوئی نظریہ رکھتا ہے، اس کو ووٹ دینا ایک جھوٹی شہادت ہے جو گناہِ کبیرہ ہے۔ لہٰذا یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ووٹ دینے کے حق کو استعمال کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے دیے جانے والے ثواب و عذاب کا تعلق اسلامی جمہوریہ سے ہے نہ کہ سیکولر اور غیر اسلامی جمہوریہ یا الحادی جمہوریہ سے؟ لیکن اگر سیکولر،غیر اسلامی یا الحادی جمہوریہ میں مسلمان آباد ہوں تو انہیں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟یہ سوال بہت اہم ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ ’میثاقِ مدینہ‘ انسانی تاریخ کا پہلا دستور ہے جس میں مسلمانوں اور مدینہ کے غیرمسلم قبائل کے درمیان سیاسی، عسکری اور اجتماعی معاملات کے خطوطِ کار طے کیے گئے تھے، اور جس میں حضرت محمد ﷺ کو تمام امور میں آخری سند (authority) تسلیم کرکے مسلمانوں اور غیرمسلموں کے باہمی حقوق و فرائض کو مرتب کیا گیا تھا۔یہ مذہبی آزادی کا ایک میثاق ہے، جو انسان کے وقار کی توثیق پر مبنی ہے اور ہر ایک کو عقیدے کے انتخاب کی آزادی کا حق حاصل ہے۔اسلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کی رہنمائی کے لیے نازل کردہ سچا دین ہے، لیکن اگر کچھ لوگوں کی خواہش ہے کہ وہ عقائد کے کسی دوسرے نظام کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے اور اسلام ان کے اس حق کو تسلیم کرتا ہے۔اس کے باوجود آپ دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ مسلم دنیا میں، سیکولرزم ، نوآبادیاتی حکومت کے لبادے میں چھپ کر آیا ہے۔ جب یورپی سامراجی قوتوں کی سرپرستی میں چلنے والی، عیسائی مشنری تحریک خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی تو یورپی استعماری حکم رانوں، برطانوی، ہسپانوی، ولندیزی، فرانسیسی، پرتگیزی، جرمن وغیرہ نے سیکولرزم کو مسلط کرنے، اور پورے خطے کی سماجی اور سیاسی زندگی سے مذہبی اثر و رسوخ کو ختم کرنے پر توجہ دی ہے۔ چونکہ یہ بات مسلمانوں کے عقائد اور امنگوں کے منافی تھی لہٰذا مسلم معاشرہ،لبرلز اور روایت پسندوں، تبدیلی پسندوں اور مزاحمت کاروں، سیکولر اور اسلام سے محبت رکھنے والوں میں بٹ گیا۔وہیں جب مسلمان قرآن حکیم کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں ایک جانب ان کو خیر امت کا لقب دیا گیا ہے جو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں اور دوسری جانب قیام عدل و قسط کے لیے جدوجہد کرنا بھی ان کی بڑی ذمہ داریوں میں سے ایک بتائی گئی ہے۔کہا گیا کہ:”ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں ‘‘(الحدید:25) اس پس منظر میں جب ہم خود پر اور اپنے وطن عزیز پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فی الوقت جو نظام قائم ہے وہ ظلم و زیادتیوں سے بھرا ہوا ہے، جب کہ اسلام سراسر عدل ہے۔ہر انسان پیدائشی طور پر آزاد پیدا ہوا ہے۔ اس کو کسی بھی قسم کی غلامی میں جکڑنا ظلم ہے۔اس کو اپنی محنت کا پورا معاوضہ ملے، یہی عدل ہے۔ اس کا استحصال ہو، یہ ظلم ہے۔معاشرے کے ہر فرد کو برابر کا مقام اور مرتبہ حاصل ہو، یہ عدل ہے۔معاشرے میں کوئی اونچی اور کوئی نچلی ذات کا تصور اور اس کی پہچان افراد و معاشرے کا مقام و مرتبہ متعین کرنے کا ذریعہ ہو، یہ ظلم ہے۔ افرادِ معاشرہ معاشی وسائل میں سے اپنی ضروریات کے مطابق حصہ پائیں، یہ عدل ہے۔ اگر ایک طبقہ وسائل پر قابض اور عوام دو وقت کی روٹی تک سے محروم ہوں تو یہ ظلم ہے۔ حق دار کو اس کا حق اس کی دہلیز پر ملے، یہ عدل ہے۔ اگر حق پانے کے لیے نسلوں انتظار کرنا پڑے تو یہ ظلم ہے۔ مجرم کو بلا امتیاز سزا ملے، یہ عدل ہے۔ اگر کم زور سزا پائے اور طاقت ور جرم کرے اور معزز کہلائے اور سزا پانے کے تصور ہی سے ماورا ٹھیرے، یہ ظلم ہے۔لہٰذا مسلمانوں پر دوہری ذمہ داری ہے ۔ایک یہ کہ وہ دین حنیف پر مکمل عمل کریں اور اپنے قول و عمل سے اس کی تبلیغ کریں ۔دوسرے عدل و قسط کے قیام کی کوشش میں ہمہ وقت سرگرداں رہیں۔اس عدل و قسط کے قیام میں اگر ایک حکومت کو تبدیل کرکے دوسری کو لایا جائے تاکہ دین پر عمل کرنا اور انسانوں کو ظلم و زیادتیوں سے بچانے میں وہ معاون ہو تو وہ بھی کیا جائے۔ یعنی ووٹ کے ذریعہ جمہوری نظام میں تبدیلی لائی جائے۔ لیکن اِسی کو کُل نہ مان لیا جائے بلکہ یہ کوشش بڑے مقصد کا ایک حصہ سمجھی جائے ۔یہی بات اسلام اپنے ماننے والوں کو سمجھاتا ہے۔یعنی اسلام کے قیام کی سعی و جہد، فرداً فرداً بھی ہو اور معاشرے میں بھی ہو تاکہ امن و امان اور عدل و انصاف قائم ہو اور ایک مسلمان کو اللہ کی رضا، دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں حاصل ہو جائے۔
***
***
موجودہ حالات میں مسلمانوں پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ایک یہ کہ وہ دین حنیف پر مکمل عمل کریں اور اپنے قول و عمل سے اس کی تبلیغ کریں ۔دوسرے عدل و قسط کے قیام کی کوشش میں ہمہ وقت سرگرداں رہیں۔اس عدل و قسط کے قیام میں اگر ایک حکومت کو تبدیل کرکے دوسری کو لایا جائے تاکہ دین پر عمل کرنا اور انسانوں کو ظلم و زیادتیوں سے بچانے میں وہ معاون ہو تو وہ بھی کیا جائے۔ یعنی ووٹ کے ذریعہ جمہوری نظام میں تبدیلی لائی جائے۔ لیکن اِسی کو کُل نہ مان لیا جائے بلکہ یہ کوشش بڑے مقصد کا ایک حصہ سمجھی جائے ۔یہی بات اسلام اپنے ماننے والوں کو سمجھاتا ہے۔یعنی اسلام کے قیام کی سعی و جہد، فرداً فرداً بھی ہو اور معاشرے میں بھی ہو تاکہ امن و امان اور عدل و انصاف قائم ہو اور ایک مسلمان کو اللہ کی رضا، دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں حاصل ہو جائے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 اپریل تا 04 مئی 2024