لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں

مندر پر مسجد کی تعمیر یا بودھ وہاروں پر ہندو مندروں کی تعمیر؟

ابو حرم ابن ایاز شاہ پوری

مورخین کے مطابق کئی بودھ مندروں کو تباہ کر دیا گیا تھا تاکہ ان پر ہندو مندر بنائے جائیں
بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں کی گنگا جمنی تہذیب ساری دنیا میں اپنی انفرادیت کی وجہ سے مشہور ہے، لیکن جب سے شر پسند عناصر بے باکانہ انداز میں اس تہذیب کے خاتمے اور ہندو مسلم تعصب کی آگ کو ہوا دینے کا کام کر رہے ہیں تب سے بھارتی سماج انتشار و خلفشار کا شکار ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں بابری مسجد کو ڈھا کر اس جگہ رام مندر کی تعمیر ہو رہی ہے اور اب گیان واپی مسجد میں اے ایس آئی کے سروے چل رہے ہیں اور متھرا میں بھی مسلمانوں کے کئی مذہبی مقامات نشانات پر ہیں، اس کے علاوہ ملک کے دیگر علاقے بھی اس آگ کی لپیٹ میں آرہے ہیں جن کے بارے میں شر پسندوں کا دعوی ہے کہ یہ مساجد مندروں کو مسمار کرکے تعمیر کی گئی ہیں۔ حالانکہ عدالت کو بابری مسجد کے حوالے سے بھی کوئی ثبوت نہیں ملا تھا اور امید بلکہ یقین ہے کہ دیگر مقامات سے بھی کوئی ثبوت نہیں ملے گا۔
یہ بات دل چسپی سے خالی نہیں ہے کہ جہاں مساجد و عیدگاہوں پر یہ الزامات عائد کیے جا رہے ہیں کہ وہ مندروں کو توڑ کر بنائے گئے ہیں وہیں سماج وادی پارٹی کے سرکردہ رہنما، سوامی پرساد موریہ کا مطالبہ ہے کہ ہندو مندروں کے بھی وسیع پیمانے پر آثار قدیمہ کے سروے ہونے چاہئیں کیوں کہ یہ بھی بودھ مت کے مذہبی مقامات کو توڑ کر بنائے گئے تھے۔ اب یہ معاملہ عدالت میں ہے اور چیف جسٹس اس دعوے کا جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا اس میں کوئی صداقت ہے بھی یا نہیں کیونکہ گیان واپی میں اے ایس آئی کے سروے سے یہ سوال اہم ہو جاتا ہے کہ آیا مسجد کے نیچے ہندو ڈھانچہ ہے بھی یا نہیں؟
آج جبکہ تاریخ کے حوالے سے ملک بھر میں کئی سوالات اٹھ رہے ہیں اور مختلف مقامات پر الگ الگ سروے کیے جانے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں ایسے میں ہندو مسلم تاریخ کے ساتھ ساتھ بودھ مت کی تاریخ بھی نمایاں اہمیت کی حامل ہو گئی اور ہم سب کے لیے بھی یہ سوال اہم رہے گا کہ تاریخ کو تنقیدی عینک سے دیکھا جائے اور حقائق کو طشت از بام کیا جائے.
سوامی پرساد موریا ماضی میں تنازعات کے حوالے سے کوئی نیا نام نہیں ہے لیکن ان کا یہ دعویٰ ہندو مسلم ایشو سے ہٹ کر تاریخ کی تحقیق کرنے کے لیے ایک دل چسپ موضوع کی حیثیت رکھتا ہے، کیوں کہ بعض مورخین کے مطابق ماضی میں ہندوؤں اور بودھ مت کے بادشاہوں کے درمیان تعلقات نہایت کشیدہ رہے تھے۔
سی جے پی کی ٹیم نے جو تحقیق کی اس کے مطابق اگر بھارتی تاریخ کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ قدیم اور ابتدائی قرون وسطی کے دور میں یعنی مسلم حکمرانوں سے پہلے کے بھارت میں ہندوؤں اور بودھ مت کے پیروکاروں کے باہمی تنازعات کی کئی مثالیں ملتی ہیں جہاں پر ہندو بادشاہوں نے بودھ اور جین مندروں اور خانقاہوں کو بڑے پیمانے پر منہدم کردیا تھا۔ اس قسم کی وضاحتیں عموماً مورخین، مذہبی تاریخ نگاروں، سوانح نگاروں اور غیر ملکی سفیروں کے ذریعہ باقی رہ گئی ہیں، جن کی تائید بودھ مت کی باقیات کے آثار قدیمہ سے بھی ہوتی ہے جہاں اب بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان جیسے خطوں میں ہندو مندر موجود ہیں۔ دراصل گزشتہ ادوار میں ہندو مت کے رہنما بودھ مت اور جین مت کو اختراعی سمجھتے تھے اور ان کو پسماندہ اور عقوبت خانوں کے عقائد قرار دیتے تھے، جس کی وجہ سے ان کے اندر ان مذاہب کے خاتمے کی خواہش پیدا ہوتی تھی۔ بالخصوص شہنشاہ اشوک کے دور حکومت میں جب بودھ مت کی اعلیٰ پیمانے پر ترویج و اشاعت ہوئی اور ایک کثیر آبادی اس مذہب سے متاثر ہوئی تو نتیجتاً برہمنی قوتوں کی طرف سے دشمنی کو بڑھاوا مل گیا۔ اس دشمنی کے نتیجے میں بودھ مت کے پیروکاروں پر بڑے پیمانے پر ظلم و ستم ڈھائے گئے اور موری دور کے بعد کی صدیوں میں باقاعدہ ان کے مذہبی اداروں کی تباہی اور بے حرمتی کی گئی۔
تاریخ نگاروں نے لکھا ہے کہ موری خاندان کے زوال کے بعد، شونگا خاندان کے ایک حکمران پشیامتر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے دشمنی میں متعدد بودھ خانقاہوں کو منہدم کیا اور باقاعدہ بودھ بھکشوؤں کو بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر پھانسی پر لٹکایا۔ اسی طرح کی کارروائیاں بنگال کے گاؤڈا بادشاہ ششانک نے بھی کی تھیں، جو تاریخ میں بودھ مت کی تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے مشہور ہے۔ راجترنگینی جیسے تاریخی ریکارڈ میں بھی واضح طور پر اشوک سے تعلق رکھنے والے شیو حکمران کے تحت کشمیر میں بودھ خانقاہوں کی تباہی کا بھی ذکر موجود ہے۔ مزید برآں ہوان سانگ کی تحریریں بھی محفوظ ہیں جو ساتویں صدی عیسوی میں بھارت کا دورہ کرنے والا مشہور مہم جو تھا۔ سانگ نے اپنے بھارت کے سفر میں نوٹ کیا کہ ششانک نے گیا میں بودھی کے درخت کو بھی کاٹا تھا، وہ جگہ جہاں مہاتما بودھ نے روشن خیالی حاصل کی تھی، جو بہت سے لوگوں کے لیے ایک مقدس مقام تھا اور اب بھی ہے۔
اس ضمن میں نریش کمار کا ویلیواڈا میں شائع ہونے والا مضمون برہمنوں کے ذریعہ بودھ مت کی منظم اور وسیع پیمانے پر تباہی کا تفصیلی بیان فراہم کرتا ہے۔ ان برہمنوں کے تباہ کن اثر و رسوخ، ظلم و ستم اور بے گناہ بودھوں کے بڑے پیمانے پر قتل و غارت کا باعث بنا۔ ہندو بادشاہوں جیسے ساسنکا اور میہراکولا کی پرتشدد کارروائیاں اس دور کی سنگین یاد دہانیوں کے طور پر گونجتی ہیں جس میں بودھ مت کے مزارات اور ڈھانچوں کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر بودھ گیا میں مہابودھی وہار کو شیو مندر میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ یہ ایک ایسا تنازعہ ہے جو آج تک جاری ہے۔
چینی سیاح ہیوین چوانگ کے مشاہدات کے بارے میں ڈی ڈی کوسامبی کا بیان بھارت میں بودھ مت کے زوال کی ایک پُرجوش عکاسی پیش کرتا ہے۔ یہ بھارتی سرزمین میں ڈوبنے والی مقدس تصویروں کی دلخراش کہانی، گیا میں مقدس بودھی درخت کا خاتمہ اور ان حقائق کی تاریخ مٹانے کی ایک واضح تصویر پیش کرتا ہے۔
اس ضمن میں کوسامبی ایک معاشی نقطہ نظر بھی پیش کرتے ہیں کہ بودھ مت کی ابتدائی کامیابی کی جڑیں ہنگامہ آرائی اور منتقلی کے دور میں سماجی ضروریات کو پورا کرنے میں تھیں، اور مزید برہمن ازم ان پر قابو پانے اور ایک یکساں جدلیاتی تشکیل دینے میں کامیاب رہا جو کہ امتیازات کے ذات پات کے ڈھانچے سے مطابقت رکھتا تھا۔ یہ اخراج معاشرے میں پیوست ہے۔
لہذا، ہندو مندروں کے آثار قدیمہ کے سروے کے لیے سوامی پرساد موریہ کا اٹھایا ہوا سوال ایک تحقیقی راہ کھولتا ہے تاکہ بھارت کے پیچیدہ تاریخی حقائق کا پتہ چل سکے۔
اس ضمن میں مشہور تاریخ داں ڈی این جھا جو بھارت کے قدیم اور قرون وسطیٰ کے سلسلے میں اپنی معلوماتی مہارت کے لیے جانے جاتے ہیں، وہ ایک مورخ، انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ (ICHR) کے سابق ممبر بھی ہیں، وہ سیاسی طور پر محرک گفتگو پر تنقید کرتے تھے جس میں یہ بھی تجویز کیا گیا تھا کہ بابری مسجد ایک مندر کو گرانے کے بعد تعمیر کی گئی تھی اور نظریہ ہندوتوا کے ایکو سسٹم نے صرف اپنے سیاسی مفادات کے لیے بنایا تھا۔ اس نے سب سے پہلے مشہور بابری مسجد-رام جنم بھومی میں ایودھیا میں متنازعہ جگہ کے بارے میں اپنے نتائج اخذ کیے تھے۔ خیر ڈی این جھا اپنی کتاب "Against the Grain: Notes on Identity, Intolerance and History” میں ہندوتوا کے نظریات پر تنقید کرتے ہیں اور تشدد سے عاری ایک ہم آہنگ قدیم بھارتی تاریخ کے تصور کو چیلنج کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسلام کی آمد سے قبل مسماری، دوسرے ادیان کے مذہبی مقامات کی بے حرمتی اور ثقافتی تخصیص بہت زیادہ موجود تھی۔ اسی طرح وہ 80 سے زیادہ مندروں کے لیے قابل اعتبار ثبوت کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے، مسلم حکمرانوں کی طرف سے مندروں کی اندھا دھند تباہی کے دعوے کو مکمل طور پر مسترد بھی کر دیتے ہیں۔ جھا نے مشہور نالندہ یونیورسٹی کے ایشو کو بختیار خلجی سے ہٹا کر ’’ہندو جنونیوں‘‘ سے بھی منسوب کر دیا جس نے وہاں کے قریبی جگہ کو توڑ دیا تھا۔
اسی طرح جھا نے جگن ناتھ مندر کی اصلیت کے بارے میں بھی شکوک و شبہات پیدا کیے ہیں اور کہا کہ پوری میں دیگر مندر بھی بودھ وہاروں کے اوپر یا ان کو مسمار کر کے بنائے گئے تھے۔
مختصراً یہ کہ مذکورہ دعویٰ کہ بعض ہندوؤں کے مندر بودھ مت کے عبادت گاہوں پر بنائے گئے تھے، تاریخی اعتبار سے لائق توثیق اور قابلِ فہم نظر آتا ہے۔
اس تناظر میں اگر بھارت کے حالیہ معاملات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بابری مسجد کے بعد ملک بھر میں دیگر عبادت گاہوں پر بھی سنگھی اپنی نظریں گاڑے ہوئے ہیں اور کھلے طور پر 1991ء کے مذہبی عبادت گاہوں کے حوالے سے بنائے گئے قانون Places of Worship (Special Provisions) Act, 1991 کی بھی خلاف ورزی کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ اس قانون کے تحت یہ بات بیان کی گئی تھی کہ 15 اگست 1947ء میں بھارت کی آزادی کے موقع پر ملک بھر میں جہاں کہیں بھی جو بھی عبادت گاہ جس صورت میں ہے اس کے ساتھ کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جاسکتی بلکہ آزادی کے وقت جو عمارت جس مذہب کے لوگوں کی عبادت گاہ ہو اس عمارت کو ہمیشہ اسی مذہب کی عبادت گاہ شمار کیا جائے گا۔
اس قانون کے مطابق کسی بھی مسجد یا عیدگاہ وغیرہ پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا لیکن آج کل قانون توڑنے والے کسی کی پشت پناہی کے زعم میں قانون کی حد بندیوں سے بے خوف نظر آتے ہیں لیکن یہ طے ہے کہ ہر رات کے بعد سحر ہوتی ہے اور سورج اپنی ضیا پاش کرنوں سے سارے عالم کو منور کرتا ہے۔
اب جو ایک ہندو فریق مسلم دشمنی اور اسلام کے اندھے تعصب میں ڈوب کر مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر جس طریقے سے الزامات کی بوچھاڑ کرکے ان مقامات کو سوالوں کے دائرے میں لا کھڑا کر رہا ہے وہیں پر اب ہندو مذہب کی بعض مندریں بودھ مت کے حوالے سے سوالوں کے دائرے میں آرہی ہیں
راحت اندوری نے سچ کہا تھا :
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے؟
بشکریہ : سی جے پی
***

 

***

 اگر بھارت کے حالیہ معاملات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بابری مسجد کے بعد ملک بھر میں دیگر عبادت گاہوں پر بھی سنگھی اپنی نظریں گاڑے ہوئے ہیں اور کھلے طور پر 1991ء کے مذہبی عبادت گاہوں کے حوالے سے بنائے گئے قانون Places of Worship (Special Provisions) Act, 1991 کی بھی خلاف ورزی کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ اس قانون کے تحت یہ بات بیان کی گئی تھی کہ 15 اگست 1947ء میں بھارت کی آزادی کے موقع پر ملک بھر میں جہاں کہیں بھی جو بھی عبادت گاہ جس صورت میں ہے اس کے ساتھ کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جاسکتی


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اگست تا 03 ستمبر 2023