لیبر مارکٹ میں خواتین کی حصہ داری۔ اجرت مردوں کے مقابلے میں کافی کم

ماہر اقتصادیات کلاڈیا گولڈن کو اکنامکس کا نوبل پرائز

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

لیبر مارکیٹ میں خواتین کی کم شمولیت پر تحقیقی کام کو تسلیم کیا گیا
امسال ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہر اقتصادیات کلاڈیا گولڈن کو اکنامکس کا نوبل پرائز دیا گیا ہے۔ انہیں لیبر مارکیٹ میں خواتین کی شمولیت اور ان کی حصہ داری کو بہتر طریقہ سے سمجھانے کے لیے یہ با وقار انعام دیا گیا ہے۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار کسی خاتون نے لیبر مارکیٹ میں خواتین کی کم شمولیت پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ سویڈین کی نوبل کمیٹی نے لیبر مارکیٹ میں خواتین کی تحقیق کو سب سے بہتر تسلیم کیا ہے۔ ان کی تحقیق میں لیبر مارکیٹ میں خواتین کی تنخواہیں، ان کے ہم عصر مردوں کے مقابلے کافی کم ہے۔ اس طرح اس تفریق اور ان کی آمدنی کو لے کر بھرپور معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ یعنی اجرت میں صنفی خلا (Gnder Pay Gap) بہت زیادہ ہے۔ پروفیسر کلاڈیا نے دو سو سال کے اعداد و شمار کے تجزیہ کے بعد ایک ضخیم رپورٹ تیار کی تھی جس میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے ہر شعبہ حیات میں مردوں و خواتین کی تنخواہوں میں بڑا فرق  ہے، مثلاً کسی کمپنی میں مرد سی ای او کی تنخواہ دو لاکھ روپے ماہانہ ہے تو خاتون سی ای او کی تنخواہ نصف یا اس سے کچھ زیادہ رہتی ہے۔ اسی طرح یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں میں کام کرنے والے مرد مزدوروں کو اجرت خاتون مزدور کے مقابلے زیادہ دی جاتی ہے۔ عالمی عدم مساوات کی 2022 کی رپورٹ میں وضاحت کی گئی ہے کہ بھارت میں مزدوروں کے لیے مختص کی جانے والی رقم کا 82 فیصد مردوں کے حصے میں جاتا ہے جبکہ محض 18 فیصد خواتین کے حصہ میں آتا ہے۔ او ای سی ڈی کے ڈیٹا کے مطابق صنفی تنخواہ کا یہ خلا سب سے کم بلجیم میں ہے اس کے بعد کوسٹاریکا، بلغاریہ اور ناروے میں ہے، مگر صنعتی تنخواہ کا خلا سب سے زیادہ جنوبی کوریا، اسرائیل اور جاپان وغیرہ میں  ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ مارکیٹ میں خواتین کی حصہ داری میں کوئی زیادہ بہتری نہیں ہوئی ہے اس کی جگہ آغاز میں کم ہوا اور اب اضافہ ہو رہا ہے۔ وقت کے ساتھ جس طرح سماج نے زراعت سے صنعت کی طرف قدم بڑھایا تو مارکیٹ میں شادی شدہ خواتین کی حصہ داری میں کمی آئی جبکہ مطالعہ سے یہ بھی واضح ہوا کہ 20ویں صدی میں خواتین نے مردوں کے مقابلے میں بہتر تعلیم حاصل کی جب کہ عرض کیا گیا کہ معیشتوں کی جدیدیت کے باوجود خواتین کی مردوں کے مقابلے میں آمدنی کافی کم ہے۔ خواتین کس شعبہ میں کام کر رہی ہیں یہ بھی ان کی آمدنی پر گہرا اثر ڈالتا ہے اور بچوں کی پرورش کی وجہ سے وہ ’’ممی ٹریک‘‘ ہوتی ہیں۔ گزشتہ نصف صدی سے خواتین کے تنخواہ کا تناسب بہت سارے زیادہ آمدنی والے ممالک میں تین گنا بڑھا ہے اس کے بعد مردوں کی تنخواہ کے مقابلے خواتین کی تنخواہ روزگار میں تناسب سے بہت بہت کم ہے۔ خواتین جب کام کرتی ہیں تو کم کماتی ہیں، اس لیے محض یہ تخیل کہ معاشی ترقی خود بخود لیبر مارکٹ میں صنفی تفریق کم کر دے گی۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ ان کے مطالعہ کے دو صدیوں کی تاریخ میں خواتین کی لیبر فورس میں حصہ داری اور ان کے انجام کے متعلق امریکی ڈیٹا کے نتائج دوسرے ممالک پر لاگو ہوں گے جس میں بھارت بھی ہوسکتا ہے۔ یاد رہے کہ معاشی خوشحالی کے ساتھ شعبہ خدمات کا بول بالا زیادہ ہوجاتا ہے اور خواتین پھر سے لیبر فورس میں شامل ہونے کے قابل ہوجاتی ہیں جسے U شکل کی شمولیت یا حصہ داری کہا جاتا ہے۔ جس میں اولاً حصہ داری زیادہ ہوتی ہے پھر کم ہوتی ہے اور بہتری ہونے پر دوبارہ زیادہ ہوجاتی ہے۔ یہ امریکی تاریخ میں طویل عرصہ تک دیکھا گیا ہے یہ طریقہ کار ملک اور وقت کے حدود سے آگے تک لاگو ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ خوشحال ممالک میں شعبہ خدمات کا دائرہ بڑا ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں لیبر فورس میں خواتین کی حصہ داری کی شرح (FLFPR) زیادہ ہوجاتی ہے۔ اس شرح کا مطلب ہوتا ہے کہ کام کے قابل عمر والی 90 فیصد خواتین یا تو برسر روزگار ہو کر کماتی ہیں یا کام کی تلاش میں ہیں۔ ہمارے ملک میں یہ شرح کافی کم ہے۔ ویسے اس معاملے کو لے کر تنازع رہا ہے۔ اس سال حکومت ہند کے سروے میں اسے 27.7 فیصد رکھا گیا ہے۔
خواتین کی لیبر فورس کی U شکل کی حصہ داری کا ایک اور مطلب خاندانی آمدنی اور سماجی رسوم سے بھی ہیں۔ بہت سے غریب خاندانوں میں خواتین کے کام نہ کرنے سے کنبہ نہیں چلتا ہے۔ اس لیے خواتین لیبر فورس کی حصہ داری زیادہ ہوتی ہے اور کنبہ کی آمدنی بڑھنے پر خواتین اپنے آپ کو ذرائع آمدنی سے علیحدہ کرلیتی ہیں اور وہ خاندان اور بچوں پر دھیان مرکوز کرتی ہیں اور امیر و بہت امیر گھروں کی خواتین کی حصہ داری پھر بڑھنے لگتی ہے اور یہ U شکل ہوجاتی ہے۔ خاندانی آمدنی کی اس بنیاد پر سماجی رسوم کا اثر بھی ہوتا ہے۔ اگر کوئی خاتون گھر سے باہر کام کرتی ہے تو سمجھا جاتا ہے کہ گھر کا مرد کاہل ہے یا کنبہ کے لیے کمانے کے قابل نہیں ہے۔ اس طرح کے سماجی حالات کی وجہ سے بھی شاید متوسط طبقے کی خواتین روزگار چھوڑ دیتی ہیں اور U شکل کی حصہ داری میں ایک وجہ خواتین کی تعلیم بھی ہے۔
***

 

***

 بھارت میں مزدوروں کے لیے مختص کی جانے والی رقم کا 82 فیصد مردوں کے حصے میں جاتا ہے جبکہ محض 18 فیصد خواتین کے حصہ میں آتا ہے۔ او ای سی ڈی کے ڈیٹا کے مطابق صنفی تنخواہ کا یہ خلا سب سے کم بلجیم میں ہے اس کے بعد کوسٹاریکا، بلغاریہ اور ناروے میں ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 اکتوبر تا 04 نومبر 2023