کیا ریزرویشن بل عورتوں کا نجات دہندہ ہے؟

ذیلی کوٹہ مقرر نہ کرکے حکومت نے او بی سی مردو خواتین دونوں کو ناراض کردیا

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں سب سے پہلے خواتین ریزرویشن قانون منظور کرکے بی جے پی نے شہد کی مکھی کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔ اس چھتے کے اندر پچھلی چوتھائی صدی سے شہد جمع ہو رہا ہے مگر کسی نے اس کو چھیڑنے کی جرأت نہیں کی۔ کانگریس نے اپنی قومی مجلس عاملہ کے اجلاس میں حیدر آباد کے اندر نہ جانے کیا سوچ کر اس کا مطالبہ کر ڈالا۔ مودی کا ایک نعرہ ہے ’آپدا میں اوسر‘ یعنی مشکل میں موقع۔ اس موقع کا فائدہ اٹھانے کی خاطر وزیر اعظم نے آو دیکھا نہ تاو اس بل کو ایوان پارلیمنٹ میں لے آئے۔ اب اس چھتے کا شہد تو حزب اختلاف کو مل رہا ہے اور مکھیاں حکومت پر پِل پڑی ہیں۔ ایسا کیوں ہورہا ہے یہ جاننے سے پہلے اس سوال کا جواب ملنا ضروری ہے کہ آخر خواتین کے لیے تحفظ کے قانون کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ لوک سبھا میں خواتین ارکان پارلیمنٹ کی تعداد ہمیشہ 15 فیصد یا اس سے کم ہی رہی ہے۔ ریاستی اسمبلیوں کی حالت اور بھی خراب ہے۔ ملک کی کئی ریاستی اسمبلیاں ایسی بھی ہیں کہ جن میں خواتین کی نمائندگی 10فیصد سے بھی کم ہے۔
سیاست میں مرد و زن کے مندرجہ بالا تفاوت کو دور کرنے کے لیے 1996 سے لے کر اب تک کے 27 سالوں میں متعدد بارخواتین ریزرویشن کا بل ایوانِ پارلیمان میں لایا جا چکا ہے لیکن ہر بار یہ کوشش ناکام ہو جاتی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ ریزرویشن کے اندر ریزرویشن کا مسئلہ ہے۔ عام انتخابات میں ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کے لیے ریزرویشن ہے، اس لیے خواتین کے لیے جو ریزرویشن دیا جائے گا اس میں بھی اس کا اہتمام فطری مطالبہ ہے۔ اس سے قبل دلتوں کے لیے پندرہ فیصد اور قبائلی سماج کی خاطر نو فیصد کی بات پر تو کانگریس راضی ہوجاتی تھی مگر دیگر پسماندہ طبقات سے اس کو پرخاش تھی کیونکہ یو پی اور بہار میں رام منوہر لوہیا نے ان طبقات کو کانگریس سے الگ کر لیا تھا اور سماج وادی نظریہ کی حامل علاقائی جماعتیں اس کی حریف اول ہوا کرتی تھیں۔ وہی لوگ خواتین کے ریزرویشن میں او بی سی کے لیے الگ سے حصہ طے کرنے کا مطالبہ کرتے تھے جو کانگریس کے لیے قابلِ قبول نہ ہوتا اور بات بگڑ جاتی۔ اب صورتحال بدل گئی ہے۔
اترپردیش اور بہار میں بی جے پی کی مضبوطی نے سماجوادیوں اور کانگریسیوں کو ایک دوسرے کا دوست بنا دیا ہے۔ بہار میں کانگریس آر جے ڈی اور جنتا دل (یو) کے ساتھ حکومت میں شامل ہے۔ یو پی کی سماجوادی پارٹی ’انڈیا‘ کا حصہ ہے۔ اس لیے کانگریس نے از خود او بی سی کے لیے ان کا حصہ مختص کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ شمال کے علاوہ دیگر ریاستوں میں او بی سی سماج کانگریس کے ساتھ ہے اس لیے اس مطالبے میں اس کا سیاسی فائدہ ہے۔ چنانچہ راہل گاندھی نے یہ اعتراف کرلیا ہے کہ 2010 میں او بی سی کے مطالبے کو نہ ماننا ایک سیاسی غلطی تھی جس کی اب اصلاح کی جائے گی۔ کانگریس کے لیے یہ ایک اہم سیاسی موڑ ہے اور اس کو اس کا آگے چل کر فائدہ ہوسکتا ہے۔ بی جے پی چونکہ اس پر اپنا رخ صاف نہیں کرسکی اس لیے وہ اوندھے منہ گر گئی اور اس کا یہ داو الٹا کیوں پڑگیا۔ اس کے نفاذ میں کئی روکاوٹیں ہیں مثلاً یہ فیصلہ کہ کن حلقہ جات کو ایس سی، ایس ٹی کے لیے مختص کیا جائے؟ اس کے لیے مردم شماری اور پھر اس کے لحاظ سے حلقہ ہائے انتخاب کی نئی حد بندی لازم ہے۔ یہ کام اگلے انتخاب سے قبل مکمل نہیں ہوسکا تو پندرہ میں سے دس سال ضائع ہو جائیں گے۔ اس کے لیے مودی سرکار کا کورونا کے بہانے مردم شماری نہ کرانے کی کوتاہی ذمہ دار ہے۔
سیاست کی دنیا میں خواتین کی نمائندگی پر غور وخوض کے معاملے میں آگے بڑھنے سے قبل یہ جائزہ لیا جانا چاہیے کہ ایسی صورتحال کیوں ہے؟ اس کا ایک قابلِ توجہ پہلو یہ بھی ہے کہ عورتوں کی اضافی نمائندگی کون سی خواتین کریں گی؟ اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوگا کہ تعداد کے بڑھ جانے سے کیا عام خواتین کا کوئی فائدہ بھی ہوگا؟سیاست کے شعبے میں خواتین کے کم ہونے کے بنیادی اسباب کا پتہ لگائے بغیر اس مسئلہ کا حقیقی حل نکلنا مشکل ہے۔ خواتین کی سرکار دربار میں کم موجودگی کی سب سے بنیادی وجہ ان کی اس میدان میں عدم دلچسپی ہے۔ یہ عام مشاہدہ ہے کہ جب مرد آپس میں ملتے ہیں تو اکثرو بیشتر سیاست پر گفتگو کرتے ہیِں اس کے برعکس خواتین خانہ داری اوررشتے داری، بچوں کی تعلیم و تربیت وغیرہ میں زیادہ دلچسپی لیتی ہیں۔ یہ ایک فطری رحجان ہے اس لیے کہ مرد تو ویسے ہی گھر اور بچوں کی جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دے پاتا۔ خواتین اس محاذ پر اہم ذمہ داری ادا کرکے مستقبل کی تعمیر میں بہت زبردست کردار ادا کرتی ہیں۔ اب اگر ان کا دھیان بھی مستقبل سے ہٹ کر حال پر مرکوز ہوجائے تو قوم کے مستقبل کا تاریک ہونا لازم ہے۔ یورپ اور امریکہ میں دیگر ممالک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کی ماوں نے اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر کی اور انگریز مائیں اس فرض منصبی سے غافل ہوگئیں اور من حیث القوم وہ اپنے ہی ملک میں اپنوں سے پچھڑ گئے۔
اس کے علاوہ اور بھی ٹھوس رکاوٹیں ہیں مثلاً وطن عزیز میں سیاست فی الحال ایک گندہ تالاب بن گیا ہے۔ ایک سے بڑا ایک مافیا وہاں موجود ہے اور فی الحال تو وزیر مملکت برائے داخلہ پر بھی قتل کا مقدمہ چل رہا ہے۔ ایسے میں وہاں خواتین تو دور شریف مردوں کا جینا بھی دوبھر ہوگیا ہے۔ سیاست کی دنیا میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے بھی بڑے نمونے یوگی سرکار کے تحت یو پی پنچایت انتخابات میں دیکھنے کو ملے ہیں، اس لیے صنف نازک سیاست سے دور رہنے میں عافیت سمجھتی ہے الاّ یہ کہ انہیں مجبوراً جانا پڑ جائے۔ اس کے علاوہ دوسری سب سے بڑی وجہ انہیں ٹکٹ کا نہیں دیا جانا ہے۔ ہندوستان میں کئی سیاسی جماعتوں کی سربراہ خواتین رہی ہیں۔ کانگریس کی کمان اب بھی عملاً سونیا گاندھی کے ہاتھوں میں ہے۔ بی ایس پی سپریمو مایاوتی اور ترنمول کی کمان ممتا کے ہاتھوں میں ہے۔ اے آئی ڈی ایم کے برسوں تک جئے للیتا کے اشارے پر چلتی رہی مگر ان میں سے کسی نے بیس فیصد خواتین کو بھی ٹکٹ نہیں دیا کیونکہ انہیں یقین تھا کہ خاتون امیدواروں کی جیت مشکل ہے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر مصنوعی طریقہ پر خواتین کی تعداد کو بڑھایا گیا تو کیا ہوگا؟پنڈت نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی کو اپنے والد کے سبب وزیر اعظم بننے کا شرف حاصل ہوا۔ ان کی ایک بہو کانگریس اور دوسری بہو بی جے پی سے رکن پارلیمنٹ بن گئیں۔ دونوں نے اپنی اپنی پارٹی سے اپنے بیٹوں کو پارلیمنٹ کا ٹکٹ دلوا کر کامیاب کرلیا۔ وجئے راجے سندھیا نے اپنی ایک بیٹی کو بی جے پی کی مدد سے وزیر اعلیٰ بنوا دیا اور بیٹے کو کانگریس میں بھیج کر وزیر بننے دیا۔ وسندھرا راجے نے بھی اپنے بیٹے کو بی جے پی کا رکن پارلیمنٹ منتخب کروا دیا۔ان کا بھتیجا جیوترادیتیہ پہلے کانگریس اور اب بی جے پی میں شامل ہوکر اقتدار کی ملائی کھا رہا ہے۔ علاقائی جماعتوں کو دیکھیں تو لالو پرساد کی بیوی رابڑی دیوی، اکھلیش کی بیوی ڈمپل یادو، شرد پوار کی بیٹی سپریا سولے، کے سی آر کی بیٹی کویتا وغیرہ سرکار دربار پر چھائی ہوئی ہیں۔ یہ خواتین اپنے سماج کی نمائندہ ہیں یا اپنے والدین کی وراثت کو آگے بڑھا رہی ہیں؟ اس سوال کا جواب معلوم کرنے کی خاطر کسی تحقیق و تفتیش کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
سیاست کی دنیا میں پیش پیش دیگر خواتین کے پیچھے بھی مردوں کا ہاتھ صاف نظر آتا ہے، مثلاً ایم جی آر سے جئے للیتا کی اس قدر قربت کہ وہ اپنے رہنما کی ارتھی پرستی ہونے کے لیے تیار ہوگئی تھیں۔ کانشی رام کے ساتھ قربت نے بی ایس پی کی باگ ڈور مایاوتی کے ہاتھوں میں دی۔ یہ بھی جگ ظاہر ہے کہ سمرتی ایرانی کے سر سے مودی جی سایہ اٹھ جائے تو ان کا سراغ لگانا مشکل ہوجائے۔ وہ اپنے بل پر مودی کے خلاف الیکشن لڑنے کا تصور بھی نہیں کرسکتیں۔ اس معاملے میں ممتا بنرجی ایک استثناء ضرور ہیں مگر ان کو اپنی وراثت سونپنے کے لیے اپنے بھتیجے کے سوا کوئی معقول خاتون تو کیا مرد بھی نہیں ملا۔ ایسے میں خواتین کے ریزرویشن سے کون سا بڑا انقلاب آجائے گا یہ جاننا مشکل ہے۔ جہاں تک خواتین کے احترام کا سوال ہے، مایاوتی کو اپنی جان بچانے کی خاطر حمام میں چھپنا پڑا ہے۔ جئے للیتا کا بلاوز پھاڑا گیا ہے اور ملک کی اولین شہری عزت مآب دروپدی مرمو کو مندر کےگربھ گرہا میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ملی۔ اندرا گاندھی کے دورے کے بعد مندر کو گنگا جل سے پاک کرنا تاریخ کے صفحات میں درج ہے۔ اس لیے نئی لیپا پوتی سے چند سیاستدانوں کی بیویوں، بیٹیوں اور بہووں کی سرکار دربار میں رسائی سے زیادہ کیا ہوگا، اس سوال کا جواب ہنوز واضح نہیں ہے۔
ہندوستانی خواتین پارلیمنٹ میں نمائندگی سے زیادہ سنگین مسائل کا شکار ہیں۔ ملک میں خواتین کی آبادی کا تناسب 49 فیصد ہونے کے باوجود پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی صرف 11 فیصد تو ہے مگر ملازمت میں بھی خواتین کی نمائندگی صرف 19 فیصد ہی ہے۔ شرح خواندگی میں خواتین اور مَردوں کا فرق 20 فیصد ہے جبکہ پیشہ وَر خواتین کی تنخواہ مَردوں سے 20 فیصد کم ہے۔ سال 2010 سے 2022 کے دوران پیشہ ور خواتین کی تعداد میں 7 فیصد گراوٹ آئی ہے یعنی ان کی نمائندگی بڑھنے کے بجائے گھٹ رہی ہے۔ اس سے سنگین صورتحال تو جرائم کی دنیا میں ہے۔ 2022 میں کُل 6 لاکھ جرائم درج کیے گئے ان میں سے 71 فیصد خواتین کےخلاف تھے۔ یعنی مظلوم خواتین کی تعداد آبادی کے دوتہائی سے زیادہ ہے۔ بیٹی بچاو بیٹی پڑھاو کے پر فریب نعرے کے باوجود 2021 کی نسبت 2022 میں خواتین کے خلاف جرائم میں 15.3 فیصد اضافہ ہوا تھا ۔ 2018 میں ہندوستان کو خواتین کے لیے خطرناک ترین ممالک میں سرِ فہرست رکھا گیا تھا۔ ایسے میں یہ بل کس کام آئے گا؟
ہندوستانی خواتین کو جنسی زیادتی، ہراسانی کے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ سال 2021 میں 31 ہزار 677 زیادتیوں، 76 ہزار 263 اغواء اور 30 ہزار 856 گھریلو تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ اس سے اصلی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ انڈیا ٹو ڈے کی رپورٹ کے مطابق روزانہ سفر کرنے والی خواتین میں سے 80 فیصد کو جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھارت میں روزانہ خواتین سے زیادتی کے 86 واقعات پیش آتے ہیں جن میں سے دہلی 6 واقعات کے ساتھ سرِ فہرست ہے۔ان مجرمانہ حرکتوں سے غیر ملکی سیاح بھی محفوظ نہیں رہے۔
2014 میں جرمن خاتون، 2018 میں روسی خاتون اور 2022 میں برطانوی سیاح خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کے واقعات پیش آئے۔ خواتین کے خلاف بڑھتے جرائم کی وجہ سے 2019 میں امریکہ نے اپنے شہریوں کو ہندوستان کا سفر کرنے کے خلاف وارننگ بھی جاری کی تھی۔
یونیسف کے مطابق ہندوستان میں 15 فیصد شادی شدہ خواتین کی جہیز کے مطالبات پر طلاق ہوجاتی ہے۔ 2017 میں 7 ہزار خواتین کو جہیز نہ دینے پر قتل کردیا گیا۔2021 میں ہر مہینہ 14 تیزاب پھینکنے کے واقعات پیش آئے۔ ان تمام واقعات کا اندوہناک پہلو یہ ہے کہ آج تک کسی بھی مجرم کو سزا نہیں ہوئی۔ 2012 میں نربھیا نامی 23 سالہ ڈاکٹر کو دہلی کے اندر چلتی بس میں اجتماعی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کے قاتلوں کو پھانسی کی سزا تو ہوئی مگر بلقیس بانو کی عصمت دری کرنے والوں کی عمر قید کی سزا کو تخفیف کرکے رہا کر دیا گیا۔ 2020 میں ہاتھرس میں دلت خاتون کی عصمت دری اور قتل کرنے والوں کو تین سال بعد عدالت نے باعزت بری کر دیا۔ امسال مئی میں منی پور میں خواتین کو برہنہ پریڈ کروانے کا ویڈیو سامنے آیا۔ اس سے قبل 13 فروری کو کان پور میں گھر خالی نہ کرنے پر ماں اور بیٹی کو زندہ جلانے کا واقعہ پیش آیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا خواتین کو دیے جانے والے ریزرویشن سے یہ صورتحال بدل جائے گی؟ درحقیقت مودی سرکار کو ان مسائل کو حل کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اس نے تو محض سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے یہ چال چلی ہے۔
حزب اختلاف تو دور اس ریزرویشن سے بی جے پی کی رہنما اوما بھارتی بھی مطمئن نہیں ہیں کیونکہ اس میں دیگر پسماندہ ذاتوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ وہ خود لودھ ہیں اس لیے ان کے سماج کو اس ریزرویشن کا فائدہ نہیں ملے گا۔ ویسے سمرتی ایرانی کے برخلاف اوما بھارتی پسماندہ مسلم خواتین کے لیے ریزرویشن کی حامی ہیں۔ یہ کس قدر بد قسمتی کی بات ہے کہ خواتین کا بل منظور کروا کر بھی بی جے پی اپنے لیڈروں کو خوش نہیں کرسکی۔ مودی سرکار کا فی الحال کوئی تیر نشانے پر نہیں بیٹھ رہا ہے۔ وہ اس کی مدد سے اگلا انتخاب جیتنا تو چاہتی ہے مگر صحیح بات تو یہ ہے کہ سیاسی نقطۂ نظر سے خواتین کو خوش کرنے کے چکر میں اس نے او بی سی مردو خواتین دونوں کو ناراض کردیا ہے۔ ایسا اس لیے ہوا کہ مودی حکومت اس میدان میں بغیر تیاری کے کود گئی۔ جلد بازی میں اٹھائے جانے والے ایسے اقدامات سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ بی جے پی کے ساتھ یہی ہوا۔ یہ خصوصی سیشن اس کے لیے مہنگا پڑگیا۔
ایک زمانہ تھا جب کانگریس کے پرانے منصوبوں کو نئے غلاف میں پیش کرکے مودی سرکار اس کا کریڈٹ لے لیتی تھی۔ اپنی مدت کار کے پہلے تین سالوں میں ہی اس نے 23 منصوبوں کا نام بدل دیا تھا اور ان کی فہرست بھی شائع ہوگئی مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ پالتو میڈیا مودی کی تعریف کے پُل باندھتا رہا اور لوگ آنکھیں بند کرکے اس پر یقین کرتے رہے۔ اب زمانے نے کروٹ بدلی تو ایک ایسا وقت بھی آیا کہ مودی سرکار کو ایسے کام کے لیے بھی نہیں سراہا جا رہا ہے جسے کرنے میں پہلے والی حکومتیں ناکام رہیں۔ اس کی بیّن مثال خواتین کے ریزرویشن کا قانون ہے جسے اس نے منظور کروالیا۔ گزشتہ چوتھائی صدی سے معلق اس معاملے میں پیش رفت کرنے کی جرأت کوئی نہیں کرسکا تھا۔ بی جے پی حکومت نے تقریباً اتفاق رائے سے یہ قانون منظور کروانے کا بظاہر یہ عظیم کارنامہ انجام دے دیا مگر اس کامیابی کے باوجود اس کے ہاتھ بدنامی ہی آئی اور حزب اختلاف نیک نامی کا سہرا اپنے سر پر باندھ کر نکل گیا۔ اس طرح گویا خواتین تحفظات کا قانون خود بی جے پی کے لیے مصیبت بن گیا۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 سیاست کے شعبے میں خواتین کے کم ہونے کے بنیادی اسباب کا پتہ لگائے بغیر اس مسئلہ کا حقیقی حل نکلنا مشکل ہے۔ خواتین کی سرکار دربار میں کم موجودگی کی سب سے بنیادی وجہ ان کی اس میدان میں عدم دلچسپی ہے۔ویسے بھی عورتوں کو گھریلو تشدد، جنسی ہراسانی اور عدم تحفظ جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ شرح خواندگی میں خواتین اور مَردوں کا فرق 20 فیصد ہے۔ ملازمتوں میں خواتین کا حصہ 19 فیصد ہے جبکہ پیشہ ور خواتین کی تنخواہ مَردوں سے 20 فیصد کم ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 اکتوبر تا 07 اکتوبر 2023