سہیل بشیر کار بارہمولہ ،کشمیر
دورانِ مطالعہ جب ایک بڑے اور مشہور عالم دین کے یہ الفاظ نظروں سے گزرے کہ ’’ماں کو چاہیے کہ وہ بچے کو باپ سے ڈراتی رہے‘‘ تو ذہن میں خیال آیا کہ ہم تربیت کے نام پر دین کی کیسی عجیب و غریب تعبیریں پیش کرتے ہیں۔ روایتی معاشرہ میں جب ایک عام مسلمان کا تذکرہ ہوتا ہے تو ایک بدذوق، خشک مزاج، دنیا سے لاتعلق جو مشکل سے ہنستا ہو، اکثر آہیں بھرتا رہتا ہو، دنیا کی خواہش سے دور اور بے رونق زندگی بسر کرنے والے شخص کی سی تصویر ذہن میں آتی ہے حالانکہ یہ دین آیا ہی اس لیے ہے کہ انسان کو چین و سکون کی زندگی عطا کرے۔ قرآن نے رسول اللہ ﷺ کا ایک مشن یہ بھی بتایا ہے کہ ’’ان لوگوں پر جو بوجھ لدے تھے ان کو دور کرتے ہیں‘‘(اعراف 157) اسلام سے قبل انسانیت جس جہالت کے بوجھ تلے دبی جارہی تھی اس کو ختم کر کے انسان کو حقیقی انسان بنانے کے لیے اسلام آیا ہے۔
جب باپ گھر آئے تو سب کونے میں جا چھپیں، بچے تو دور بیوی بھی کوئی سوال نہ کرے۔ بس جو کہا گیا اس حکم کی تکمیل ہو وغیرہ۔ یہ سب آج ہمارے معاشرہ کا حصہ بن چکا ہے حالانکہ پیارے نبی جب گھر میں ہوتے تو وہ بھی ہمارے معاشرے کے لیے بہترین اسوہ اور نمونہ ہے۔ ازواج مطہرات ان سے ہنسی مذاق بھی کرتیں اور تفریح بھی کرتیں اور آپ خود انہیں کھیل و کرتب بھی دکھانے کے لیے لے جاتے۔ آپ اپنی ازواج اور بچوں کے ساتھ ہلکا پھلکا ہنسی مذاق بھی کیا کرتے۔
بخاری شریف میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ ’’جب میں بیاہ کر آئی تو حسب سابق رسول اللہ ﷺ کے گھر میں بھی گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی اور میری سہیلیاں بھی تھیں جو میرے ساتھ مل کر گڑیوں سے کھیلا کرتی تھیں۔ جب کبھی رسول اللہ ﷺ گھر تشریف لاتے (اور ہم کھیل رہی ہوتیں) تو میری سہیلیاں آپ کو دیکھ کر ادھر ادھر کھسک جاتیں لیکن آپ ان سب کو دوبارہ میرے پاس لے آتے اور پھر وہ میرے ساتھ مل کر کھیلتیں‘‘
ابو داؤد میں ہے حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ ایک دفعہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر کر رہی تھی تو میں نے آپ سے دوڑ کا مقابلہ کیا اور کچھ آگے نکل گئی۔ ایک عرصے بعد جب میرا بدن کچھ بھاری ہو گیا تو کسی موقع سے پھر آپ کے ساتھ دوڑ لگانا ہوا لیکن اس مرتبہ آپ مجھ سے آگے نکل گئے اور فرمایا ’’اے عائشہ! یہ اس جیت کا بدلہ ہے جو تم نے مجھ پر پہلے حاصل کی تھی‘‘ ابوداود کی روایت ہے ایک دفعہ حضرت ابوبکر ؓ نے آنحضرت ﷺ سے گھر کے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ اندر آئے تو حضرت عائشہ ؓ کو بلند آواز میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے سنا۔ حضرت ابو بکرؓ غصہ میں آ گئے اور چاہا کہ حضرت عائشہ ؓ کو ڈانٹ دیں لیکن آپ نے انہیں روک دیا۔ حضرت ابو بکرؓ اس وقت حضرت عائشہ سے کہہ رہے تھے کہ ’’میں آئندہ تمہیں رسول اللہ ﷺ کے سامنے بلند آواز سے بولتے ہوئے نہیں سنوں گا‘‘ اور اسی غصہ میں وہ چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد آپ نے حضرت عائشہ سے فرمایا۔ تم نے دیکھا کہ میں نے تمہارے والد سے تمہیں کس طرح بچایا؟ کچھ دنوں کے بعد حضرت ابو بکر دوبارہ آئے اور میاں بیوی کو خوش پایا تو کہنے لگے کہ مجھے اپنی صلح میں بھی شریک کر لو جس طرح تم نے مجھے اپنی لڑائی میں شریک کیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے بلا توقف فرمایا ’’ہاں ہاں، ہم تمہیں بھی شریک کرتے ہیں‘‘
علامہ یوسف القرضاوی لکھتے ہیں:’’ہنسنا ایک انسانی خصلت ہے اور عین فطری عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان ہنستے ہیں جبکہ جانور نہیں ہنستے کیوں کہ ہنسی اس وقت آتی ہے جب مزاحیہ بات کہی جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ سمجھ داری جانوروں میں نہیں ہوتی ہے‘‘
چوں کہ اسلام دین فطرت ہے اس لیے اسلام کے سلسلے میں یہ تصور محال ہے کہ وہ ہنسنے ہنسانے کے فطری عمل پر روک لگائے گا۔ بلکہ اس کے برعکس اسلام ہر اس عمل کو خوش آمدید کہتا ہے جو زندگی کو ہشاش بشاش بنانے میں مددگار ثابت ہو۔ اسلام یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پیروکار کی شخصیت بارونق، ہشاش بشاش اور تر وتازہ ہو۔ مرجھائی ہوئی بے رونق اور پژمردہ شخصیت اسلام کی نظر میں ناپسندیدہ ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام کے ساتھ بالکل فطری انداز میں زندگی گزارتے تھے اور ان کے ساتھ ان کی خوشی، کھیل اور ہنسی مذاق کی باتوں میں بھی شرکت فرمایا کرتے تھے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح ان کے غموں اور پریشانیوں میں شریک رہتے تھے۔
میں نے ایک بار کچھ دین دار بچیوں کو دیکھا جو بہت آہیں بھرتی تھی، ان کے ہاں صرف جہنم کا تذکرہ ہوتا ہے۔ میں نے انہیں کہا کہ تم لوگ جتنی آہیں بھرتی ہو لگتا ہے کہ ان آہوں سے آسمان پر اتنے بادل چھا جائیں گے کہ برسہا برس تک دھوپ بھی نہیں نکلے گی۔ پھر میں نے انہیں کہا کہ آپ لوگ نبوی معاشرے کو دیکھیں وہاں خواتین کی چمک دھمک تھی، وہاں مارکیٹ انسپکٹر ایک خاتون تھی، وہاں خواتین کی محفلیں ہوتی تھیں جہاں چھوٹی بچیاں نغمے گاتی تھیں لیکن تم لوگوں نے دین کو ایسا بنایا ہے کہ لوگوں کو اس سے ایک طرح کا خوف محسوس ہوتا ہے۔
ایسے ہی کچھ اشخاص کو دیکھا جن کا جس قدر "تقوی” بڑھا اس قدر آنکھیں چھوٹی ہوتی گئیں۔ مشکل سے سلام کا جواب دیتے ہیں۔ میں نے ان میں سے ایک سے کہا بھائی! زندگی تو دور نبوی میں تھی یہ کیا تم نے اپنے اوپر مردہ پن سوار کیا ہوا ہے؟ ہمارے معاشرے میں اب بھی ایک طبقہ ایسا ہے جو خواتین کی ڈرائیونگ کو معیوب سمجھتا ہے، اگر بچیاں اسکوٹی چلاتی ہیں تو عجیب نگاہوں سے دیکھتا ہے حالانکہ دور نبوی میں ہماری خواتین شہسوار ہوا کرتی تھیں۔ بدقسمتی سے مذہبی افراد کی اب شادی کی محفلیں بھی بے رونق لگنے لگی ہیں۔ کچھ جگہوں پر راقم نے دیکھا کہ مہندی کی راتوں میں وعظ و تبلیغ وغیرہ ہوتی ہے۔
دور نبوت میں رسول رحمت، صحابہ کرام کے ساتھ ہنسی مزاح کرتے تھے۔ سنن ابوداؤد کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول مختلف مواقع پر گھوڑ دوڑ کے مقابلے بھی منعقد کراتے تھے۔
ایک صحابی حضرت زاہر بن حرام رضی اللہ عنہ سرکارِ دوعالم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں دیہات کی چیزیں بطورِ تحفہ لایا کرتے تھے اور آپ ان کو شہری چیزیں تحفہ میں دیا کرتے تھے۔ وہ اگرچہ زیادہ خوش شکل نہیں تھے مگر آپ ان سے بہت زیادہ محبت فرماتے تھے ۔
سیدنا انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار وہ شہر کے بازار میں کچھ فروخت کر رہے تھے تو پیارے نبی نے انہیں پیچھے سے اپنے بازوؤں کے حصار میں لے لیا مگر انہوں نے آپ کو نہیں دیکھا تھا تو وہ پکارنے لگے کہ کون ہے؟ مجھے چھوڑ دو۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ پیارے آقا ہیں تو وہ اپنی کمر کو زور لگانے لگے تاکہ وہ آپ کے سینہ مبارکہ سے ملائے رکھیں۔ نبی اکرم ﷺ نے (ازراہ مذاق) پکارا کہ اس غلام کو کون خریدے گا تو وہ بولے کہ یا رسول اللہ، اللہ کی قسم اگر آپ مجھے بیچیں گے تو بہت کم قیمت ملے گی۔ پیارے آقا نے فرمایا البتہ اللہ کے ہاں تو یہ بے قیمت نہیں ہے۔
مزاح کا یہ انداز کتنا دل کش، حسین و جمیل اور جود و عطا والا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابی سے خوش طبعی تو فرما ہی رہے ہیں ساتھ ساتھ ان کی قسمت بھی چمکاتے ہوئے انہیں غلام کہہ کر بھی پکار رہے ہیں۔
ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سواری مانگی۔ فرمایا ’’ہم تمہیں اونٹنی کے بچے پر سوار کریں گے‘‘ اس نے عرض کیا، میں اونٹنی کے بچے کا کیا کروں گا؟ فرمایا ’’ہر اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی تو ہوتا ہے‘‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک عمر رسیدہ صحابیہ بارگاہِ نبوی میں عرض گزار ہوئیں کہ یارسول اللہ دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو جنت میں داخل فرمائے۔ آپ نے ازراہِ مزاح ان سے کہا کہ’’بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی‘‘ اتنے میں نماز کا وقت ہوگیا اور آپ نماز ادا کرنے کے لیے مسجد تشریف لے گئے۔ اس عورت نے رونا شروع کر دیا۔ نبیِ کریم ﷺ جب نماز سے فارغ ہوئے تب حضرت عائشہ نے عرض کیا یارسول اللہ! جب سے آپ نے اس عورت کو یہ کہا کہ کوئی بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی تب سے یہ رو رہی ہے۔ آپ یہ سن کر مسکرا دیے اور فرمایا ’’بے شک کوئی بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی بلکہ جوان ہو کر جائے گی، کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’بے شک ہم نے ان عورتوں کو خاص طور پر پیدا کیا ہے اور پھر انہیں کنواریاں بنایا ہے۔‘‘(شمائلِ ترمذی)
اگر کوئی شخص اس طرح اسلام پیش کرتا ہے تو ہم جلد ہی اس کو ماڈرن اسلام یا آسان اسلام کہہ دیتے ہیں حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’تم لوگ آسانیاں پیدا کرنے والے بنو تنگی نہ کرو خوشخبریاں سناؤ، دوسروں کو متنفر نہ کرو‘‘۔ آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب بھی دو معاملوں میں کسی ایک کو اختیار کرنا ہوتا تو آسان ترین معاملے کو منتخب فرماتے، اس شرط کے ساتھ کہ اس میں کوئی گناہ نہ ہو۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا بے شک دین آسان ہے اور جب بھی دین پر سختی تھوپنے کی کوشش کی جائے گی تو دین ایسا کرنے والے پر غالب آ جائے گا، یعنی وہ دین سے بے زار ہو جائے گا۔ لہذا عمل کے معاملے میں اعتدال سے کام لو، میانہ روی اختیارکرو اور دین کے قریب رہو، اگر کامل ترین صورت اپنا نہیں سکتے تو ایسے اعمال کرو جو اس سے قریب تر ہوں، اپنے رب کے پاس ملنے والے ثواب کی خوشخبری قبول کرو، اور صبح و شام اور کسی قدر رات کی عبادت کے ذریعے مدد حاصل کرو (بخاری)
البتہ خیال رہے کہ ہنسی مذاق میں کسی کا دل دکھانا نہیں چاہیے یعنی جب بھی کسی کے ساتھ مذاق کریں تو مذاق کرنے اور مذاق اڑانے کے فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے اور سب سے اہم بات یہ کہ دوران مزاح جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ کیونکہ فرمان رسالت ہے کہ ’’تباہی ہے اس شخص کے لیے جو لوگوں کو ہنسانے کی خاطر جھوٹی باتیں کرتا ہے۔ (ترمذی)
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 ڈسمبر تا 24 ڈسمبر 2022