کم عمری میں شادی کے خلاف اندھا دھند گرفتاریاںبنیادی مسائل کو حل کئے بغیر لاحاصل

آسام حکومت کی کارروائی نیا بحران پیدا کرنے کا سبب

نور اللہ جاوید، کولکاتا

بنیادی وجوہات کو حل کیے بغیر قوانین کا نفاذ بے فیض
دیہی علاقوں میں اسپتال اور تعلیمی سہولتوں کی کمی خواتین کو بااختیار بنانے کی راہ میں رکاوٹ
علم سیاسیات کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کےلیے ماں ہوتی ہے۔یعنی جس طریقے سے مائیں اپنے بچوں کی خامیوں، کوتاہیوں اور غلطیوں کو نظر انداز کرکے ان کے بہتر مستقبل کےلیے جتن کرتی ہیں اسی طرح ریاست یا حکمرانوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو اولاد کی طرح دیکھیں اور ان کے حقوق و مفادات کے تحفظ اور بہتر مستقبل کےلیے ہر ممکن کوشش کریں۔مگر ملک میں حالیہ برسوں میں خود کو جابر اور مسلم مخالف حکمراں ثابت کرنے کی ہوڑ چل پڑی ہے اور وہ اس کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ ماورائے قانونی کارروائیوں سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے۔عدالتی نظام کا مذاق اڑانے والی کارروائیوں کو نیشنلزم اور مذہب کا لبادہ اڑھا کر جواز بخش دیا جاتا ہے۔اترپردیش، مدھیہ پردیش، کرناٹک اور اتراکھنڈ کے وزرائے اعلیٰ کے سخت و سست بیانات اور مخالفین بالخصوص مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزر کے ذریعہ مسمار کیے جانے کی کارروائیاں اس کا ثبوت ہیں۔ مگر ان سبھوں میں آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسواسرما سب سے آگے ہیں، وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ ایسی کارروائیاں کرتے ہیں جو ان کے بے رحم، سخت مزاج اور مسلم مخالف شبیہ کو مضبوط کرتی ہیں ۔شاید ان کے نزدیک ’الٹرا نیشنلسٹ‘ ہونے کو ثابت کرنے کا یہی ایک آسان طریقہ ہے۔
مئی2021میں آسام کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سے ہی انہوں نے آسام کے تینتیس فیصد مسلمانوں کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ پہلے انہوں نے سرکاری مدرسوں کو بند کروادیا اور اس وقت معاملے عدالت میں زیر غور ہیں۔اس کے بعد دہشت گردی کے نام پر غیرسرکاری مدرسوں پر بلڈوزر چلائے گئے۔غیرقانونی تجاوزات کے نام پر نصف صدی سالوں سے آباد مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کرکے سیکڑوں افراد کو بے گھر کردیا گیا۔ سیلاب زدگان کی مدد کرنے کے بجائے ’سیلاب جہاد‘ کی ایک نئی اصطلاح گھڑتے ہوئے آسام میں تباہ کن سیلاب کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھیرایا۔ آسامی اور بنگالی مسلمانوں کے درمیان خط فاصل کھینچنے کےلیے مقامی اور بیرونی کا سرٹیفکیٹ جاری کیاگیا۔ اب انہوں نے چائلڈ میرج ایکٹ کی خلاف ورزی کے نام پر بنگالی مسلم اکثریتی اضلاع میں کارروائیوں کا آغاز کیا ہے اور محض ایک ہفتے میں تین ہزار سے زائد ایسے افراد کو گرفتار کرلیا ہے جن پر کم عمر کی لڑکیوں سے شادی کرنے کا الزام ہے۔اپنے شوہروں کی رہائی کےلیے پولیس اسٹیشن کے باہر چیختی چلاتی خواتین کی جو تصویریں اور ویڈیوز سامنے آرہی ہیں وہ حکومت کی بربریت اور بے رحمی کا بھیانک چہرہ پیش کرتی ہیں ہے۔ ہیمنت بسواسرما نے دیگر امور کی طرح کم عمری کی شادی کے مسئلہ کو بھی فرقہ وارنہ رنگ دینے کی کوشش کی۔انہیں یقین تھا کہ اس کارروائی کی زد میں صرف مسلمان آئیں گے مگر چونکہ انہوں نے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کی رپورٹ کا باریک بینی سے تجزیہ نہیں کیا تھا اور آناً فاناً سخت کارروائی کرنے کی ہدایت دے دی اس لیے اس اقدام کی زد میں بڑی تعداد میں پسماندگی کے شکار غیر مسلم بنگالی، دلت اور آدی واسی بھی آرہے ہیں ۔گوہاٹی میں مقیم سماجی سائنسدان ادیپن دتہ بتاتے ہیں کہ ’’اس نے (سرما) نے فیملی ہیلتھ سروے کو غلط سمجھاکہ یہ صرف بنگالی مسلم کمیونٹی کے لیے مخصوص ہے اور ان کے خلاف کریک ڈاؤن سے اس کی مسلم مخالف شبیہ کو فروغ ملے گا اور مزید پولرائزیشن ہوگا۔ لیکن گرفتاریاں ظاہر کرتی ہیں کہ کم عمر میں بچیوں کی شادی برادری سے زیادہ طبقاتی مسئلہ ہے۔
ہیمنت بسواسرما کی اندھا دھند کارروائیوں نے کئی سوالات کھڑے کیے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کم عمر کی لڑکیوں کی شادی کا مسئلہ تشویش ناک ہے۔نوآبادیاتی دور میں ہی شادی قوانین میں اصلاحات کی گئی تھیں۔1861میں پہلی مرتبہ Age of Consent Acts of 1861 لایا گیا۔اس ایکٹ کے تحت جنسی ملاپ کی کم از کم عمر دس سال مقرر کی گئی تھی۔اس کے بعد 1891 نے ازدواجی حقوق میں اصلاحات کی گئیں۔جب 1891 میں Age of Consent ایکٹ میں ترمیم کی گئی تو قدامت پسندوں نے اسے ہندو سماج میں مداخلت قرار دیا۔ اخبار مراٹھا کیسری اس مہم میں سب سے آگے تھا۔بھارت میں کم عمری میں شادی کے رواج کی جڑیں کافی گہری ہیں اور یہ صرف بھارت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں لڑکیوں کی کم عمری میں شادیاں ہوتی تھیں۔چنانچہ نوآبادیاتی دور میں بھی اور آزادی کے بعد کے دور میں بھی شادی کی عمر پر بتدریج اصلاحات کی گئیں۔2006میں ترمیم کرکے کم عمرکی لڑکی سے شادی کرنے پر جیل کی سزا دی گئی تھی۔1929میں شادی کی عمر چودہ سال کی گئی اور اس کے بعد 1949میں پندرہ سال اور1978میں لڑکیوں کی شادی کی عمر اٹھارہ سال کی گئی۔ اب مودی حکومت نے لڑکیوں کی شادی کی عمر کم سے کم اکیس سال کرنے کی تجویز منظور کی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ اگر والدین سماجی، معاشی یا پھر کسی اور وجہ سے اٹھارہ سال سے کم عمر میں لڑکی کی شادی کردیتے ہیں تو کیا شادی باطل ہوجائے گی؟ اس طرح کئی پیچیدہ سوالات ہیں جنہیں اب تک عدالتیں بھی حل نہیں کرپائی ہیں اور نہ ہی کوئی واضح قوانین بنائے گئے ہیں۔نیشنل فیملی ہیلتھ سروے5نے2019-2021کا جو سروے شائع کیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ ملک میں کم عمر کی لڑکیوں کی شادی کے رجحانات میں تیزی سے کمی آئی ہے ۔اگرچہ یہ کمی اطمینان بخش نہیں ہے بلکہ مزید کمی آنے کی ضرورت ہے لیکن کم عمری میں شادی کے رجحانات میں جو کمی آئی ہے اس کی وجوہات کیا ہیں؟ کیا یہ کمی سخت قانونی کارروائیوں کے نتیجے میں ہوئی ہے یا پھر بہتر تعلیم کے مواقع، سماجی بیداری اور معاشی ہم آہنگی کے نتیجے میں؟ آسام میں ہیمنت بسواسرما کے ذریعہ کم عمر لڑکیوں کی شادی کے خلاف کریک ڈاون کو مذکورہ سوال کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔آسام میں کم عمر میں لڑکیوں کی شادی کے رجحانات کیا ہیں اور اس کی وجوہات کیا ہیں؟ کیا کم عمر میں لڑکیوں کی شادیاں معاشی مساوات و ہم آہنگی اور تعلیم معاشرتی انصاف کے باوجود ہورہی ہیں۔ہیمنت بسواسرما کی یہ کارروائیاں اس لیے سوالوں کی زد میں ہیں کہ صرف لڑکے کے خاندان کو ہراساں کیا جارہا ہے جبکہ کم عمر کی لڑکیوں کی شادی میں والدین کا اہم کردار ہوتا ہے۔حمل ہونے کی صورت میں ڈاکٹر، اسپتال اور آشا ورکر کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کو مطلع کریں۔ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔چنانچہ بھارت میں کم عمر میں شادی کے مسئلے کوصرف ایک پہلو سے دیکھ کر نہیں سمجھا جاسکتا ہے بلکہ اس کے ہرایک پہلو پر تفصیلی گفتگو کی ضرورت ہے۔لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کسی ایک مذہب کا مسئلہ ہونے سے کہیں زیادہ یہ طبقاتی مسئلہ ہے۔اس کا تعلق براہ راست تعلیم اور معاشیات ہے۔چنانچہ شہروں میں آباد خاندان چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو وہ اپنی بچیوں کی شادی اوسطاً اکیس یا پھر بیس سال سے کم عمر میں نہیں کرتے ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں چوبیس تا اٹھارہ سال کے درمیان کی لڑکیوں میں ہر چار میں سے ایک لڑکی کی شادی اٹھارہ سال کی عمر ہوتی ہے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کا مسئلہ صرف آسام کا نہیں ہے بلکہ یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔علاوہ ازیں کم عمری میں شادیاں صرف بھارت میں نہیں ہوتی ہیں بلکہ عالمی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور یونیسیف کی مہم کے باوجود پوری دنیا میں ہو رہی ہیں۔ دنیا میں تقریباً چھ سو پچاس ملین خواتین کی شادیاں بچپن میں کر دی گئیں۔ ان میں سے تقریباً ایک تہائی کی شادی پندرہ سال کی عمر سے پہلے کر دی گئی تھی۔ مگر ایک تلخ حقیت یہ ہے کہ بھارت میں ہی سب سے زیادہ کم عمر میں لڑکیوں کی شادیاں ہوتی ہیں۔اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق پندرہ لاکھ لڑکیوں کی شادی اٹھارہ سال سے پہلے ہو جاتی ہے۔ تقریباً سولہ فیصد لڑکیوں کی شادیاں پندرہ تا انیس سال کی عمر میں ہو چکی ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق آسام میں چوالیس فیصد خواتین کی شادی اٹھارہ سال سے کم عمر میں کر دی گئی تھیں۔ راجستھان، بہار اور مدھیہ پردیش کے اعداد و شمار بالترتیب سینتالیس،چھیالیس اور تینتالیس فیصد تھے۔
نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کی رپورٹ
2019 اور 2021 کے درمیان پانچویں دور کی نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کو انجام دیا گیا ۔اس کی رپورٹ گزشتہ سال سامنے آئی، وہ یہ بتاتی ہے کہ بھارت میں کم عمر میں شادی کے رجحانات میں کمی آئی ہے۔بھارت میں بچپن کی شادیوں کا تناسب 2005-06 میں47.4 فیصد تھا مگر 2015-16 میں اکیس پوائنٹ کم ہو کر 26.6 فیصد تک آگیا ۔
پانچ سال بعد اس میں مزید تین پوائنٹ کی کمی آئی اور 2022 میں جو رپورٹ آئی اس میں اس کی شرح 23.3 فیصد ہے۔اگرچہ یہ اعداد وشمار اطمینان بخش نہیں ہیں اور دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے ميں کہیں زیادہ ہیں ۔اس میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔تاہم کچھ ریاستوں میں یہ شرح کہیں زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب، مغربی بنگال، منی پور، تریپورہ اور آسام میں اس کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور تریپورہ میں 33.1 فیصد ہے جبکہ 2015-16میں یہ شرح 40.1 فیصد تھی۔تریپورہ میں یہ شرح 16.2فیصد ہے جو پانچ سال قبل 20.4فیصد تھی۔مغربی بنگال اور بہار وہ ریاستیں ہیں جہاں کم عمری کی شادیوں کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ بہار میں کمی آئی ہے جو کہ معمولی ہے۔
پانچ سال قبل بہار میں 42.5 فیصد کم عمر لڑکیوں کی شادیاں ہوتی تھیں اور اب یہ کم ہوکر 40.8فیصد ہوگئی ہے۔نیشنل فیملی ہیلتھ سروے۔5کے مطابق، سروے میں شامل23.2خواتین نے اٹھارہ سال کی قانونی عمر تک پہنچنے سے پہلے شادی کرلی تھی جونیشنل فیملی ہیلتھ سروے۔4میں 26.8فیصد ہے۔اسی طرح پانچ سال قبل کی رپورٹ میں اکیس سال سے کم عمر لڑکوں میں شادی شرح 20.3فیصد تھی جو کم ہوکر 17.7فیصد ہوگئی ہے۔چھتیس گڑھ ان ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں سب سے زیادہ گراوٹ درج کی گئی ہے۔ کم عمر لڑکیوں کی شادیاں21.3فیصد سے کم ہو کر12.1فیصد اور مردوں میں26.9فیصد سے کم ہو کر16.2فیصد تک پہنچ گئی ہیں۔جموں و کشمیر ،لکشدیپ، لداخ، ہماچل پردیش، گوا، ناگالینڈ، کیرالا، پڈوچیری اور تمل ناڈو میں کم عمری کی شادیاں سب سے کم ہیں۔سروے رپورٹس کے مطابق نوعمر حمل کی شرح 9.7فیصد سے کم ہو کر6 .8فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
نیشنل فیملی ہیلتھ سروے-5 (2019-21) کے مطابق، یہ مسئلہ دیہی علاقوں میں سب سے سنگین ہے۔کیوں کہ دیہی علاقوں میں ستائیس فیصد کم عمر لڑکیوں کی شادیوں کے رجحانات ہیں۔ جب کہ شہری علاقوں میں کم عمری کی شادیاں 14.7فیصد ہیں۔رپورٹ کے مطابق کم عمر لڑکیوں کی شادیوں کی اکثریت پندرہ تا سترہ سال کی عمر کے گروپ تک محدود ہے۔ صرف آٹھ فیصد کی شادیاں چودہ سال یا اس سے پہلے ہوتی ہیں۔ اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے ہونے والی شادیوں میں آسام کا حصہ بمشکل تین فیصد ہے یہاں تک کہ گجرات جیسی ترقی یافتہ ریاست کی حصہ داری 4.4 فیصد ہے۔نیشنل فیملی ہیلتھ سروے۔5کے مطابق آسام میں ہندوؤں میں کم عمری کی شادیوں کا تناسب 23.5فیصد ہے جو قومی اوسط 23.2کے قریب ہے، مسلمانوں میں 45.8فیصد اور عیسائیوں میں 23.8فیصد ہے۔اس کے علاوہ کم عمری کی شادیاں غریب ترین طبقوں میں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ یہ آسام میں اور بھی زیادہ ہے، بیالیس فیصد کم عمری کی شادیاں غریب ترین بیس فیصد غریب طبقے میں ہوتی ہیں۔ غربت اور اقلیتی مذہبی برادری کی شناخت کا آپس میں گہرا تعلق ہے جبکہ اکیاون فیصد مسلمان غریب ترین غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اکتیس فیصد ہندو غریب ترین طبقے سے ہیں۔ ہندوستان کے سب سے شرمناک اعدادوشمار زچگی کی شرح اموات سے متعلق ہیں۔اس معاملے میں آسام کی صورت حال دیگر ریاستوں کے مقابلے ميں کم ہے۔ زچگی کی اموات کا انیمیا سے گہرا تعلق ہے۔ تاہم نیشنل فیملی ہیلتھ سروے ۔5کے اعدادو شمار کے تفصیلی تجزیے سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ خون کی کمی شادی کی عمر سے متاثر نہیں ہوتی اور اگر معاشی حیثیت پر غور کیا جائے تو یہ زیادہ عمر میں بھی برقرار رہتا ہے۔ خون کی کمی کا تعلق غربت سے ہے۔ کم عمری کی شادی خون کی کمی کا سبب بنتی ہے۔ غریب خواتین جن میں خون کی کمی ہے ان کی شادیوں میں تاخیر کی جائے تو بھی خون کی کمی باقی رہتی ہے۔چنانچہ زچگی کی اموات کی شرح کو کم عمر کی شادیوں سے جوڑ کر پورے مسئلے سے صرف نظر کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوجاتا ہے ۔اس کے ہر پہلو پر غور و فکر کرنے اور اس کا ازالہ کرنے کی ضرورت ہے۔(دیے گئے جدولوں میں بدلتی ہوئی صورت حال کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے)
آسام، کم عمرلڑکیوں سے شادی کرنے والوں کے خلاف کارروائی سے سوالوں کی زد میں کیوں ہے؟
نیشنل فیملی ہیلتھ سروے۔5 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آسام میں کم عمری میں حمل کی شرح 11.7فیصد ہے جو قومی اوسط 6.8سے کہیں زیادہ ہے۔اس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسواسرما نے 23جنوری کو اعلان کیا کہ حکومت نے کم عمرکی لڑکیوں سے شادی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔چودہ سال سے کم عمر کی لڑکیوں سے شادی کرنے والے مردوں کے خلاف پروٹیکشن آف چلڈرن فرام سیکسوئل آفنسز ایکٹ(POCSO )اور اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکیوں سے شادی کرنے والوں کے خلاف پروہیبیشن آف چائلڈ میرج ایکٹ کےتحت کارروائی کی جائے گی اور یہ کارروائی اس وقت جاری رہے گی جب تک ہم اپنا مقصد حاصل نہ کرلیں۔فروری کے پہلے ہفتے میں آسام کے مختلف علاقوں میں کارروائیوں کا آغاز ہوا۔ پولیس کے اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ زیادہ مسلم آبادی والے اضلاع میں دوسروں اضلاع کے مقابلے زیادہ گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ بسوناتھ، بارپیٹا، بکسا، دھوبری، ہوجائی، بونگائیگاؤں اور ناگاؤں کے اضلاع میں ہر ایک میں سو سے زیادہ گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ جبکہ بارپیتا، دھوبری، ہوجائی، ناگاؤں، اور بونگائیگاؤں مسلم اکثریتی اضلاع ہیں، بسوناتھ اور بکسا میں بھی کمیونٹی کے لوگوں کی کافی تعداد ہے۔بنگالی نژاد مسلمان، جنہیں اکثر ’’غیر قانونی مہاجر‘‘کہا جاتا ہے، آسام کی سب سے پسماندہ کمیونٹیز میں سے ایک ہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں زیادہ تر ان پڑھ ہیں۔انہیں پوکسو اورپروہیبیشن آف چائلڈ میرج ایکٹ جیسے قوانین کا علم نہیں ہے۔ گرفتار ہونے والے افراد میں سے ایک بڑی تعداد کی پیروی کرنے والے دھوبری میں مقیم ایڈووکیٹ مسعود زماں نے بتایا کہ پولیس نے بنگالی نژاد مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے مردوں کے خلاف زیادہ سخت POCSO ایکٹ کا اطلاق کیا ہے۔ مجولی میں چوبیس مسلم لڑکوں کو شادی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا مگر انہیں صرف چوبیس گھنٹوں میں ضانت دیدی گئی ۔یہی وہ صورت حال ہے کہ جس کی وجہ سے ہیمنت بسواسرما کی نیت اور طریقے کار پر سوالات اٹھتے ہیں ۔
مسلم پرسنل لا کی شادی کی عمر اور عدالتوں کا نقطہ نظر
آسام میں کم عمر میں لڑکیوں کی شادی کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد مسلم پرسنل لاز میں لڑکیوں کی شادی کی عمر کا ایشو بھی موضوع بحث بن گیا ہے۔مسلم پرسنل لا میں شادی کی عمر کے مسئلے پر بحث شروع ہونے سے قبل اس حقیقت کا بھی علم ضروری ہے کہ دنیا بھر کے دیگر ممالک کی طرح مسلم ممالک میں بھی شادی کی عمر کا تعین جسمانی ساخت، مقامی موسم اور حالات کے تناظر میں مقرر کیا گیا ہے۔علاوہ ازیں منوسمرتی جو ہندوؤں کی مذہبی گرنتھ کا حصہ ہے اس میں بھی شادی کی عمر بلوغت کے بعد متعین کی گئی ہے۔چنانچہ نوآبادیاتی دور میں جب شادی کے لیے عمر کا تعین کیا جارہا تھا بال گنگا دھر تلک سے لے کر دیگر اہم شخصیات نے اس کی شدید مخالفت کی تھی اور اس کو ہندوؤں کے قوانین میں مداخلت قرار دیا تھا۔ منوسمرتیوں کا کہنا ہے کہ اگر باپ اپنی بیٹی کی بلوغت کے تین سال کے اندر اس کی شادی کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو وہ اپنے طور پر ایک شریک حیات تلاش کر سکتی ہے۔ منوسمرتی کے قدیم ترین مبصروں میں سے ایک میدھاتیتھی کے مطابق، آٹھ سال لڑکی کی شادی کے لیے صحیح عمر ہے۔ یونانی سیاح میگاسٹینیز (350-290 قبل مسیح) نے لکھا ہے کہ اسے بتایا گیا تھا کہ جنوبی ہندوستان میں پانڈین سلطنت کی عورتیں چھ سال کی عمر میں بچے پیدا کرتی ہیں۔ تقریباً سات صدیوں بعد، فارسی پولیمتھ، البیرونی نے لکھا کہ ہندوستان میں کم عمری کی شادیاں عروج پر تھیں۔
مسلم پرسنل لا میں بلوغت کے بعد شادی کی اجازت ہے۔ بلوغت کو ثبوت کی عدم موجودگی میں پندرہ سال کی عمر مکمل ہونے کے بعد شادی کی اجازت ہے۔دراصل اسلام جنسی بے راہ روی، انارکی اور ماورائے شادی جنسی تعلقات قائم کرنے کا شدید مخالف ہے۔جنسی بے راہ روی روکنے کےلیے اسلام جلد سے جلد شادی کےحق میں ہے۔المیہ یہ ہے کہ حکومتیں کم عمر کی شادی روکنے کےلیے قانون سازی تو کرتی ہیں لیکن کم عمری میں جنسی تعلقات روکنے کےلیے نہ اقدامات کیے جاتے ہیں اور نہ اس کے لیے کوئی بیداری مہم چلائی جاتی ہے۔ماضی میں مختلف ہائی کورٹس نے اٹھارہ سال سے کم عمر میں شادی کرنے والے مسلم جوڑے کی شادی کو منسوخ کرنے سے انکار کردیا تھا۔پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے ساڑھے سولہ سالہ مسلم لڑکی کو اجازت دی تھی۔اس کے خلاف نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس نے سپریم کورٹ میں اپیل کی ہے اور 13جنوری کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس چند چوڑ نے سماعت کےلیے منظور کرلیا ہے۔این سی پی سی آرکی دلیل ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر میں لڑکیوں کی شادی تعزیرات ہند میں شامل ہے اور کوئی بھی پرسنل لا تعزیرات ہند سے مستثنی نہیں ہوتے ہیں۔ قومی کمیشن برائے خواتین (NCW) نے بھی دسمبر 2022 میں سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی تھی، جہاں اس نے مسلمانوں کے لیے شادی کے قابل کم از کم عمر کو دیگر برادریوں کے برابر بنانے کے لیے ہدایات مانگی تھی۔ عدالت نے نوٹس جاری کیا تھا اور اس معاملے میں معاونت کے لیے سینئر ایڈووکیٹ راج شیکھر راؤ کو ایمیکس کیوری مقرر کیا تھا۔
پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹس نے کئی فیصلوں میں کہا ہے کہ ایک مسلم لڑکی بلوغت کے بعد قانونی طور پر شادی کر سکتی ہے۔ اکتوبر 2022 میں کرناٹک ہائی کورٹ نے ایک مسلم شخص کے خلاف پوکسو کیس کو مسترد کر دیا جسے ایک اسپتال نے قانون کے تحت لازمی انکشافات کرنے کے بعد گرفتار کیا تھا جب اس کی حاملہ بیوی، جس کی عمر سترہ سال اور دو ماہ تھی، ڈاکٹر کے پاس گئی تھی۔ نومبر 2022 میں، کرناٹک ہائی کورٹ کی ایک اور بنچ نے قانون میں بے ضابطگی کو نوٹ کرتے ہوئے، اسی طرح کے حالات میں گرفتار ایک مسلم شخص کو ضمانت دے دی۔2021 میں مرکزی حکومت نے تمام مذاہب کی خواتین کے لیے قابل انتظام عمر کو اٹھارہ سے بڑھا کر اکیس سال کرنے کے لیے بچپن کی شادی کی روک تھام (ترمیمی) بل 2021 متعارف کرانے کی کوشش کی۔ تاہم اس کی جانچ کرنے والے پارلیمانی پینل نے اکتوبر 2022 میں توسیع ملنے کے بعد ابھی تک اپنی رپورٹ پیش نہیں کی ہے۔پہلے بھی پی وینکٹ رمنا (1977) رابندرا (1986) جی سراوانن (2017) نے مختلف ہائی کورٹس میں فیصلہ دیا تھا کہ کم عمری کی شادیاں نہ تو باطل ہیں اور نہ ہی قابل قبول بلکہ درست ہیں۔
11 جنوری 2023 کو کرناٹک ہائی کورٹ نے ہندو میرج ایکٹ 1955 کے تحت نابالغ لڑکی کے ساتھ شادی کو کالعدم قرار دینے سے انکار کردیا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا آتا ہے یہ وقت ہی بتائے گا مگر اس سوال پر بھی غور کرنا لازمی ہے کہ اگر کوئی جوڑا اٹھارہ سال سے کم عمر میں شادی کرتا ہے اور اس سے بچے کی ولادت ہوجاتی ہے تو ایسی صورت میں اگر قانونی کارروائی کی جاتی ہے اور شادی کو رد کردیا جاتا ہے تو کیا اس سے مسئلہ حل ہوجائے گا یا پھرمزید پیچیدگیاں پیدا ہوں گی؟ آسام میں اندھا دھند گرفتاریوں نے اسی طرح کا بحران پیدا کردیا ہے۔غربت و مفلوک الحالی کی شکار خواتین جن کے شوہروں کو کم عمری میں شادی کرنے کے معاملے میں گرفتار کرلیا گیا ہے ان کی کفالت کون کرے گا؟ خواتین کا بوجھ کم ہونے کے بجائے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا گیا ہے۔چنانچہ مسلمانوں کا یہ موقف ہے کہ اگر کسی نے اٹھارہ سال سے کم عمر میں شادی کی ہے تو اس کو منسوخ نہیں کیا جانا چاہیے۔تاہم ایک اہم سوال مسلم تنظیموں اور مسلم پرسنل لا کے ماہرین کی بھی توجہ چاہتا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب سماجی و معاشرتی صورت حال میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے، ماحولیاتی آلودگی اور گلوبل وارمنگ نے انسانی زندگی کو براہ راست متاثر کیا ہے، دولت کی غیر مساویانہ تقسیم نے سماج میں نابرابری کی خلیج گہری کردی ہے اور ان احوال کے نتیجے میں انسانی جسم متاثر ہوئے ہیں تو کیا ایسے میں بلوغیت کی عمر جو پندرہ سال بتائی گئی ہے کیا اس میں اضافہ نہیں ہوسکتا؟
کم عمر کی شادیوں سے نمٹنے میں چیلنجز اور بنیادی وجوہات
بھارت میں کم عمری کی شادیاں چند دہائیوں کی پیداوار نہیں ہے،اس کی جڑیں کئی صدی قدیم سماجی، معاشی اور معاشرتی روایات میں پیوست ہیں۔اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ اس میں بہتری آئی ہے اور کم عمری کی شادی کے رجحانات میں کمی آئی ہےجیسا کہ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کی رپورٹ واضح کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق بھارت میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ چائلڈ دلہنیں ہیں، جہاں ہر تین میں سے تقریباً ایک لڑکی کی شادی اٹھارہ سال سے پہلے ہو جاتی ہے۔ یہ مسئلہ خاص طور پر پسماندہ طبقات میں پایا جاتا ہے، جیسے دلت، قبائل، جن کی سماجی، معاشی اقتصادی، اور تعلیمی سہولیات تک رسائی عام نہیں ہے۔ملک کے دیگر شہریوں کی طرح یہ کمزور طبقات شہری سہولیات، آرائش اور سہولتوں سے محروم ہیں۔ سماجی ماہرین کی رائے ہے کہ ملک میں مضبوط قوانین اور پالیسیوں کے باوجود بچوں کی شادیاں ایک مستقل مسئلہ بننے کی کئی وجوہات ہیں جن میں ایک بنیادی وجہ غربت ہے، جو خاندانوں کو اپنی بیٹیوں کی جلد شادی کرنے پر مجبور کرتی ہے تاکہ ان کا مالی بوجھ کم ہوسکے۔ اس کے علاوہ، گہری جڑیں رکھنے والے ثقافتی اور سماجی اصول جو شادی کو ایک فرض کے طور پر دیکھتے ہیں مزید برآں لڑکیوں کےلیے تعلیم تک رسائی اور متبادل راہیں مسدود ہونا بھی ایک بڑی وجہ ہے ۔خاص طور پر دیہی اور دور دراز علاقوں میں جہاں اسکول، کالج نہیں ہیں وہاں کم عمری میں لڑکیوں کی شادیوں کا رجحان زیادہ ہے۔اسکول نہیں جانے والی خواتین کی شادی کی اوسط عمر 17.6 تھی جو کہ بارہويں جماعت سے آگے تعلیم یافتہ خواتین کی عمر سے کافی کم ہے ۔نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس کی ایک رپورٹ کے مطابق پندرہ تا اٹھارہ سال کی تقریباً چالیس فیصدلڑکیاں اسکول نہیں جاتیں۔ ان میں سے تقریباً پینسٹھ فیصد لڑکیوں کی کم عمری میں شادی ہوجاتی ہے۔2019 کے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق خواتین کی شادی کی اوسط عمر 22.1سال ہے۔ یہ اعداد و شمار سالوں میں بتدریج بڑھے ہیں۔ تبدیلی بڑی حد تک رونما ہوئی ہے کیونکہ خواتین میں تعلیم کی شرح میں بہتری آئی ہے۔لہٰذاکم عمر میں لڑکیوں کی شادیوں کا حل لڑکیوں کی تعلیم کو بڑھانے، خواتین کی کم شرح تعلیم والی کمیونٹیز میں تعلیم کی اہمیت کے بارے میں بیداری لانے کی ضرورت ہے ۔سماجی و اقتصادی طور پر کمزور گھرانوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کو بچوں کی شادیوں پر مجبور کیا جاتا ہے اور انہیں مالی مدد فراہم کرکے خاص طور پر تعلیم کے حصول کی راہیں ہموار کرکےکم عمری کی شادیوں کے دباؤ کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔کم عمری کی شادی کے مسئلے کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک کثیر الجہتی نقطہ نظر اختیار کیا جائے، قانونی اقدامات کو تعلیم اور بااختیار بنانے کے اقدامات کے ساتھ ساتھ قوانین نفاذ کی کوشش کی جائے گی تو وہ نتیجہ خیز ثابت ہوگی۔حقیقی اور دیرپا تبدیلی لانے کے لیے حکومت، سول سوسائٹی اور کمیونٹیز کی اجتماعی کوششوں کی ضرورت درکار ہے۔صرف قانون کا خوف مسئلہ کا حل نہیں ہے۔
لہذا کم از کم ازدواجی عمر کو قانونی طور پر بڑھانے کے بجائے، معاشرے میں صحت مند اقدار کے فروغ کے لیے بچپن کی شادیوں کی بنیادی وجوہات تک پہنچ کر مسئلہ کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔شادی کی عمر کی حدمیں اضافے کے مخالفین کی دلیل بہت حد تک مستحکم ہے کیوں کہ بنیادی وجوہات کو حل کرنے کے بجائے عمر کی حد میں اضافہ کرنے کی وجہ سے دیگر سماجی و بنیادی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔اسکول و کالج اور دیگر عوامی مقامات پر جنسی بے راہ روی کے واقعات بڑھ سکتے ہیں۔
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 آسام میں اندھا دھند گرفتاریوں نے اسی طرح کا بحران پیدا کردیا ہے۔غربت و مفلوک الحالی کی شکار خواتین جن کے شوہروں کو کم عمری میں شادی کرنے کے معاملے میں گرفتار کرلیا گیا ہے ان کی کفالت کون کرے گا؟ خواتین کا بوجھ کم ہونے کے بجائے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا گیا ہے۔چنانچہ مسلمانوں کا یہ موقف ہے کہ اگر کسی نے اٹھارہ سال سے کم عمر میں شادی کی ہے تو اس کو منسوخ نہیں کیا جانا چاہیے۔تاہم ایک اہم سوال مسلم تنظیموں اور مسلم پرسنل لا کے ماہرین کی بھی توجہ چاہتا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب سماجی و معاشرتی صورت حال میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے، ماحولیاتی آلودگی اور گلوبل وارمنگ نے انسانی زندگی کو براہ راست متاثر کیا ہے، دولت کی غیر مساویانہ تقسیم نے سماج میں نابرابری کی خلیج گہری کردی ہے اور ان احوال کے نتیجے میں انسانی جسم متاثر ہوئے ہیں تو کیا ایسے میں بلوغیت کی عمر جو پندرہ سال بتائی گئی ہے کیا اس میں اضافہ نہیں ہوسکتا؟


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 فروری تا 25 فروری 2023