کیا بھارت، چین کے مقابلے میں بڑی اقتصادی قوت بن جائے گا؟

ملک کو تعلیم و ترقی، بہتر معیار زندگی اور معاشی اصلاحات پر کثیر سرمایہ کاری کی ضرورت

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

وال اسٹریٹ کے تجزیہ نگاروں کو چین کی معیشت میں آنے والی سستی کے بارے میں کس گڑبڑی کا اندیشہ تھا لیکن وہ بول نہیں رہے ہیں۔ انوسٹمنٹ بینکوں کی چین کے بارے میں خوش فہمیاں اچھالی جارہی ہیں جو کہ حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ تجزیہ نگاروں نے اندازہ لگایا تھا کہ امسال چین کی معیشت بڑی تیزی سے ابھرے گی اور وہ لوگ اس پر آج بھی قائم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چین کی جی ڈی پی کی شرح نمو پانچ فیصد کے آس پاس رہے گی۔ یہی اندازہ خود چین کا بھی ہے، مگر چینی کمپنیاں جس طرح کی اتھل پتھل کا شکار ہیں اور جو خبریں ان کی طرف سے آرہی ہیں اس کے مد نظر مذکورہ شرح نمو کی حصولیابی بہت بڑی بات ہوگی۔ چینی کارپوریٹ کی بادشاہت 28 میں سے محض 20 سیکٹرس میں محدود ہوگئی ہے جس میں اکثر کی رفتار دھیمی ہوگئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی چینی معیشت میں بہتری بھی اپنی رفتار کھو رہی ہے۔ ان میں اپلائنس سے لے کر آٹو سیکٹرس تک سبھی شامل ہیں۔ اسی طرح ٹیکس وصولی بھی کم ہوگئی ہے جس کا واضح مطلب ہے کہ منافع کم ہوا ہے۔ چین کی ایم ایس سی آئی اسٹاک انڈیکس میں ری اوپننگ کے بجائے مایوسی بکھری پڑی ہے۔ جنوری میں اچھال کے بعد وہاں 15 فیصد کی تنزلی درج ہوئی ہے چین کی کریڈٹ گروتھ بھی دھیمی پڑ رہی ہے۔ اپریل میں اس میں 720 ارب رنمینبی (چینی کرنسی) کی اچھال بھی آدھی ادھوری ہے۔ چینی شہریوں پر قرض کا بوجھ امریکیوں سے تین گنا زائد ہے۔ چین کے لوگ اسی وقت خرچ کرسکیں گے جب ان کے ہاتھ میں پیسہ ہوگا، ساتھ ہی شہری نوجوانوں میں بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور وہ گزشتہ ماہ کے مقابلے میں 20 فیصد سے زیادہ ہوگئی ہے۔ دوسری طرف چین کی آبادی میں کمی کا مطلب وہاں کام کرنے والے لوگوں کی کمی اور فی محنت کش گھٹیا آوٹ پٹ ہے۔ ویسے دنیا کے سامنے چین سالہا سال سے اپنے گروتھ ٹارگیٹ کو پانے کے لیے جی ڈی پی کے اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا رہا ہے۔ صنعتی سرمایہ کاروں نے گزشتہ محض چار ماہ میں اربوں ڈالر گنوائے ہیں جس سے عالمی ترقی کی رفتار بے حد متاثر ہوئی ہے۔
ایسے حالات میں بھی چین اب بھی 5 فیصد شرح ترقی کا ہدف لے کر چل رہا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اب اس کی صلاحیت آدھی سے زیادہ ہے، اس سے حالت اور بدتر ہوگی۔ چین کی ’ری اوپننگ بوم‘ کی تعریف کرنے والوں کے لیے ایک حد میں رہنا ہی بہتر ہوگا۔ گزشتہ ایک دہائی میں دی گئیں ترغیبات (Incentives) کا ایک بڑا حصہ مقامی حکومتوں کے ذریعہ بازار میں لایا گیا اور اسے رئیل اسٹیٹ کی خریداری کے لیے خود مالی ذرائع کو استعمال کیا۔ اب وہ سب ذرائع یا تو دیوالیہ ہو رہے ہیں یا مزید قرض دینے کی حالت میں نہیں رہ گئے ہیں جس سے پراپرٹی مارکٹ میں سرمایہ کاری رک گئی ہے کیونکہ معیشت کا چینی ماڈل سرکاری مراعات اور بڑھتے قرضوں پر منحصر تھا۔ ان میں زیادہ تر سرمایہ کاری پراپرٹی مارکیٹ میں کی گئی تھی جو اس وقت ترقی کا انجن بن کر ابھر رہا تھا۔ مگر کورونا وبا کے دوران حکومت نے مالی مراعات کی فراہمی میں تخفیف کر دی ہے۔ معاشی مراعات اور قرض پر منحصر گروتھ ماڈل کبھی نہ کبھی خسارہ کا باعث بنتا ہی ہے۔
چین کے برخلاف بھارت کی معاشی ترقی کی رفتار دنیا بھر میں سب سے بہتر ہے۔ ویسے ہمارا ملک دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک بن گیا ہے جہاں دنیا کی سب سے زیادہ کام کے قابل نوجوانوں کی فوج ہے اور یہ ملک کے لیے بڑی قوت ہے۔ ویسے چین اقتصادی قوت، فوجی طاقت اور جیو پالٹیکل اثر و رسوخ کی وجہ سے ہم سے بہت آگے ہے مگر تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اب صورتحال میں بڑی تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ ایک طرف چین کی لڑکھڑاتی معیشت ہے تو دوسری طرف بھارت کی تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت ہے جو صورتحال میں بڑی تبدیلی کا باعث ہو سکتی ہے۔ 2001 میں معاشیات میں نوبل انعام یافتہ مائیکل اسپنس کا کہنا ہے کہ اب بھارت کا وقت آگیا ہے اسی طرح اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بہت جلد بھارت چین کے قریب پہنچ جائے گا اور چین کی اقتصادی ترقی کی رفتار سست پڑجائے گی۔ جیسا کہ مذکورہ صفحات میں تفصیلی تجزیہ سے سامنے آیا۔ فی الحال بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے اور چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت۔ بھارت کے مقابلے میں چین کی معیشت کا حجم پانچ گنا زیادہ ہے۔
بھارت کی جی ڈی پی شرح ترقی 2022-23 میں 7.2 فیصد درج کی گئی ہے۔ مارچ سہ ماہی میں کچھ کم 6.1 فیصد رہی۔ یہ حقیقت ہے کہ چین کی آبادی سکڑ رہی ہے جبکہ بھارت کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازہ کے مطابق مزید چار سے پانچ دہائیوں تک آبادی بڑھتی رہے گی۔ آج بھارت کی آبادی 140 کروڑ ہے جو 2064 تک 170 کروڑ ہو جائے گی جس سے بھارت کو ڈیموگرافک ڈیویڈینڈ ملے گا جس کا مطلب ہے کہ ملک کی آبادی میں کام کرنے والے 14 تا 64 سال کے افراد میں اضافے کی وجہ سے ملک میں معاشی ترقی کی رفتار اچھی رہے گی۔ پروفیسر مارک فریزیر ڈائرکٹر آف انڈیا چائنا انسٹیٹیوٹ نیویارک، کہتے ہیں کہ بھارت میں منموہن سنگھ نے 1990 میں جو معاشی اصلاحات متعارف کرائی تھیں اس کا فائدہ ملک کو اب ہو رہا ہے۔ اب امید کی جاسکتی ہے کہ یہاں کی افرادی قوت صحتمند، ہنر مند اور کسی طرح تعلیم یافتہ افراد کی معیشت کو آگے بڑھانے کے قابل ہو گی۔ بھارت کی داخلی بیورو کریسی اور پالیسیوں میں ہونے والی تبدیلیوں کے باعث اپیل اور فوکس کان جیسی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھارت میں سرمایہ کاری سے کترا رہی ہیں۔ ملک میں بدامنی کے ماحول اور فرقہ واریت کے زہر کے پھیلاو کی وجہ سے بھی سرمایہ کاری کم ہو رہی ہے۔ دوسری طرف ورلڈ بینک کے مطابق کام کرنے کی عمر کے محض نصف لوگ کام کر رہے ہیں، جبکہ چین میں خواتین کی حصہ داری کا سوال ہے، وہ عالمی اوسط سے بہت کم ہے۔ یعنی 20 تا 25 فیصد، جبکہ چین میں 60 فیصد خواتین اور یورپی یونین میں 52 فیصد خواتین لیبر فورس کا حصہ ہیں۔ چین بڑی اقتصادی قوت ہونے کے باوجود کورونا وبا، عمر رسیدہ آبادی اور مغربی سے بڑھتی فوجی، سیاسی و معاشی کشیدگی نے معاشی شرح ترقی کو بہت متاثر کیا ہے۔ آئی ایم ایف کے تخمینوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی معیشت مزید رفتار پکڑے گی۔ چین جو 8 تا 9 فیصد کی رفتار سے ترقی کر رہا تھا اس کی سست روی اچھی نہیں ہے۔ اس کے اثرات عالمی معیشت پر پڑنا طے ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بھارت، معیشت میں تیزی سے ترقی کرنے والا ملک ہے۔ اس کی معیشت میں تیز رفتاری کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف 2025 تک بھارت کو چوتھی بڑی معیشت تسلیم کر سکتا ہے۔ بھارت ایک ایسا ملک ہے جس کے ایک طرف دولت کی ریل پیل ہے۔ تیز رفتار معیشت ایک مخصوص طبقہ کی زندگی کو انقلابی ڈھنگ سے بدل رہی ہے۔ انہیں تمام تر سہولیات مہیا کرارہی ہیں۔ دوسری طرف تعلیم اور صحت عامہ کے شعبوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ سب سے برا حال اضلاع اور دیہی علاقوں کا ہے۔ یہ دو انتہائیں ملک کی اصل حقیقت بتا رہی ہیں۔ عوام کی کثریت نا خواندگی، مہنگائی، بھوک، بیماری اور بے روزگاری سے پریشان ہے۔ یہاں کی ایک تہائی آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ سماجی و معاشی عدم مساوات بہت زیادہ ہے، متوسط طبقہ کی تعداد بہت قلیل ہے۔ تعلیمی نظام کی خستہ حالی سے عوام میں جہالت بہت زیادہ ہے۔ ایسی صورت میں ہمارا ملک چین کو پیچھے رکھ کر دوسری اور تیسری معیشت ہو بھی جائے تو کیا حاصل؟ اس لیے چین سے مسابقت کے لیے بھارت کو تعلیم، صنفی مساوات، معیار زندگی اور اقتصادی اصلاحات کے لیے بڑے پیماے پر سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔

 

***

 بھارت ایک ایسا ملک ہے جس کے ایک طرف دولت کی ریل پیل ہے۔ تیز رفتار معیشت ایک مخصوص طبقہ کی زندگی کو انقلابی ڈھنگ سے بدل رہی ہے۔ انہیں تمام تر سہولیات مہیا کرارہی ہیں۔ دوسری طرف تعلیم اور صحت عامہ کے شعبوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ سب سے برا حال اضلاع اور دیہی علاقوں کا ہے۔ یہ دو انتہائیں ملک کی اصل حقیقت بتا رہی ہیں۔ عوام کی اکثریت نا خواندگی، مہنگائی، بھوک، بیماری اور بے روزگاری سے پریشان ہے۔ یہاں کی ایک تہائی آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ سماجی و معاشی عدم مساوات بہت زیادہ ہے، متوسط طبقہ کی تعداد بہت قلیل ہے۔ تعلیمی نظام کی خستہ حالی سے عوام میں جہالت بہت زیادہ ہے۔ ایسی صورت میں ہمارا ملک چین کو پیچھے رکھ کر دوسری اور تیسری معیشت ہو بھی جائے تو کیا حاصل؟ اس لیے چین سے مسابقت کے لیے بھارت کو تعلیم، صنفی مساوات، معیار زندگی اور اقتصادی اصلاحات کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 جون تا 17 جون 2023