کرن رجیجو نے ججوں کے تبادلے کو لے کر وکلاء کے احتجاج پر تنقید کی
نئی دہلی، نومبر 20: مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو نے ہفتہ کو گجرات، تلنگانہ اور مدراس میں ہائی کورٹس کے وکلاء کی طرف سے ججوں کے تبادلے کے سپریم کورٹ کے کالجیم کے فیصلے کے خلاف مظاہروں پر تنقید کی۔
رجیجو نے کہا ’’میں نے سنا ہے کہ کچھ وکلاء سی جے آئی [ڈی وائی چندرچوڑ] سے تبادلے کے لیے ملاقات کر رہے ہیں… لیکن اگر یہ بار بار ہونے والی مثال بن جائے، کالجیم کے ہر فیصلے کے لیے، جس کی حکومت حمایت کر رہی ہے، تو یہ کہاں لے جائے گا؟ پوری جہت بدل جائے گی۔ یہ صرف عدلیہ ہی پر اثرانداز نہیں ہوگا۔‘‘
رجیجو نے یہ باتیں چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کے لیے بار کونسل آف انڈیا کی طرف سے ایک اعزازی تقریب کے دوران کہیں۔
کالجیم نظام سپریم کورٹ کے پانچ سینئر ترین ججوں پر مشتمل ہے، بشمول چیف جسٹس کے، جو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں ججوں کی تقرری اور تبادلوں کا فیصلہ کرتے ہیں۔
لائیو لاء کے مطابق وکلاء گجرات ہائی کورٹ کے جسٹس نکھل کریل اور تلنگانہ ہائی کورٹ کے جسٹس ابھیشیک ریڈی کو پٹنہ ہائی کورٹ اور مدراس ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس ٹی راجا کو راجستھان ہائی کورٹ منتقل کرنے کے کالجیم کے فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
یہ احتجاج گجرات ہائی کورٹ ایڈوکیٹ ایسوسی ایشن نے شروع کیا تھا اور بعد میں تلنگانہ اور مدراس ہائی کورٹس کے وکلاء بھی اس میں شامل ہوئے۔
ہفتہ کو رجیجو نے کہا کہ عدلیہ کی مضبوطی اور آزادی کے تحفظ کے لیے بار کونسلوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
لائیو لاء کے مطابق وزیر قانون نے کہا ’’اگر افراد ادارے سے زیادہ اپنی رائے کا اظہار کرنے لگیں تو خطرہ ہے۔ اگر ہمیں یہ یقینی بنانا ہے کہ عدلیہ کا احترام کیا جائے، عدلیہ کی آزادی کو برقرار رکھا جائے تو اس کے لیے صرف ججوں کا طرز عمل ہی نہیں بلکہ وکلاء کا طرز عمل بھی اتنا ہی ضروری اور نازک ہے۔‘‘
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ وکلاء کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ احتجاج کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان قانونی چارہ جوئی کو ہوتا ہے۔
انھوں نے یہ کہتے ہوئے کالجیم کا بھی دفاع کیا کہ بعض اوقات اس کے فیصلے قومی نقطہ نظر کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے جاتے ہیں۔