قسط ۔ 8:ملت کا تعلیمی ایجنڈا ۔چند تجاویز

ملت کے متمول افراد تعلیمی میدان میں خدماتکا آغاز کریں

سید تنویر احمد (ڈائریکٹر ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ)

وقف کی املاک کو تعلیمی ادارے قائم کرنے کے لیے استعمال کیاجائے
وہ تعلیمی ادارے جو ملت کی اجتماعی کوششوں سے قائم ہوئے تھے، ان کا معیار رفتہ رفتہ گرتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ان اداروں کا وقار مجروح ہو رہا ہے اور سماج میں ان کی افادیت معدوم ہوتی جارہی ہے۔ ایسے اداروں کے معیار کو بلند کرنے کی کوششیں بھی ہونی چاہئیں
تعلیمی اداروں کا قیام
ہمارے ملک کی تعلیمی پالیسی رفتہ رفتہ تعلیم کو سرکاری دائرے سے نکال کر پرائیویٹ دائرے کی طرف دھکیل رہی ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 ہمارے ملک کے تعلیمی نظام میں نمایاں تبدیلی کی خواہاں ہے۔ یہ تبدیلی جہاں طرزِ تعلیم کو مخاطب کرتی ہے، وہیں تعلیمی شعبے کو بڑی حد تک حکومت کی ذمہ داری سے آزاد کرتی ہے، یعنی اب تعلیمی میدان میں پرائیویٹ اداروں کی ہمت افزائی کی جائے گی۔ اتنا ہی نہیں، غیر ملکی یونیورسٹیوں کو ہمارے ملک میں اپنے کیمپس قائم کرنے کی اجازت بھی دی جائے گی۔ غالباً حکومت ایسا اس لیے کرنا چاہتی ہے کہ تعلیم پر ایک بڑے بجٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور حکومت اس بوجھ کو اٹھانا نہیں چاہتی۔ حالانکہ دستور ہند کے مطابق چار سال سے چودہ سال تک کے بچوں کی مفت تعلیم کا انتظام حکومت کے ذمہ ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 پرائیویٹ اداروں پر شکنجہ کسنے کے بجائے انہیں سہولتیں فراہم کرنے کی بات کرتی ہے۔ حکومت کا یہ رویہ جہاں کچھ مثبت پہلو لیے ہوئے ہے، وہیں اس کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں، بالخصوص ان طلبا کے لیے جن کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ سیکنڈری لیول تک کی تعلیم سرکاری اسکولوں کے بجائے پرائیویٹ اسکول زیادہ بہتر دے رہے ہیں۔ اب سرکاری اسکولوں کی کیفیت بڑی ابتر ہوتی جارہی ہے۔ غریب خاندان بھی اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے پرائیویٹ اسکولوں کا رخ کررہے ہیں۔ لہٰذا ملت کے سیاسی رہنماوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی کثرت ہے، سرکاری اسکول قائم کریں۔ جو اسکول پہلے سے موجود ہیں، ان کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کریں اور اسکولوں کی سطح اوپر اٹھائیں۔ یعنی جو اسکول پرائمری تک ہیں، انہیں میٹرک کی اور جو میٹرک تک ہیں انہیں بارہویں کی سطح تک لے جانے کے بارے میں سوچیں۔ مسلم علاقوں میں قائم اسکولوں کے معیار کو بلند کرنے کے لیے حکومت کے علاوہ این جی اوز اور اہل خیر حضرات کا تعاون حاصل کرکے آگے بڑھیں۔ (اس پر قدرے تفصیل سے ہم آگے گفتگو کریں گے)
مذکورہ صورت حال کے پیش نظر ملت کے باشعور افراد کو زیادہ سے زیادہ تعلیمی ادارے قائم کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ آزادی سے قبل اور آزادی کے فوری بعد مسلمانوں نے تعلیمی میدان میں ملی اداروں کے تحت کامیاب کوششیں کی تھیں، ان کوششوں کی درخشاں مثالیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ان یونیورسٹیوں کے علاوہ ملی انجمنیں اور اداروں نے مختلف شہروں میں تعلیمی ادارے قائم کیے تھے۔ لیکن ادھر چند برسوں سے تعلیمی میدان میں اجتماعی کوششیں کمزور ہوگئی ہیں، اس کے برخلاف پرائیویٹ ٹرسٹ یا سوسائٹی یا خاندانی ٹرسٹ اور سوسائٹی تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں قائم کر رہے ہیں۔ اکثر ایسے ادارے تجارتی انداز میں تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں، ہمیں ان کی ان خدمات کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔ لیکن ملت کو اس سوال پر بھی گفتگو کرنی چاہیے کہ اب ملت تعلیمی ادارے قائم کرنے میں کیوں پیچھے ہے؟ گزشتہ دو تین دہائیوں کے دوران ملک بھر میں کوئی ایسا تعلیمی ادارہ قائم نہیں ہو سکا جسے اجتماعی کوششوں کا نتیجہ کہا جا سکے۔ البتہ مسلمانوں کے پرائیویٹ ٹرسٹ اور سوسائٹیوں نے یقینًا بڑے تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں جو کسی ایک شخصیت یا ایک خاندان کے تصرف میں ہیں۔ ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ وہ تعلیمی ادارے جو ملت کی اجتماعی کوششوں سے قائم ہوئے تھے، ان کا معیار رفتہ رفتہ گرتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ان اداروں کا وقار مجروح ہو رہا ہے اور سماج میں ان کی افادیت معدوم ہوتی جارہی ہے۔ ایسے اداروں کے معیار کو بلند کرنے کی کوششیں بھی ہونی چاہئیں۔
تعلیمی اداروں کا قیام
ہم اس ذیلی عنوان کے تحت ملت اور ملت کے باشعور افراد کو جھنجھوڑنا چاہتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہوسکے وہ تعلیمی ٹرسٹ قائم کریں اور ان ٹرسٹوں کے تحت تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لائیں۔ اداروں کا آغاز بنیادی تعلیم (فاؤنڈیشن ایجوکیشن) سے کریں۔ اگر اس کام کو ملت کی طرف سے انجام دینے میں رکاوٹ حائل ہورہی ہو تو ایسے افراد جن کے یہاں دولت کی فراوانی ہے، انہیں اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ مسلم علاقوں میں معیاری اسکولس قائم کریں۔ اب بڑی تیزی کے ساتھ بڑے برانڈیڈ اسکولوں کا جال (Chain of schools) بچھایا جارہا ہے۔تعلیم کے میدان میں موجود امکانات چند دنوں تک باقی رہیں گے، اس دوران اگر ہمارے ملی ادارے یا تجارتی ادارے (Commercial establishments) اس موقع کو استعمال نہیں کرتے ہیں تو پھر پانچ دس برسوں میں اس میدان میں بھی بڑے تجارتی ادارے آجائیں گے اور ہماری نسل کی جو حفاظت ممکن تھی، وہ بھی ہمارے ہاتھوں سے جاتی رہے گی۔ اب ملت اور ان کے افراد کو چھوٹے اسکولوں کے علاوہ بڑے اقامتی اسکولوں (Residential Schools) کا پراجیکٹ بھی ضرور بناناچاہیے۔ اس لیے کہ آج جس طرح سماج کا انداز اور طرز زندگی بدل رہا ہے، اور میاں بیوی دونوں معاشی جدو جہد میں مصروف ہورہے ہیں، بچوں کی تعلیم و تربیت متاثر ہورہی ہے۔ ایسے گھرانے جن میں شوہر اور بیوی دونوں برسر روزگار ہوتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اپنے بچوں کو کسی اقامتی اسکول میں داخل کروائیں۔ اب یہ رجحان مسلمانوں میں بھی بڑھ رہا ہے۔ انہی اقامتی اسکولوں میں ایک قسم ان اسکولوں کی ہے، جنہیں ہم ہفتہ کے دنوں میں رہائشی اسکول (Weekdays residential school ) کہتے ہیں۔ ایسے اسکولوں میں طلبہ پانچ دن رہتے ہیں اور چھٹے و ساتویں دن یعنی ہفتہ اور اتوار کو اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ ایسے اسکول شہروں کے قریب قائم ہیں۔ ہفتے کے پانچ دن شوہر اور بیوی روزگار میں مصروف رہتے ہیں۔ ہفتہ اور اتوار چھٹی ہوتی ہے لہٰذا بچے گھر آجاتے ہیں اور اپنے والدین کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ یہ نظام ہمارے ملک میں بھی آہستہ آہستہ فروغ پا رہا ہے۔ اس لیے بڑے شہروں کے قریب اس طرح کے Weekdays residential school کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ ضروری ہے کہ ایسے اسکولوں کو ملت اگلے چند برسوں میں قائم کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچے۔
عموماً مسلمانوں کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ ملی ادارے مسلمانوں کو تعلیم دینے کے لیے یا ملت کے غریب طبقے کو خواندہ بنانے کے لیے قائم کیے جاتے ہیں۔ لیکن اب ایک دوسرے انداز سے بھی سوچنے کی ضرورت ہے اور وہ یہ کہ اب حکومت تعلیم کے میدان سے اپنا دامن چھڑا رہی ہے، ایسے میں ملک میں آباد پسماندہ طبقہ تعلیم کہاں حاصل کرے؟ اس خلا کو ملت کے ادارے پُر کریں۔ اگر ہم اپنے بچوں کے علاوہ سماج کے پسماندہ اور پچھڑے طبقات کے بچوں کی تعلیم کا بھی انتظام کرتے ہیں تو سماج میں ایک مثبت پیغام جائے گا۔ اتنا ہی نہیں، اگر پچھڑے طبقات کے طلبہ ملی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں تو موجودہ دور میں جو نفرت کی آگ بھڑکائی جارہی ہے، اور ہندو مسلم تفرقے کو بڑھاوا اور غلط فہمیوں کو ہوا دی جارہی ہے، اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ لہٰذا اس بحث کی روشنی میں مندرجہ ذیل نکات پر ملت غور کرے :
ملی ادارے اور ملت کے متمول افراد تعلیمی میدان میں پراجیکٹ بنائیں اور تعلیمی میدان میں خدمات کا آغاز کریں۔
وقف کی املاک کو تعلیمی ادارے قائم کرنے کے لیے استعمال کیاجائے۔
بڑی مساجد، درگاہوں اور عید گاہوں کے زیر نگرانی تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے۔ درگاہوں کے تحت چلائے جانے والے تعلیمی اداروں کی ایک کام یاب مثال گلبرگہ کے خواجہ بندہ نواز ٹرسٹ کی ہے۔ چند سال قبل اسی نہج پر اجمیر میں درگاہ خواجہ معین الدین چشتیؒ کے تحت یونیورسٹی کا ایک خاکہ بنایا گیا تھا۔ لیکن اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ ملک میں ان دو درگاہوں کے علاوہ اور بھی کئی درگاہیں ہیں جن کی املاک اور آمدنی اتنی زیادہ ہے کہ ان کے ذریعے معیاری اسکولوں کا قیام عمل میں لایا جاسکتا ہے۔
بڑی مساجد میں بچوں کے لیے پلے اسکول اور پرائمری اسکول قائم کیے جاسکتے ہیں۔ بچوں کے لیے جزوقتی مکاتب کا قیام بھی ان مساجد میں ممکن ہے۔
مسلم اکثریتی شہروں کے قریب اقامتی اسکولوں کا قیام عمل میں آئے۔
بڑے مدارس جن کے یہاں انفراسٹرکچر موجود ہے، وہ اپنے مدارس میں دینی درسگاہوں کے ساتھ عصری علوم کے معیاری اسکولوں کا آغاز کریں۔
چوں کہ حکومت اپنا دامن تعلیمی میدان سے چھڑا رہی ہے، اس لیے تعلیم کا حصول مہنگا ہوتا جائے گا۔ ایسی صورت حال میں تعلیم کا حصول غریب گھرانوں کی دسترس سے باہر ہونے لگے گا۔ ممکن ہے بڑی تعداد میں مسلم بچے یا تو تعلیم حاصل نہیں کریں گے یا پھر بڑی تعداد میں ڈراپ آؤٹ کا شکار ہوں گے۔ گزشتہ دنوں ‘انسٹیٹیوٹ آف آبجکٹیو اسٹڈیز’ نئی دہلی کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کے مطابق مسلمانوں میں ڈراپ آؤٹ طلبا کا فیصد دیگر اقوام اور قومی ریکارڈ سے زیادہ ہے۔ اس لیے ملی اداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے طلبا کے لیے اقامتی اسکولوں کا بندوبست کریں جہاں ان کی تعلیم کا مناسب انتظام ہو۔ ورنہ ڈراپ آؤٹ طلبا اور ناخواندہ بچوں کی اکثریت گمراہ ہو کر چھوٹے بڑے جرائم میں مبتلا ہوجاتی ہے۔
جاری
(قارئین سے گزارش ہے کہ اس موضوع پر تجاویز و مشورے مندرجہ ذیل وہاٹس ایپ نمبر پر ارسال کریں تاکہ مضمون کی اگلی قسط میں انہیں شامل کیا جا سکے ۔ وہاٹس ایپ نمبریہ ہے:9844158731)
***

 

***

 ملت کے سیاسی رہنماوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی کثرت ہے، سرکاری اسکول قائم کریں۔ جو اسکول پہلے سے موجود ہیں، ان کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کریں اور اسکولوں کی سطح اوپر اٹھائیں۔ یعنی جو اسکول پرائمری تک ہیں، انہیں میٹرک کی اور جو میٹرک تک ہیں انہیں بارہویں کی سطح تک لے جانے کے بارے میں سوچیں۔ مسلم علاقوں میں قائم اسکولوں کے معیار کو بلند کرنے کے لیے حکومت کے علاوہ این جی اوز اور اہل خیر حضرات کا تعاون حاصل کرکے آگے بڑھیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 جون تا 01جولائی 2023