قسط- 2:عہداسلامی کے چند بڑے سائنسداں

مسلمانوں کو اپنی کھوئی ہوئی میراث حاصل کرنے کی ضرورت

ابن سینا (980 تا 1037)
ابن سینا دنیا کے اہم ترین سائنسدانوں میں سے ہیں جن کا تعارف صرف میڈیسن کے حوالے سے نہیں بلکہ Physicsاور Philosophyکے حوالے سے بھی ہوتا ہے۔ 2006میں British Medical Journalمیں Prof. John Urquhartنے لکھا!
’’اگر سال 1900؁ء ہوتا اور آپ کسی انتہائی پریشانی کی صورتحال سے دو چار ہوجاتے تو اس حالت میں کونسی کتاب آپ کے پاس ہونا ضروری تھی؟ میرے خیال میں ابن سینا کی‘‘ جدید مورخین تاریخ علم کو دو عہد میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک قبل از ابن سینا جس میں الکندی ، الرازی اور فارابی جیسے عبقر ی شامل ہیں اور دوسرا بعد از ابن سینا جن میں الغزالی اور ابن رشد جیسے عبقری ہیں۔ ابن سینا آج کے ایران کا national iconہے۔ چاند کے ایک cratorکا نام ابن سینا کے نام پر ہے۔ البیرونی اور ابن سینا ہم عصر تھے اور دونوں کے درمیان ایک مشہور خط و کتابت بھی ہوتی تھی جس سے ابن سینا کی سائنسی طرز فکر کا اندازہ ہوتا ہے۔ ابن سینا نے نفسیات پر بھی کام کیا اور Argument of Floating Man Through Experimentکے ذریعہ اس نتیجہ پر پہنچا جس پر Daecartesکوئی 600سال بعد Cogito Ergo Sumیعنی میں سوچتا ہوں کہ یہی میرے وجود کی دلیل ہے۔‘‘پر پہنچا تھا۔
ابن سینا کی ’القانون‘ دنیائے طب میں چھ سو سال تک غالب رہی۔ لیکن کتاب الشفاء اس کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ جس کی نو؍ جلدیں منطق کے موضوع پر ہیں اور آٹھ جلدیں سائنس پر ۔ ابن سینا ایک روحانی آدمی تھے ، ان کا فلسفہ دینیاتی نوعیت کا تھا۔ ابتدائی عمر میں ہی قرآن حفظ کرلیا تھا۔ البتّہ ان کے بعض خیالات پر گمراہی کے الزامات بھی لگائے گئے تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیسویں صدی کی ابتداء تک دنیائے میڈیسن میں ابن سینا کا طوطی بولتا تھا۔
عمر خیام (1048 تا 1130 )
Planet 3095کو عمر خیام کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر ایک ریاضی داں تھا لیکن اس نے Mechanics اورPhilosophyپر بھی معروف کتابیں لکھیں ۔ Demonstration of Problems of Algebraجو اس کی مشہور ترین کتاب ہے دراصل الخوارزمی کے بعد کے عہد کی اہم ترین تصنیف تسلیم کی گئی ہے جس میں Cubic Equationsکے حل کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے ۔ عمر خیام نے ہندوستانی ریاضی کو بھی متعارف کرایا اور بتایا کہ اس کی مدد سے کس طرح 4,5,6پاور کی Equationsحل کی جاسکتی ہیں۔ خیام نے اس مسئلہ پر بھی کام کیا جسے آج Pascal Triangleکہا جاتا ہے۔ عمر خیام کے کام کا حوالہ مشہور سائنسداں نصیرالدین الطوسی نے بھی دیا ہے۔ انہوں نے ایک Calenderبھی تیار کیا تھا جو عہد سلجوقی میں استعمال ہوتا رہا اور پھر ایران کے رضا شاہ پہلوی نے 1923میں اسے باقاعدہ طو ر پر متعارف کرایا۔ خیام کے کلینڈر میں ایک سال 365.242. ایام کا ہے۔جبکہ 1582میںGeorgean Calenderمرتب ہوا اس کا دورانیہ 365.2425 دن ہیں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ عمر خیام کے کلینڈر میں پانچ ہزار سال بعد ایک دن کا فرق پڑے گا جبکہ جیورجین کلینڈر میں 3337سال بعد ایک دن کا فرق پڑے گا۔ خیام نے Mechanicsپر بھی کام کیا۔ دو چیزوں کا Specific Weightپانی اور ہوا میں تول کر کیا جس کی ابتداء آرکمیڈیز نے کی تھی۔ عمرخیام اپنی سائنس اور ریاضی سے زیادہ رباعیات کے لیے مشہور ہے۔
الجزری (1136تا1206 )
الجزری کی کتاب کا ترجمہ Donal’d Hillنے”The Book of knwledge of Ingenius Mechanical Devicesکے نام سے کیا۔ یہ کتاب ان کی 50اختراعات کا تعارف کراتی ہے جن کے 6اقسام ہیں جن میں اہم ترین مختلف اقسام کےClocks ہیں ایک 12حرفوںسے کھلنے والا Combination clockہے۔ انگلینڈ میں اس نوعیت کے تالوں کا تذکرہ سترھویں صدی میں ملتا ہے۔ کتاب کے پانچویں باب میں الجزری دنیا کے اولین الارم کلار ک کا نقشہ پیش کیا۔ ڈونالڈ ھل کے مطابق الجزری ایک Master Craftsmanتھا۔ اس کی بہت سی اختراعات بعد میں مغرب میں تیار ہوئیں ۔ conical valveجیسی اہم devicesجسے 1784میں انگلینڈ میں Patentکرایا گیا ۔ پانچ صدیاں قبل الجزری اپنی کتاب کے پہلے باب میں بیان کرچکا تھا۔
نصیرالدین الطوسی (1201 تا 1274)
نصیرالدین الطوسی وہ پہلا سائنسداں ہے جس نے زمین کی گردش کے بارے میں مشاہداتی ثبوت پیش کیے تھے۔ نصیرالدین ریاضی کی ایک اختراع جسے Tusi Couple کہتے ہیں جس کی بناپر اسے دنیا کے بڑے لوگوں میں شمار کیا جاتا ہے جس کی بدولت Ptolemyکی اسٹرانومی مکمل طور پرoverhaulہوگئی تھی۔ ایک معرکتہ الآرا تصنیف Elkhani Tablesہے جس کے نتیجہ میں Trigonometryریاضی کے ایک آزادdisciplineکی حیثیت سے متعارہوئی ۔ چنانچہ جس طرح الخوارزمی نے الجبرا کو ایک آزاد discipline کی حیثیت سے متعارف کرایا تھا اسی طرح طوسی کا رنامہ trigonometryسے متعلق ہے۔ طوسی نے پہلی بار Sin Ruleکی تھیورم کو آگے بڑھا یا اور عمر خیام کی number theory، فلسفہ اور Logicوغیرہ پر بھی کام کیا۔ طوسی کا سب سے اہم کارنامہ یہ تھا کہ جس زمانہ میں منگولوں کے حملوں کی بناپر عالم اسلام کی علمی و تحقیقی روایتیں تباہ ہورہی تھیں اس نے منگولوں کو اس کا م کی اہمیت تسلیم کرائی اور اُن کی مدد سے Margha Observatoryقائم کی۔ یہاں ہونے والے کام کو مورخین نے Margha Revolutionکا نام دیا ہے۔ Margha Observatoryایک بہت بڑا ادارہ تھاجس میں عظیم الشان لائبریری ، مسجد اور آفس کے لیے عمارتیں موجود تھیں۔ مراغہ میں جو کام ہوا وہ اسٹرانومی کے میدان میں ایک School of Thought بن گیا اور اس کی طرز پر کام کرنے والے اس کے وابستگان میں شمار ہوئے۔ بعض مورخین خود Copernicusکو مراغہ اسکول کا نمائندہ تسلیم کرتے ہیں۔
طوسی ایک مذہبی اسکالر تھا اس نے سیاسی وجوہ سے حشیشین کی وابستگی اختیار کرلی تھی تاکہ آزادانہ طور پر اپنا سائنسی کام جاری رکھ سکے۔ وہ کوئی تیس سال تک قلعہ الاموت میں رہا اور پھر جب ہلاکوخاں نے حشیشین کو مکمل تباہ کردیا تو محض اپنے کام کی بدولت مراغہ میں مذکورہ بالا آزاد ادارہ قائم کرسکا۔ عالم اسلام کے چند بڑے سائنسدانوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔کوپرنکس اور طوسی میں 300سال کا فرق ہے لیکن Copernicusنے Planetary Motionکا جو diagramme بنایا وہ بعینیہ وہی ہے جو اس سے قبل طوسی بنا چکا تھا۔ اس نے صرف یہ کیا کہ طوسی نے جہاں ’الف‘ لکھا تھا وہاں ’A‘ ،ب ‘ کی جگہ ’B‘، اور ’ج‘ کی جگہ ’G‘، ’د‘ کی جگہ ’D‘لکھا۔ کوپر نکس نے اگر مراغہ اسکول کی Mathematical Trigonometryاستعمال نہ کی ہوتی تو وہ geocentricسے heleocentricتصور کی طرف سفر نہیں کرسکتا تھا۔
(1304تا 1375) یہ وہ زمانہ ہے جب مذہبی ادارے سائنسی کاموں کی سرپرستی کرنے لگے تھے۔ نمازوں کے اوقات ، تاریخوں کا تعین وغیرہ اب سائنس کے ذریعہ ہی معلوم کیے جاتے تھے۔ ابن شاطر دمشق کی جامع مسجد میں مُوقّت (timekeeper)کی حیثیت میں کام کرتے تھے۔ انکے بنائے ہوئے Planetry modelکے راست اثرات پرنکس کے کاموں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔انہوں نے ایک بہت accurate وقت بتانے والی sundialبنائی تھی۔ جب اسے مسجد کی بلند مینار کے قریب نصب کیے جانے کی خبر عام ہوئی تو اس منظر کو دیکھنے کے لیے دمشق کے شہری بہت بڑی تعداد میں جمع ہوگئے تھے۔ ابن شاطر نے طوسی کے کام کو آگے بڑھایا اور ایسا Solar اور Lunar Modelتیار کیا جو اپنے وقت سے بہت آگے تھا۔ مورخین ابن شاطر کو مراغہ اسکول کاآخری نمائندہ سائنسداں کہتے ہیں۔
اُلُغ بیگ (1336تا 1405)
تیمورلنگ کا پوتا حصول علم کی طرف راغب تھا ۔سمرقند میں اس نے جو ادارہ قائم کیا اس میں دور دور سے لوگ تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے تھے۔ اس مدرسہ میں سائنس اور ریاضی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اسی مدرسہ میں ایک observatoryقائم کی جسے مورخین نے مراغہ کی observatoryکا جانشین کہا ہے۔ یہاں جو table تیار ہوا اسے Zij-i-Sultaniکہا گیا جو Ptolemyاور Tychobrahe کے درمیان ستاروں کا سب سے بڑا Catalogueتھا ۔ اس table میں ایک ہزار سے زیادہ ستاروں کا تذکرہ ہے ۔1438میں یہ tableشائع ہوئے اور صدیوں تک زیر استعمال رہے۔
تقی الدین (1526تا 1586)
عثمانی سلطان مراد سوم کے زمانہ میں استنبول کے قریب تقی الدین نے observatoryقائم کی۔
تقی الدین مغربی اسکالر Tychobraheکا ہم عصر ہے ان دونوں نے Astronimical Predictions ایک ہی جیسے کیئے تھے ۔ تقی الدین نے 1565میں میکانیکی گھڑی سازی پر ایک رسالہ تصنیف کیا تھا جس میں جیب میں آ جانے والی حد تک چھوٹی گھڑی بنانے کا تذکرہ کیا ہے۔Tychobraheتقی الدین کے کام سے واقف تھا۔ 1551میںSteemturbineکی تفصیل بیان کی جو Steam Engineبنانے کی طرف ایک اہم قدم تھی۔ opticsکے موضوع پر اپنے کام میں اس نے ثابت کیا کہ اشیاء سے شعاعیں نکلتی اور دکھائی دیتی ہیں۔ اس نے Refractionکے قانون کو ثابت کیا اور Reflectionکے موضوع پر بھی کام کیا۔(جاری )
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 فروری تا 25 فروری 2023