قسط ۔11:ملت کا تعــلیمی ایجنڈا ۔ چند تــجاویز

ملّت کے عصری ودینی تعلیمی اداروں کا موثر وفاق قائم کرنےکی ضرورت

سید تنویر احمد
(ڈائریکٹر ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ)

حکومتوں سے اقلیتوں کی تعلیمی صورت حال کو بہتر بنانے میں معاون اسکیمات جاری کروانے کا منصوبہ بنائیں
ملک بھر میں مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کا جال پھیلا ہوا ہے۔ اس میں عصری علوم کے اسکولوں سے لے کر یونیورسٹیاں تک شامل ہیں اور کثیر تعداد میں مدارس بھی۔ ان دونوں اقسام کے اداروں کا ایک وفاق یا تنظیم کا قیام وقت کی ضرورت ہے۔ جمہوریت میں کئی کام منصوبہ بند کوشش سے انجام پاتے ہیں۔ موجودہ جمہوری نظام میں جو بھارت میں رائج ہے، بالخصوص فرد یا گروہ کے حقوق کو طشتری میں سجا کر پیش نہیں کیا جاتا بلکہ منظم اجتماعی کوششوں سے یہ کام انجام پاتے اور حقوق حاصل ہوتے ہیں۔
حکومت کی پالیسیاں اور منصوبہ جات
اکثر ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم کا انتظام و انصرام حکومت سنبھالتی ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں سرکاری اسکولوں کے ساتھ پرائیویٹ اسکولوں کا بھی جال پھیلا ہوا ہے۔ حکومت رفتہ رفتہ تعلیمی اداروں کے قیام سے اپنے آپ کو دور کررہی ہے۔ اب حکومت کا کام محض تعلیمی پالیسی وضع کرنا اور تعلیم کے لیے چند اسکیموں کو متعارف کرانا رہ گیا ہے۔ جبکہ یہ دونوں ہی کسی بھی ملک کے باشندگان کو بہت زیادہ متاثر کرتے ہیں۔ دراصل ملک کا تعلیمی نظام ملک کے مستقبل کا اور وہاں کے عوام کے مستقبل کاضامن ہوتا ہے۔ آزادی کے بعد سے ہی ہمارے ملک میں وقفے وقفے سے تعلیمی پالیسیاں وضع ہوتی رہی ہیں۔ پالیسیوں کے علاوہ تعلیم کا تذکرہ دستور ہند میں بھی موجود ہے۔ بالخصوص ملک میں آباد اقلیتوں کے تعلق سے جنہیں آرٹیکل 29اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور انہیں چلانے کی اجازت دیتا ہے۔
ادھر چند برسوں سے مذکورہ آرٹیکل کی دفعہ 29 بتدریج اپنی اسپرٹ اور مقصدیت کو کھوتی جارہی ہے۔ اس آرٹیکل کی کئی وضاحتیں اور تشریحات سامنے آرہی ہیں۔ بعض حلقوں کی طرف سے اس آرٹیکل کو بدلنے کی بھی بات ہورہی ہے۔ اب ایک جانب یہ آرٹیکل ہے تو دوسری جانب حکومت کی پالیسیاں ہیں جو اقلیتوں کے تعلیمی اداروں میں مداخلت کے لیے راستے ڈھونڈ رہی ہے۔ ایسی صورت میں مسلم ملت کو چاہیے کہ وہ سمجھ داری اور مستعدی کے ساتھ حکومت کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرے اور مرکزی و ریاستی حکومتوں سے ایسی اسکیموں کو جاری کرانے کا منصوبہ بنائے جو اقلیتوں کی تعلیمی صورت حال کو بہتر بنانے میں معاون و مددگار ثابت ہوں اور اقلیتوں کے مذہبی و ثقافتی حقوق کا تحفظ ہوسکے۔ یہ کام انفرادی سطح پر نہیں کیاجاسکتا، اس کے لیے ملت میں ایک تھنک ٹینک اور مضبوط ادارے کی ضرورت ہے جس سے ریسرچ اسکالر اور ماہرین تعلیم منسلک ہوں اور وہ وقتاً فوقتاً حکومت کی پالیسیوں پر نظررکھتے ہوئے ان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کریں۔
پالیسی ہی کا ایک اہم حصہ نصاب اور نصابی کتابوں کی تیاری ہے۔ قومی سطح پر یہ کام قومی ادارہ این سی ای آر ٹی ( National Council of Educational Research and Training)کرتا ہے جبکہ ریاستوں کی سطح پر یہ کام ایس سی ای آر ٹی (State Council of Educational Research and Training) کرتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ مرکز کی سطح پر’ این سی ای آرٹی‘ کی کتابوں میں جو مواد شامل کیے جارہے ہیں ان پر نظر رکھیں۔ اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ آیاکتابوں میں ملک میں آباد تمام ثقافتوں کی نمائندگی ہورہی ہے یا نہیں۔ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ تعلیم کے میدان میں آزادی کے بعد ایک طویل عرصے تک بائیں بازو کے افراد غالب رہے اور اب دائیں بازو کے ماہرین تعلیم اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ دائیں بازو کے ماہرین، تعلیم کو سیکولر اور غیر دینی بنانے میں مصروف رہے تو اب دائیں بازو کے عناصر تعلیم کا بھگوا کرن کررہے ہیں۔ تعلیم کا بھگوا کرن کرنے کے سبب جو نتیجہ سماج میں نکلے گا وہ انتہائی خوفناک ہوسکتا ہے۔ ملک کو منوسمرتی کے اصولوں پر چلانے کا عزم لیے ہوئے یہ نظریہ سماج میں طبقاتی کشمکش کو جنم دے سکتا ہے۔ ہندو مذہب کی تعلیم پر ہمیں اعتراض نہیں ہے۔تاہم محض سناتن دھرم ہی کو بھارت کا کلچر قرار دینا ملک کے تکثیری سماج کے ساتھ زیادتی اور ایک غیر دستوری عمل ہے۔ بھارت ( انڈیا )کا قیام 1947 میں ہوا۔ اب ملک کو دستور کے مطابق چلنا چاہیے نہ کہ کسی مخصوص گروہ کی قدیم روایات کے مطابق۔ لیکن موجودہ تعلیمی پالیسی اور نصابی کتب کی تدوین کرنے والے بھگوا ذہنیت کے حامل ماہرین تعلیم ایسی ریشہ دوانیاں کررہے ہیں جس کے نتیجے میں مسلم تاریخ کے حقائق کو پیش نہیں کیا جارہا ہے یا پھر ان حقائق کو مسخ کرکے بتایا جاتا ہے۔ ملک کی تاریخ میں مسلم ادوار کے بیش بہا کارناموں کو چھپایا جارہا ہے اور ایسی باتوں کو نصاب میں داخل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جن کے سبب مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان خلیج بڑھے اور ہم آہنگی کے بجائے نفرتوں کو بڑھاوا ملے۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 میں کہا جاتا ہے کہ تعلیمی پالیسی تمام طبقات کی شمولیت اور سماجی انصاف کی بنیادوں پر تدوین کی گئی ہے لیکن پالیسی اور جاری شدہ پروگراموں میں تضاد و تفاوت واضح طور پر نظر آتا ہے۔ ایسی صورت میں تعلیم کے میدان میں علمی اور سیاسی دونوں محاذوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ محض تعلیمی اداروں کے قیام اور اسکالر شپ کی تقسیم کے ذریعے ہم اس ملک میں ملت کے تعلیمی مسائل کو حل نہیں کرسکتے۔ حکومت کی پالیسیوں پر نظر رکھنا اور ان میں ضروری تبدیلی کے لیے جمہوری انداز میں ہر ممکن کوشش کرنا اور رائے عامہ کو ہموار کرنا بے حد ضروری ہے۔ حکومت کی تعلیمی پالیسی اور اقلیتوں پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے ایک مستقل ادارے کی ضرورت ہے جس کا تذکرہ ہم نے اوپر کیا ہے۔ ویسے یہ کام کسی حد تک ’ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ‘، نئی دہلی انجام دے رہا ہے۔
بڑی اسکالرشپ کی ضرورت
ملت کی ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ ہمارے طلباء سماجی علوم میں مہارت حاصل کریں اور ملک کی پالیسی وضع کرنے میں اپنی خدمات پیش کریں۔ مگر موجودہ وقت میں بعض سماجی علوم کو حاصل کرنا اتنا مہنگا ہوچکا ہے کہ اگر کوئی معمولی آمدنی والے گھر کا طالب علم بین الاقوامی شہرت یافتہ یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے یہ محض ایک خواب ہوتا ہے جس کے پورا ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔اس لیے مسلم ملت کو چاہیے کہ وہ قومی سطح پر ایک ایسا اسکالر شپ فنڈ قائم کرے جس سے بڑی رقومات کی فراہمی تعلیمی قرض کے طور پر کی جاسکے۔ ایسے قرض کو حاصل کرنے والے طلباء پرلازم ہوگا کہ وہ اس قرض کی رقم کو تعلیم کی تکمیل اور روزگار کے حصول کے بعد ادا کردیں۔ جہاں یہ پروگرام زیادہ مشکل نہیں ہے، وہیں ایک بڑا خدشہ اس پروگرام کو مستقل چلانے کا ہے۔ اس لیے کہ ہمارے ملک میں ملت کے بعض اداروں کی جانب سے جاری کی گئی تعلیمی قرض کی اسکیموں کا انجام اچھا نہیں رہا۔کیونکہ قرض کی ادائیگی کا فیصد ہمارے سماج میں افسوسناک حد تک بہت کم ہے۔ تعلیمی قرض کو حاصل کرنے والے بیشتر طلباء اسے اعانت یا اسکالر شپ سمجھتے ہیں اور انہیں احساس نہیں ہوتا کہ اگر وہ قرض کو لوٹائیں گے تو اس سے دوسرے مستحق طلباء کو فائدہ پہنچایا جاسکے گا۔
دیکھا جائے تو بیرونی ممالک کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنا مہنگا نہیں ہے، اس کے برعکس اندرون ملک ہونے والے مختلف مسابقتی امتحانات کی تیاری کے لیے کوچنگ مہنگی ہوتی جارہی ہے۔ لہٰذا ایسے اسکالرشپ فنڈ کو ہر بڑے شہر میں قائم کیا جانا چاہئے۔
گریجویشن کی سیٹوں کا پول (POOL)
ملک کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کے تعلیمی ادارے قائم ہیں۔ ان اداروں میں کالج اور یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں جہاں پروفیشنل اور غیر پروفیشنل گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کورسوں کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی سطح پر پروفیشنل اور غیر پروفیشنل گریجویشن کورسوں اور پوسٹ گریجویشن کورسوں کی سیٹوں کا ایک پول (Pool) قائم کیا جائے۔ یعنی جن اداروں میں یہ کورس پڑھائے جارہے ہیں،ان کی انتظامیہ سے گفتگو کرکے یہ طے کیا جائے کہ وہ ذہین لیکن مالی اعتبار سے کمزور طلباء کے لیے صرف فیس کی بنیاد پر کتنی سیٹیں مختص کرسکتے ہیں۔ اپنی وسعت کے مطابق وہ جتنی بھی سیٹیں مختص کرنے کے لیے تیار ہوں، انہیں پول میں شامل کرلیا جائے۔ فرض کریں کہ ملک بھر میں مسلم انتظامیہ کے تحت پچاس نرسنگ کالج چلائے جارہے ہیں جن میں بی ایس سی نرسنگ کورس شامل ہے۔ ان میں سے ہر ادارہ اگر ایک سیٹ اس پول کے لیے وقف کرتا ہے تو پول کے پاس پچاس نشستیں دستیاب ہوں گی۔ ان پچاس نشستوں کو وہ پول پچاس غریب و نادار طلباء کو سونپ سکتا ہے۔ یہ سیٹیں صرف فیس کی بنیاد پر حاصل کی جاسکتی ہیں۔ جن طلباء کو یہ سیٹیں دی جائیں گی، اگر وہ فیس ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں تو ان کی فیس’نیشنل اسکالر شپ اسکیم‘ جس کا ذکر ہم نے اوپر کی سطور میں کیا ہے، سے ادا کی جائے۔ اس پول کے ذریعے بی ایس سی نرسنگ ہی نہیں بلکہ کئی پروفیشنل کورسوں میں طلباء کے داخلے ممکن ہیں۔ غیر پروفیشنل کورسوں میں بھی اس اسکیم کو شامل کیا جاسکتا ہے۔ یہ اسکیم گیارہویں اور بارہویں کلاس کے لیے بھی کی جاسکتی ہے۔ اس لیے کہ یوپی، بہار اور شمال مشرقی ریاستوں میں مسلم طلباء کے لیے گیارہویں اور بارہویں کلاس میں معیاری تعلیم کا میسر آنا بڑا مسئلہ ہے۔ اس پورے سسٹم کو ٹکنالوجی کے ذریعے کارگر بنایا جاسکتا ہے۔ اگر ممکن ہوسکے تو مسلم طلباء کے لیے نیٹ (NEET) کے انداز میں اس نظام کو چلایاجائے۔ اس طرح کے نظام سے نہ صرف طلباء کی مدد ہوگی بلکہ بعض تعلیمی اداروں کی بھی مدد ہوسکتی ہے۔
تعلیمی اداروں کا وفاق:
ملک بھر میں مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کا جال پھیلا ہوا ہے۔ اس میں عصری علوم کے اسکولوں سے لے کر یونیورسٹیاں تک شامل ہیں اور کثیر تعداد میں مدارس بھی۔ ان دونوں اقسام کے اداروں کا ایک وفاق یا تنظیم کا قیام وقت کی ضرورت ہے۔ جمہوریت میں کئی کام منصوبہ بند کوشش سے انجام پاتے ہیں۔ موجودہ جمہوری نظام میں جو بھارت میں رائج ہے، بالخصوص فرد یا گروہ کے حقوق کو طشتری میں سجا کر پیش نہیں کیا جاتا بلکہ منظم اجتماعی کوششوں سے یہ کام انجام پاتے اور حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ ایک کہاوت بہت مشہور ہے کہ An organsie minority is majority in Democracy ایک منظم اقلیتی گروہ کسی بھی جمہوری ملک میں اکثریت کا وزن رکھتا ہے۔ آج ہم اپنے ملک میں ایسا ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ جن کی آبادی محض تین فیصد کے آس پاس ہے، وہ منظم ہوکر آج ملک کے سیاہ و سپید کے مالک بنے ہوئے ہیں۔جبکہ مسلمانوں کی آبادی ان کی بہ نسبت بہت زیادہ ہے، انہیں مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہیے تھی مگر باہمی انتشار و افتراق اور اجتماعیت کے فقدان نے ان کی اہمیت کو خفیف اور دبدبے کو بے اثر کردیا ہے۔
اقلیتی تعلیمی اداروں کے سامنے آج کئی چیلنج اور خدشات ہیں۔ اندیشہ ہے کہ مستقبل میں ان چیلنجوں کی کیفیات و کمیات میں مزید شدت آسکتی ہے۔ آج جن چیلنجوں کا اقلیتی ادارے مقابلہ کررہے ہیں، ان میں آرٹیکل 29 کی تشریح کے علاوہ اقلیتی اداروں کو آر ٹی ای( Right To Education) کے دائرے میں شامل کرنا، اقلیتی اداروں کو دی جانے والی امداد و مراعات میں تخفیف کیا جانا، اقلیتی اداروں کے کردار کو متاثر کرنا اور ان اداروں میں بے جا مداخلت کرنا شامل ہیں۔ ان چیلنجوں کا مقابلہ تین سطحوں پر کیا جاسکتا ہے۔ اول سیاسی، دوم عدالتی، سوم عوامی تحریک۔ ان تینوں ذرائع کو استعمال کرنے کے لیے اداروں کو ایک مضبوط اجتماعیت کی ضرورت ہے۔
( جاری)
***

 

***

 تعلیم کے میدان میں آزادی کے بعد ایک طویل عرصے تک بائیں بازو کے افراد غالب رہے اور اب دائیں بازو کے ماہرین تعلیم اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ دائیں بازو کے ماہرین، تعلیم کو سیکولر اور غیر دینی بنانے میں مصروف رہے تو اب دائیں بازو کے عناصر تعلیم کا بھگوا کرن کررہے ہیں۔ تعلیم کا بھگوا کرن کرنے کے سبب جو نتیجہ سماج میں نکلے گا وہ انتہائی خوفناک ہوسکتا ہے۔ ملک کو منوسمرتی کے اصولوں پر چلانے کا عزم لیے ہوئے یہ نظریہ سماج میں طبقاتی کشمکش کو جنم دے سکتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 جولائی تا 29 جولائی 2023