پروفیسر محسن عثمانی ندوی
نشتر تحقیق کند کیوں ہے؟شوقِ علم ماند کیوں پڑگیا؟
معلمین کو علم وادب اور افکار کی لو سے حالات کو سازگار بنائے رکھنے میں ذمہ دارنہ کردار ادا کرنے کی ضرورت
قرطاس وقلم سے وابستگی عصری جامعات کے استاذ کی اولین ذمہ داری ہے ۔لکھنا ہمیشہ بہت زیادہ پڑھنے سے آتا ہے یونیورسٹی کے مسلم اساتذہ الّا ماشاء اللہ پڑھتے ہی نہیں ہیں، انہیں پڑھنے کی ’’ بھوک‘‘ ہی نہیں لگتی ہے۔
تعلیم و تدریس اور ٹیچنگ کے پیشہ کو شریفانہ پیشہ Noble Profession کہا جاتا ہے۔معلم اور ٹیچرحقیقت میں وہ شخص ہوتا ہے جس کا دماغ علم وافکار و نظریات کا خزانہ ہوتا ہے، جس طرح سے ٹنکی میں پانی ہوتا ہے اور وہ پانی ٹونٹی سے نکلتا ہے اسی طرح سے ایک ٹیچر یا ادیب یا عالم کی زبان اور قلم سے علم وادب کاچشمہ ابلتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی بڑے تعلیمی ادارہ، یونیورسٹی میں استاد ہو تو وہ اپنے علم اور افکار و نظریات کی ترسیل و اشاعت کا کام بڑے پیمانہ پر انجام دے سکتا ہے۔ اس کا کلاس روم صرف وہ کمرہ نہیں ہوتا ہے جہاں وہ طلبہ کے سامنے لکچر دیتا ہے بلکہ پورا شہر اور پورا ملک اس کے دائرہ تعلیم و تربیت میں داخل ہوتا ہے بلکہ دنیا کا ہر شخص اس کا شاگرد اور حلقہ بگوش ہوتا ہے۔ اگر یہ حقیقت نہیں ہے تو ہر سال ہر استاد کولازمی طور پر یونیورسٹی کے فارم پر یہ صراحت کیوں کرنی پڑتی ہے کہ اس نے اس سال یونیورسٹی کے باہر کتنے لکچر دیئے اور کتنے قومی اور کتنے بین الاقوامی سمینار میں شرکت کی، کتنے رسالوں میں اس کے مقالات اور ریسرچ پیپر شائع ہوئے اور اس نے کتنی کتابیں لکھیں اور علم و ادب کی دنیا میں اس نے کیا اضافہ کیا۔ یہ غلط تصور ہے اور بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ استاد کا دائرہ علم و عمل کلاس روم کی چہار دیواری تک محدود رہے۔ یونیورسٹی کسی مکتب کا نام نہیں ہے ۔ اس غلط تصور کی وجہ سے اساتذہ کی صلاحیتوں کا دائرہ محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔کسی بے تصنیف اورکسی بے توفیق اوربے فیض استاذ کو دیکھ کر بے ثمر اور خزاں رسیدہ شجر کا خیال آتا ہے یا اس غنچہ کا جو بن کھلے مرجھا گیا ہو۔یا اس عورت کا جوبانجھ ہوچکی ہو۔افسوس ہے کہ بیشترمسلم اساتذہ کو خواہ وہ کسی شعبہ سے وابستہ ہوں، اپنے مقام اور مرتبہ کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ انہیں نہیں معلوم کہ یو نیورسٹی کسے کہتے ہیں اور یہ کہ ان کا کلاس روم کتنا وسیع ہے اور دنیا کے کتنے ہزار لوگ ان کے حلقہ تلمذ میں داخل ہیں۔ اگر ان اساتذہ کا روئے سخن ان ہزاروں لوگوں کی طرف ہے ۔اگر وہ قومی اور بین الاقوامی سیمیناروں میں شرکت کرتے ہیں۔
آج کل مسلم اساتذہ کا تصنیف وتحقیق فکر کی بلندی اور شعر وادب کی سلیقہ مندی اور فکر کی ارجمندی میں حصہ بہت کم ہے، علاوہ بریں عصری جامعات کے جو مسلم اساتذہ ہیں خواہ وہ کسی شعبہ سے تعلق رکھتے ہوں ان کا سماج میں کوئی مفید او ر تعمیری رول نہیں ہے، انہیں اس کا شعور نہیں ہے کہ ہندوستان کے علمی حلقوں میں اور انٹلکچول کلاس میں فکری ہم آہنگی پیدا کرنا اور اسلام اور مسلمانوں سے انہیں مانوس کرنا ان کا فرض منصبی ہے انہیں سمجھنا چاہیے کہ سن 2024کا الیکشن مسلمانوں کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن ہوگا اور تعلیم یافتہ مسلمانوں کو اور یونیورسٹی کے مسلم اساتذہ کواپنا رول ادا کرنا چاہئے، ان کے لیے لازم ہے کہ ملک کے اور اپنے شہر کے غیر مسلم علمی حلقوں میں وہ رول ادا کریں جو ان کے مسلمان ہونے کا اور حالات کاتقاضا ہے ۔سب سے پہلے بنیادی طور پر یہ بات سمجھ لینے کی ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کے تمام مسائل کی جڑ اورسیاسی مشکلات اور حق تلفیوں کی اصلی وجہ وہ غلط فہمیاں اور بدگمانیاں ہیں جوسماج میں پھیلی ہوئی ہیں اور وہ خلیج ہے جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان حائل ہے ۔غلط فہمیوں کوڈائیلاگ اور مذاکرات اور سمپوزیم کے ذریعہ اگر ختم کیا جائے اور اگر علمی سطح پر تعصبات کے خارزار کو ختم کردیا جائے اورسماج کے غیر مسلم دانشوروں کو اپنا ہم نوا بنالیا جائے تو یہ سب سے بڑا امپاورمنٹ ہوگا جو اس ملک کے مسلمانوں کو حاصل ہوگا۔غیر مسلم دانشورحضرات اپنی محفلوں میں اگر مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کے خزانہ دماغ میں کانٹے بھرے ہوئے ہیں اس خارزار کوختم کرنا مسلم دانشوروں کا کام تھا جو انہوں نے نہیں کیا۔ اس اہم کام کے لیے با مقصد زندگی گذارنے کا منصوبہ بنا نا ہوگا ایسا منصوبہ جس میں غیر مسلم اساتذہ اور دانشوروں سے زیادہ سے زیادہ علمی سطح پر اختلاط اور رابطہ ہو اوران کے ساتھ مسلمانون کے ایشوز زیر بحث آئیں اور ان ایشوز پر انگریزی زبان میں گفتگو Discourseپوری تیاری کے ساتھ ہو ۔مسلم ایشوز پراور مسلمانوں کے ساتھ نا انصافیوں کے موضوع پر دلوں کو چھو نے والی اور ذہن کو متاثر کرنے والی انگریزی زبان میں اور لسان قوم میں مدلل لٹریچر تیار کیا جائے ۔یونیورسٹی میں پڑھانے والے مسلم اساتذہ کی اولین ذمہ داری علمی سطح پرہر ظلم و نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنا ہے ۔ علمی سطح پر کام کا مطلب یہ ہے کہ سمیناروں کے ذریعہ یا انگریزی میں آرٹیکل اور لٹریچر کے ذریعہ منافرت کو ختم کرنے کا کام کیا جائے۔یہ اہم کام ہے جو عصری جامعات کے مسلم اساتذہ کو کرنا چاہیے ۔یہ و ہ کام ہے جو یونیورسٹی کے اساتذہ ملک کے علماء کرام سے زیادہ بہتر انجام دے سکتے ہیں۔یہ وہ کام ہے جس سے ہندوستان میں مسلمانوں کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ عصری جامعات کے مسلم اساتذہ میں شاید ہی کوئی ہوگا جسے مذکورہ تجویز سے اختلاف ہوگا۔لیکن تجویز سے اتفا ق کرنا اور عملی طورسے کام کا آغاز کرنا دوالگ چیزیں ہیں ۔ عملی کام کا آغاز اس طرح ہونا چاہیے کہ ہم خیال اساتذہ ایک جگہ مل کر بیٹھیں اور کام کا عملی منصوبہ بنائیں اس کے بعد چند غیر مسلم اساتذہ اور شہر کے چندغیر مسلم دانشوروں کو دوستانہ ماحول میں موضوع پر گفتگوکی دعوت دیں ۔اس پلاٹ فارم کا کوئی بھی نام رکھاجاسکتا ہے اور یہ کام ہر شہر میں ہو اور ہر بار مناقشہ کے لیے کوئی نیا موضوع اختیار کرلیا جائے اور اظہار خیال کے لیے غیر مسلم دانشوروں کو دعوت دی جائے۔مختصر یہ کہ غیر مسلم دانشوروں کے ساتھ مذاکرہ علمی کا مسلسل انعقاد باہمی منافرت کو ختم کرنے کے لیے ضروری کام ہے۔
ہندوستان میں مسلمان مختلف نشیب وفراز سے گذر رہے ہیں انہیں تاریخ میں بار بار مختلف نوعیت کے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہاہے اب اس زمانہ کایہ نیا چیلنج ہے کہ ان کو غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا ہے جس کی تہہ برادران وطن کے دماغوں میں بیٹھ چکی ہے اور جن کا وائرس افکار کو زہر آلود کر چکا ہے ۔برادران وطن کی غلط فہمیوں کے خارزار کو دور کرنے کے بعد بڑی حد تک مشکلات کا خاتمہ ہوسکتاہے اس کام کے لیے تمام عصری جامعات کے مسلم اساتذہ کو اور دانشور حضرات کو اپنا رول ادا کرنا ہوگا جو حضرا ت با مقصد زندگی گذارتے ہیں وہ اپنے اس مشن کی تکمیل کو اپنے مقصد میں شامل کرلیں اور اس کی منصوبہ بندی کریں۔
ہندو، مسلم خلیج کودورکرنے کے اس درجہ اول کی اہمیت کے کام کے بعد دوسرا کام مسلمانوں کی نئی نسل میں جدیدتعلیم کے فروغ کے لیے رہنمائی کرنا ہے دنیا کی تمام قوموں میں مسلمان عصری تعلیم کے میدان میں سب سے زیادہ پسماندہ ہیں اس ملک میں جامعات کے مسلم اساتذہ کو اس تعلیمی زبوں حالی کا مداوا کرنا ہے اور زبان وقلم کواور اپنی قوت عمل کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنا ہے ۔یونیورسٹی کے اساتذہ کوایک تنظیمی طاقت بنا کر یہ سب کام انجام دینا چاہیے ان کو بہت سے تعلیمی ادارے اسکول اور کالج قائم کرنا چاہئے۔ دنیا میں وہ ملک زیادہ ترقی یافتہ ہیں جہاں ٹکنالوجی زیادہ ترقی یافتہ ہے اگر ایسے کالج قائم کئے جائیں جہاں سائنس اور ٹکنالوجی کی تعلیم ہو تو یہ امت مسلمہ کی ترقی کی جانب قدم ہوگادینی مدارس کے فارغین سے اس کام کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے ، دہلی کے اوکھلا کے علاقہ میں تقریبا ۸ لاکھ کی مسلم آبادی ہے اتنی بڑی آبادی میں اگر مسلمانوں کا ایک بھی ایسا اسکول نہ ہو جو دہلی کے اچھے اسکولوں کی صف میں آتا ہو تو یہ اغماض اور غفلت برتنے کا جرم ہے جو جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں سے صادر ہوا ہے، اگر یہ کام یونیورسٹی کے مسلم اساتذہ نہیں کرتے ہیں اور صرف معیار زندگی کی بلندی کی ریس میں شامل رہتے ہیں اور صرف عیش وآرام کی زندگی گذارناپسند کرتے ہیں تو ان کی زندگی اس حدیث نبوی کے مصداق ہے جس میں کہا گیا ہے جس نے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کی فکر نہیں کی وہ مسلمان ہی نہیں ہے من لم یہتم بامر المسلمین فلیس منہم ۔
اب حرفے چند عربی زبان اور لسانیات کے اساتذہ کے بارے میں، یونیورسٹی میں عربی زبان و ادب کے جو اساتذہ ہوتے ہیں ان کی غالب اکثریت کسی دینی مدرسہ کا پس منظر رکھتی ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے سامنے مسائل اور مشکلات کا جو چیلنج ہے اسے دینی جماعتوں نے اور علماء دین نے قبول کیا ہے۔ علماء دین کی قیادت نے آزادی کے بعد سے ان مشکلات کے سامنے سپر انداز ہونے کی نہیں بلکہ سینہ سپر ہونے کی کوشش کی ہے۔ یونیورسٹی کے مدرسہ بیک گراؤنڈ کے مسلم اساتذہ نے نہ صرف یہ کہ مسلم قیادت کی کوئی دستگیری، رہبری یا ہمسفری نہیں کی بلکہ ان سے ایک فاصلہ قائم رکھا اور یہ مفروضہ قائم کرلیا کہ مسلمانوں کے مسائل جو لاینحل ہیں ان کو حل کرنے کی ان پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ہے،یہ کام دینی جماعتیں کریں تو کریں۔ یہی سوچ اور یہی کج کلاہی اور یہی ادائے بے نیازی اور بے فکری اور اجتماعی کاموں سے طرز تغافل در اصل یونیورسٹی کا وائرس ہے۔ اور یہ وائرس جب کسی مسلم استاذ کو لگ جاتا ہے تو وہ بے باکی اور بے خوفی کو ختم کردیتا ہے اوراس کے اندر ’’ وہن‘‘ بزدلی پیدا کرتا ہے اسے قوم و ملت اور دین و مذہب کی متنوع ذمہ داریوں سے کاٹ دیتا ہے۔ اور اسے خود غرض بنادیتا ہے ۔پھر اسے نہ تومسلمانوں کے آشیانوں کے لٹنے کا کرب رہتا ہے اور نہ نشیمن بنانے کی خواہش اور نہ اجتماعی زندگی میں لگنے والے زخموں کا کوئی افسوس اور غم ۔خود غرضانہ اور بے نیازانہ زندگی گزارنے والے ایسے اساتذہ کے نزدیک بس تنخواہ قاضی الحاجات اور کاشف البلیات ہوتی ہے اور اسی موٹی تنخواہ کے پرت میں وہ خطرناک وائرس ہوتا ہے جو ان اساتذہ کو لگ جاتا ہے۔ اور ان کو ہر دینی، مذہبی، قومی اور ملی سرگرمی سے کنارہ کشی پر مجبور کردیتا ہے اور وہ قوم و ملت کی رہبری سے علمی، تحریری اور تقریری سطح پر بھی قاصر رہ جاتے ہیں۔ اگر ملت اسلامیہ کے فرزندوں کے دل میں جو یونیورسٹی کی اونچی تنخواہیں پاتے ہیں اسلام اور عالم اسلام اور مسلمانوں کے روح فرسا حالات کے لیے کوئی آتشِ غم اور چشم نم نہیں ہے کہ تحریر و تقریر کے ذریعہ اس کا اظہار ہوسکے تو جانے دیجئے کہ یہ رتبہ بلند ہر شخص کو نہیں ملتا ہے، نہ یہ گرد ملال ہر شخص کو نصیب ہوتی ہے۔فقیرانہ زندگی گذارنے والے بوریا نشیں علماء یونیورسٹی کی زرکار کرسیوں پر بیٹھنے والے اساتذہ سے بہتر ہیں۔
عربی فارسی اردو کے بیشتر اساتذہ نہ علمی کام کرتے ہیں نہ ادبی کام کرتے ہیں نہ قابل ذکر علمی ادبی کتابوں کے ترجمہ کا کام کرتے ہیں علم و ادب کی دنیا میں ترجمہ کا کام کلیدی اہمیت کا حامل ہے، یہ وہ روزن ہے جس سے دوسری زبانوں کی علمی اور تخلیقی سرگرمیوں کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور افکار نو بہ نو کا استقبال کیا جاتا ہے۔ اور تہذیبی لین دین کا عمل جاری ہوتا ہے۔ تخلیق کی گاڑی ایک پٹری پر چلتی ہے اور ترجمہ کی گاڑی دو پٹریوں پر چلتی ہے۔ تخلیقی کام یا علمی کام کے لیے ایک زبان کا جاننا کافی ہوتا ہے لیکن ترجمہ کے لیے دو زبانوں کا جاننا لازمی ہے۔ ترجمہ کے ذریعہ ہم دوسری زبانوں کے افکار اور اقدار سے آشنا ہوتے ہیں۔ اب جبکہ دنیا کی طنابیں کھچ گئی ہیں کوئی زبان ترجمہ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ ترجمہ کی اہمیت کسی طرح تخلیق و تصنیف سے کم نہیں۔ ترجمہ کے ذریعہ نئی آگہی کانور پھیلایا جاتا ہے، نئے چراغ فکر و نظر جلائے جاتے ہیں۔ تخلیق کار تاج محل تخلیق کرتا ہے مترجم اس تخلیق کے جلوے ساری دنیا میں پھیلاتا ہے، ترجمہ اگر کامیاب ہو تو وہ تخلیقی ادب کا حصہ بن جاتا ہے۔ ترجمہ کی کامیابی کے لیے ضروری ہے زبان شگفتہ ہو اور الفاظ کی نشست جملوں کی ساخت اجنبی نہ معلوم ہو۔ ترجمہ ہی کے ذیعہ کسی قوم و زبان کی تحقیقات اور ادبی شاہکار پوری انسانیت کی ملکیت بنتے ہیں۔ سونا جب تک کان کے اندر دفن ہوتا ہے اسے قوم کی ملکیت نہیں قرار دیاجاسکتا۔ عربی زبان کے اساتذہ کو اور دیگر اہل علم کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بو علی سینا، ابن رشد، ابو نصر فارابی وغیرہ کی عربی کتابوں کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا تو سونا علم کی کان سے نکل کر عالم انسانیت کی دولت بن گیا اور اسی سے یورپ میں نشات ثانیہ کا آغاز ہوا۔ ہندوستان میں دار الترجمہ حیدرآباد کی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جس نے مختلف علوم و فنون کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا اور اردو زبان کی دولت میں اضافہ کیا۔ ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب نے معاشیات میں ایم اے کیا تھا پھر انہوں نے افلاطون کی بہترین کتاب ’’ریپبلک ‘‘کااردو ترجمہ کیا تھاعلمی اور ادبی کتابوں کے ترجمہ کام بھی اہمیت رکھتا ہے، زبان و ادب کے اساتذہ کو ترجمہ کی اہمیت کا احساس ہونا چاہیے اور انہیں ان موضوعات کو اختیار کرنا چاہیے جس سے ہندوستانی اور اسلامی تہذیب کے وقار میں اضافہ ہو ورنہ محض کیریئر کے لیے یا زرکشی، زرگری کے لیے یا انٹرویو میں اپنا پبلیشڈ ورک دکھانے کے لیے کچھ الٹے سیدھے کام کرلینا اور انہیں چھپاکر رکھنا صلاحتیوں کا زیاں ہے اور تعلیم کے مقدس پیشہ کے ساتھ بے وفائی ہے۔اساتذہ کو یہ بجا شکایت ہوتی ہے کہ کوئی ناشر شائع کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے ،اصلاً جرم تو اساتذہ کا اور اہل زباں حضرات کا ہے جنہیں کتابیں خریدنے اور پڑھنے کا ذوق نہیں ہے ،پھر کوئی ناشر کتاب کیسے اور کیوں شائع کرے، یونیورسٹی کے مسلم استاد کے شایان شان کام کوئی دینی مدرسہ قائم کرنابھی نہیں ہے اور نہ مسجد میں یا جماعت میں چلہ کشی کرنا ہے بلکہ اس ملک میں دانشورانہ سطح پر مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کی گرہیں کھولنا ہے یا ٹھوس دانشورانہ علمی کام انجام دینا ہے یا مسلمانوں کی ذہن سازی کرنا ہے۔قرطاس وقلم سے وابستگی عصری جامعات کے استاذ کی اولین ذمہ داری ہے ۔لکھنا ہمیشہ بہت زیادہ پڑھنے سے آتا ہے یونیورسٹی کے مسلم اساتذہ الّا ماشاء اللہ پڑھتے ہی نہیں ہیں، انہیں پڑھنے کی ’’ بھوک‘‘ ہی نہیں لگتی ہے ۔علم وادب کی غذا کی طلب ہی ان کے اندر نہیں پائی جاتی ہے مستثنیٰ اشخاص کو چھوڑ کر کے یہ ایک بیمار لوگوں کی جماعت ہے ،جس شخص کی بھوک ختم ہوجائے اسے بیمار ہی کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر کو معلوم ہی نہیں ہوتا ہے کہ دنیا میں پرنٹ ورلڈ میں مختلف موضوعات پرکیسی فکر انگیزااور معلومات افزا کتابیں سامنے آرہی ہیں، کتابوں کی دکانوں پر جانے کا انہیں کوئی شوق نہیں ہوتا ہے، ان کی تنخواہ کا ایک فی صد حصہ بھی کتابوں کی خریداری پر خرچ نہیں ہوتا ہے۔ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے تو فخریہ انداز میں کہا کہ میں نے زندگی میں آج تک کوئی کتاب نہیں خریدی۔ ایک کتاب حال میں انگریزی میں’’میٹینگ آف دی مائنڈ‘‘ اور اردو میں ’’ فکری ہم آہنگی ‘‘کے نام سے شائع ہوئی ہے انگریزی اخبارات میں اس کا ذکر آیا ہے اردو میں ایک ناول کو بڑاایوارڈ ملا ہے اردو میں ایک مسلمان مفکراور قائد کی’’ ہندوتوا‘‘ کے نام سے ایک فکر انگیز کتاب شائع ہوئی ہے،ملت کے مسائل کے موضوع پر’’ ہندوستان کا مستقبل اور اسلام ‘‘ اور ’’ بند گلی سے آگے کی راہ‘‘ اور ’’حالات بدل سکتے ہیں ‘‘اور’’ قافلہ کیوں لٹا‘‘کے نام سے بہت اہم کتابیں شائع ہوئی ہیں، ایک اچھی کتاب ’’مطالعہ سیرت وتاریخ ‘‘شائع ہوئی ہے، کتنے استاد ہیں جو پرنٹ میڈیا کی ان اہم خبروں سے اور کتابوں سے واقف ہیں اورکہہ سکتے ہیں کہ یہ کتابیں انہوں نے پڑھی ہیں، ان میں بہت سے لوگ اردو اخبار تک خرید کر نہیں پڑھتے اور پوچھنے پر کہتے ہیں کہ وہ آن لائین پڑھ لیا کرتے ہیں ۔ انہیں یہ بھی احساس نہیں ہوتا ہے کہ سب لوگ اگر آن لائین اخبارات پڑھ لیا کریں گے تو اخبارت کا چھپنا تو بند ہوجائے گا۔علاوہ ازیں یہ تجربہ ہے کہ آن لائین اخبارپڑھنے میں وقت کی پابندی نہیں ہوتی ہے اورباربار ناغہ بھی ہوتا ہے جس کی وجہ سے حالات حاضرہ کے بارے میں مطالعہ کا تسلسل ٹوٹتا ہے ۔یہ سب باتیں اردو زبان اور ملت کے بارے میں بے حسی کی آئینہ دار ہیں۔ (جاری)
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 جولائی تا 29 جولائی 2023