قیامت صغریٰ ۔۔ ! سامان عبرت ۔۔!
محمد مجیب الاعلیٰ
وہ صدی کے ہلاکت خیز زلزلہ کا دوسرا دن تھا جب شام کے جندیرس ٹاون میں ایک تین سالہ لڑکی کو اپنے منہدم شدہ مکان کے ملبہ پر مجسم غم دیکھا گیا۔ اس لڑکی کو دلاسہ دینے اور سرپر ہاتھ رکھنے والا آس پاس کوئی نہ تھا۔ پھر اسی دن ایک دوسری دل خراش تصویر سامنے آئی جس میں ایک بوڑھے باپ کو اپنے ہی مکان کے ملبہ میں پھنسی ہوئی اپنی پندرہ سالہ بیٹی کا ہاتھ تھامے دیکھا گیا۔ اس منظر کو دیکھ کر ہر آنکھ اشکبار ہوئی ہوگی کہ رگوں میں خون کو منجمد کردینے والی سردی میں ایک بوڑھا باپ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کی بیٹی مرچکی ہے اس کا ہاتھ چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھا اور بیٹی کو ملبہ سے باہر نکالنے کے لیے امدادی کارکنوں کی راہ تک رہا تھا۔ پیر، چھ فروری کی صبح شمالی شام اور جنوبی ترکیہ کے دہلا دینے والے زلزلے اپنے پیچھے اس طرح کی کئی دردناک کہانیاں چھوڑ گئے اور کرہ ارض پر بسنے والے انسانوں کو ان کی بے بسی اور دنیا کی بے ثباتی کی یاد دہانی کروا گئے کہ یقیناً دیدہ بینا رکھنے والوں کے لیے اس میں سامان عبرت ہے۔
بین الاقوامی امداد۔ بھارت کا ’آپریشن دوستی‘
ترکیہ کے دس شہروں کو بری طرح متاثر کرنے والے زلزلوں کے بعد زائد از پچھتر ممالک نے ترکیہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ہرممکن تعاون کا یقین دلایا ہے۔ وزیر خارجہ میولود چاوس اولو کے مطابق اس وقت چھپن ممالک سے چھ ہزار چار سو اسی راحت کارکن متاثرہ علاقوں میں راحت کاری سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور مزید انیس ممالک سے نئی امدادی ٹیمیں جلد ہی وہاں پہنچ رہی ہیں۔ دکھ کی اس گھڑی میں جن ممالک نے سب سے پہلے امداد کا ہاتھ آگے بڑھایا ان میں بھارت بھی شامل ہے۔ بھارتی بحریہ کا سی۔17گلوب ماسٹر طیارہ ضروری راحت سامان اور دواوں کے ساتھ ریسکیو ٹیم اور طبی عملہ کو لے کر ترکی پہنچا۔ زخمیوں کے علاج کے لیے بھارت نے فیلڈ ہاسپٹل قائم کیا ہے۔ واضح رہے کہ مسئلہ کشمیر پر ترک صدر کے بھارت مخالف موقف کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان کچھ تلخی ضرور پیدا ہوئی تھی لیکن بھارت نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے ’آپریشن دوستی‘ کو آگے بڑھایا جس پر ترکیہ نے یہ کہتے ہوئے شکریہ ادا کیا کہ اس مدد کو وہ کبھی فراموش نہیں کرے گا۔ ترکی کے سفیر متعینہ نئی دلی نے ٹویٹ کیا ’’ترکش اور ہندی زبان میں لفظ ’دوست‘ ایک مشترکہ لفط ہے۔ ہمارے یہاں کہاوت ہے دوست وہی جو ضرورت پر کام آئے۔ بہت بہت شکریہ انڈیا ‘‘۔
اہل شام کی حرماں نصیبی
ترکیہ میں امدادی کام طیب ایردوان کی موثر قیادت میں جنگی خطوط پر جاری ہیں لیکن اسے باشندگان شام کی حِرماں نصیبی کہیے کہ وہاں امداد بہت کم پہنچ رہی ہے۔ یہ ملک پہلے ہی ایک لہو نوش آمر کے دست نگر میں گزشتہ تیرہ برسوں سے حالات کے سب و شتم جھیل رہا ہے۔ ایسے میں زلزلہ ان کے لیے آفت پر ایک نئی آفت ہے۔ خطہ کی بدترین خون آشام جنگ سے لہولہان ملک شام میں خاندانوں کے خاندان صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور بہت سے خاندان ایسے بھی ہیں جو اپنے پیچھے یتیم بچوں اور بیواوں کو چھوڑ گئے۔ آثار و قرائن کہہ رہے ہیں کہ چھ فروری کے زلزلہ میں کچھ آفت زدگان تو دنیا سے چلے گئے اور جو رہ گئے وہ یا تو ملبہ کے ڈھیر میں یا منہدمہ عمارتوں میں پھنسے موت و زیست کی کشمکش میں ہیں اور جو زخمی ہیں ان کے سر آسرے کو اور پیٹ نان شبینہ کو ترس رہے ہیں۔ اندازہ کیجیے کہ شام کا المیہ کس قدر اندوہناک ہے۔ وہ لڑکے اور لڑکیاں جنہوں نے اپنی پوری زندگی غربت سے متاثرہ شمال مغربی شام کے تحفظ کی جنگ میں اپنی جانیں بچاتے ہوئے افراتفری کے عالم میں گزاری تھیں آج ان کے آشیانے جو کسی طرح جنگ میں بچ گئے تھے وہ قدرتی آفت کی زد میں آکر تہہ خاک ہوگئے ہیں۔
شمال مغربی شام میں بچے پہلے ہی بدترین استحصال، تشدد اور بدسلوکی کے خطرے میں تھے۔ اسپتالوں کو پہلے ہی سے فنڈس کی قلت کا سامنا تھا۔ لوگ پہلے ہی پینے کا صاف پانی مہیا نہ ہونے اور پانی سے پیدا ہونے والے امراض سے بیمار ہو رہے تھے۔ایسے میں پیر کا ہلاکت خیز زلزلہ ان کے مصائب کا آغاز نہیں بلکہ پہلے سے موجود آفت پر ایک اضافہ ہے۔ کرب و الم کی یہ صورتحال اب نہیں بلکہ چھ فروری کے زلزلے سے پہلے ہی عالمی امداد کی متقاضی تھی۔ لہذا بین الاقوامی برادری کو بلا کسی تاخیر کے جنگی خطوط پر شام کے مصیبت زندگان کی مدد کے لیے آگے آنا چاہیے۔
زلزلے کی تباہی کے بعد ایسی اطلاعات مل رہی ہیں کہ شامی باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں جہاں نسبتاً زیادہ تباہی مچی ہے، متاثرین کو امداد پہنچانے میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔ بشارالاسد حکومت آفت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بین الاقوامی امداد کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔خیال رہے کہ ترکی کی سرحد کے قریب شامی صوبے ادلب کا نظم حزب اختلاف کے جنگجووں کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ علاقہ شامی حکومت اور روسی فوج کے حملوں کی زد میں ہے اور سفاکیت کی انتہا یہ ہے کہ زلزلے کے جھٹکوں کے معاً بعد شامی افواج نے حزب اختلاف کے زیر کنٹرول قصبے ماریہ پر فائرنگ کی۔
زائد از ایک دہائی کی لڑائی کے نتیجے میں یہاں بنیادی سہولتوں کا نظام پہلے ہی سے ٹھپ ہے۔ طبی ساز و سامان اور امدادی خدمات کی شدید قلت ہے اور یہاں کے بیشتر مکین بین الاقوامی امداد پر منحصر ہیں۔باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں سے باہر رہنے والے مقامی لوگ بھی زلزلے سے اشد متاثر ہیں۔ شمالی شام میں باغیوں کے زیر قبضہ اور حکومت کے زیر تسلط دونوں علاقوں میں مہلوکین کی تعداد ہزاروں میں ہے اور اس میں مزید اضافہ کا امکان ہے۔انسانی حقوق کی تنظیم میڈیکو انٹرنیشنل کے لیے شمالی شام میں امداد رسانی میں مدد کرنے والی تنظیم انیتا سٹاروستا کے مطابق ان علاقوں میں ہنگامی خدمات فراہم کرنے میں بہت سی دشواریاں حائل ہیں۔ حلب جیسے مقامات پر، جہاں پر اسد حکومت کا کنٹرول ہے، امداد پہنچانا مشکل ہے‘‘۔ اسٹاروستا کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں کوئی بھی بین الاقوامی امداد رسانی کے لیے بشارالاسد حکومت کے ساتھ اشتراک نہیں کرسکتا کیونکہ ہم ماضی کے تجربے کی روشنی میں جانتے ہیں کہ تمام امدادی رقوم جو دمشق میں حکومت کی توسط سے پہنچائی جاتی ہیں وہ حکومت کی مالی معاونت کے کام آتی ہیں۔ یہ امداد ان تنظیموں کو جاتی ہے جو بشارالاسد خاندان سے قربت رکھتی ہیں۔‘‘ اس دوران اسد حکومت کے قریب سمجھی جانے والی ایک امدادی تنظیم شامی عرب حلال احمر (سیرین عرب ریڈ کریسینٹ) نے مطالبہ کیا ہے کہ اسد حکومت کے خلاف پابندیاں ہٹا دی جائیں تاکہ امداد پہنچانے میں آسانی ہو۔ اس مطالبہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض عناصر کس طرح تباہی کا استعمال سیاسی مفاد کی حکمت عملی کے طور پر کرتے ہیں۔ دریں اثناء الجزیرہ کی اطلاع کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے کہا ہے کہ بشار الاسد نے باغیوں کے زیر قبضہ شمال مغربی شام میں زلزلہ کے متاثرین کو امداد پہنچانے کے لیے مزید سرحدی گزرگاہوں کی رضا مندی ظاہر کی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اذانوم گیبریئس نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے اتوار کی سہ پہر دمشق میں شام کے صدر سے ملاقات کی تھی تاکہ شام اور ترکیہ کے تباہ کن زلزلے کے ردعمل پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔
***
***
وہ صدی کے ہلاکت خیز زلزلہ کا دوسرا دن تھا جب شام کے جندیرس ٹاون میں ایک تین سالہ لڑکی کو اپنے منہدم شدہ مکان کے ملبہ پر مجسم غم دیکھا گیا۔ اس لڑکی کو دلاسہ دینے اور سرپر ہاتھ رکھنے والا آس پاس کوئی نہ تھا۔ پھر اسی دن ایک دوسری دل خراش تصویر سامنے آئی جس میں ایک بوڑھے باپ کو اپنے ہی مکان کے ملبہ میں پھنسی ہوئی اپنی پندرہ سالہ بیٹی کا ہاتھ تھامے دیکھا گیا۔ اس منظر کو دیکھ کر ہر آنکھ اشکبار ہوئی ہوگی کہ رگوں میں خون کو منجمد کردینے والی سردی میں ایک بوڑھا باپ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کی بیٹی مرچکی ہے اس کا ہاتھ چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھا اور بیٹی کو ملبہ سے باہر نکالنے کے لیے امدادی کارکنوں کی راہ تک رہا تھا۔ پیر، چھ فروری کی صبح شمالی شام اور جنوبی ترکیہ کے دہلا دینے والے زلزلے اپنے پیچھے اس طرح کی کئی دردناک کہانیاں چھوڑ گئے اور کرہ ارض پر بسنے والے انسانوں کو ان کی بے بسی اور دنیا کی بے ثباتی کی یاد دہانی کروا گئے کہ یقیناً دیدہ بینا رکھنے والوں کے لیے اس میں سامان عبرت ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 فروری تا 25 فروری 2023