خواتین تحفظات بل: ہنوز دلی دور است

پارلیمنٹ کی نئی عمارت سے پاس ہونے والا پہلا بل شمولیتی جمہوریت اور پارلیمانی نظام کی مضبوطی کی علامت نہیں بن سکا

نور اللہ جاوید، کولکاتا

ذیلی کوٹہ مقرر نہ کرتے ہوئے 52 فیصد پسماندہ اور اقلیتی طبقات کو محروم رکھا گیا 
خواتین کو زندگی کے تمام شعبوں میں مواقع فراہم کرنے کی ضرورت۔ علامتی اقدامات ناکافی
سیاسی جماعتوں کی پالیسی ساز کمیٹیوں میں خواتین کی نمائندگی مایوس کن
27 سال کے انتظار کے بعد صنفی مساوات اور قانون سازی میں خواتین کی بھر پور نمائندگی کو یقینی بنانے کے لیے ’’خواتین ریزرویشن‘‘ بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے منظور ہوگیا۔ ’خواتین تحفظات بل‘ کا تین دہائی پر مشتمل یہ سفر کافی اتار چڑھاو، ہنگامہ خیزی، سیاسی داو پیچ اور نعرے بازی پر مشتمل رہا ہے۔ اس بل کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت سے پاس ہونے والا یہ پہلا بل ہے۔ ظاہر ہے کہ اس اعتبار سے یہ تاریخی اور یادگار لمحہ ہے۔ چنانچہ ہر ایک موقع کو ایونٹ کے طور پر استعمال کرنے والے وزیر اعظم نریندر مودی نے اس کو اپنی بڑی کامیابی کے طور پر لیا اور بڑے ایونٹ میں تبدیل کر دیا۔ پارٹی کے صدر دفتر میں جشن و طرب کی مجلس برپا کی گئی۔ تاہم  ’جی-20 ممالک‘ کے سربراہی اجلاس سے عین قبل پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس بلانے کے مروجہ طریقے کار کو نظر انداز کر کے اچانک پارلیمنٹ کے پانچ روزہ اجلاس کا اعلان کر دینے سے ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ یکایک قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہوگیا تھا کہ پانچ روزہ خصوصی اجلاس کے ذریعہ مودی حکومت کوئی دھماکہ کرنے والی ہے۔ کوئی بڑی قانونی پیش رفت ہونے والی ہے۔ملک کا ایک طبقہ خوف زدہ ہوگیا کیوں کہ جب جب پارلیمنٹ کے اجلاس اور اس میں پیش والے بل کو رازدرانہ طور پر پیش کیا گیا ہے تو اس سے وہ براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ سیاہ قانون یو اے پی اے اور شہریت ترمیمی بل اس کی بڑی مثالیں ہے۔ انڈیا کا نام تبدیل کر کے بھارت، ایک ملک ایک الیکشن یا پھر یکساں سول کوڈ جیسے متنازع قانون کے تعلق سے بھی قیاس لگائے جارہے تھے۔ اسی ہیجانی کیفیت کے دوران جی-20 اجلاس کا انعقاد عمل میں آیا۔ اس اجلاس کی کامیابی و ناکامی پر معروضاتی تجزیہ کی جگہ پانچ روزہ اجلاس کا موضوع ہی چھایا رہا۔ طویل تجسس کے بعد آخر کار حکومت نے پانچ روزہ اجلاس کا ایجنڈہ جاری کیا۔ اجلاس سے عین قبل آل پارٹی میٹنگ میں بھی جو ایجنڈا پیش کیا گیا اس میں خواتین ریزرویشن بل شامل نہیں تھا۔ سوال یہ ہے کہ انتہائی رازداری برتتے ہوئے اسے خفیہ رکھنے کے مقاصد کیا تھے؟میدان جنگ میں سپہ سالار اپنی جنگی حکمت عملی اور تدابیر کو خفیہ رکھتا ہے۔ بسا اوقات اپنے قریبی ساتھیوں سے بھی حکمت عملی کو شیئر نہیں کرتا ہے مگر جمہوریت میں عوامی شمولیت، رائے اور عوامی جذبات اور امنگوں کی ترجمانی قانون سازی کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ اس کے بغیر جمہوریت اپنے حسن سے محروم ہوجاتی ہے۔ میدان جنگ کے برخلاف قانون سازی میں عوامی رائے، عوامی امنگوں اور تمام فریقین کی شمولیت کے بغیر پارلیمنٹ سے پاس ہونے والا قانون صرف قانون بن کر رہ جاتا ہے۔ وہ قانون عوامی قبولیت سے محروم رہتا ہے۔ مگر وزیر اعظم مودی میدان جنگ اور پارلیمنٹ دونوں کو ایک ہی انداز سے چلانا چاہتے ہیں۔ ایسے میں پارلیمنٹ کی کارکردگی پر سوالات اٹھنے لازمی ہیں بلکہ اس سوال کو وزیر اعظم مودی کے دس سالہ دور اقتدار میں پارلیمنٹ کی کارکردگی اور اس میں پاس ہونے والے قوانین کے طریقے کار کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ پارلیمنٹ تیزی سے زوال کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے جو اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں وہ بے معنی نہیں ہیں۔
پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے پہلے خصوصی اجلاس میں جس طریقے سے حکمراں جماعت کے ایک ممبر پارلیمنٹ نے ایک مسلم ممبر پارلیمنٹ کو دہشت گرد، آتنگ واد اور ملا دہشت گرد کہہ کر مخاطب کیا وہ صرف ایک مسلم پارلیمنٹ یا ملک کے 20 کروڑ مسلمانوں کو گالی نہیں تھی بلکہ یہ گالی جمہوریت، مساوات اور سماجی انصاف کا خواب دیکھنے والوں کے لیے تھی۔
ملک کی 50 فیصد خواتین کی حصہ داری کو یقینی بنائے بغیر خواتین ریزرویشن بل کی منظوری سوالوں کی زد میں ہے۔ سوال عوامی شمولیت کا ہے۔ اسی سوال پر تین دہائیوں تک خواتین ریزرویشن بل معلق رہا۔ کوششیں ناکام ہوتی رہیں مگر تین دہائی کے بعد بھی جو بل پاس ہوا ہے اس میں بھی ملک کے پسماندہ طبقات اور اقلیتی طبقے کی خواتین کی حصہ داری کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا تعلیمی، سماجی اور معاشی شعبے میں خواتین کی حصہ داری اور انہیں ترقی کے لیے پرامن ماحول فراہم کیے بغیر خواتین ریزرویشن بل سے کیا یکساں مواقع کی فراہمی کا مقصد حاصل ہوپائے گا؟ اگر اس سوال کو بڑے تناظر میں دیکھا جائے تو مطلع مزید صاف ہوجاتا ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں، سرکاری ملازمت اور کارپوریٹ سیکٹر میں
خواتین کی نمائندگی کی شرح کیا ہے۔ دوسرے یہ کہ تعلیمی اداروں، کارپوریٹ سیکٹر میں کام کرنے والی خواتین کا تعلق کس طبقات سے ہے؟ اگر ان کا سوشل آڈٹ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہر جگہ مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین ہی براجمان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس خواتین ریزرویشن بل میں اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ خواتین ریزرویشن بل بھی نہ صرف مراعات یافتہ طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتین کی ترقی کا ذریعہ نہ بن جائے؟
مغربی ممالک میں جمہوریت کی بہترین اتھارٹی کے طور پر تسلیم کرنے والے اور اس کی تقلید کرنے والوں کو ان ممالک میں خواتین کی سیاسی نمائندگی کا تجزیہ بڑے تناظر میں کرنا چاہیے۔ بیشتر مغربی ممالک میں جمہوری اداروں میں خواتین کی حصہ داری 40 فیصد سے زائد ہے بلکہ بعض ممالک میں نصف نصف ہے۔ جبکہ ایسے بیشتر ممالک میں خواتین کو ریزرویشن نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ خواتین ریزرویشن کے بغیر قانون ساز اداروں میں مردوں کے شانہ بشانہ کیوں ہے؟ دراصل سیاسی جماعتوں میں خواتین کا کردار کافی اہم ہے۔ ان ممالک کی سیاسی پارٹیوں میں نہ صرف بڑی تعداد میں ہیں بلکہ پارٹی کی پالیسی سازی میں بھی شامل ہیں۔اگر اس سوال کو بھارت کے تناظر میں دیکھا جائے تو ملک کی سیاسی جماعتوں میں فیصلہ سازی میں خواتین کا رول کیا ہے؟ کتنی سیاسی جماعتیں ہیں جن کی ایگزیکٹیو کمیٹی میں خواتین کی حصہ داری 30 فیصد ہے؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ ملک میں گزشتہ 75 سالوں میں ایس سی اور ایس ٹی کو ریزرویشن ہے مگر اسی ملک میں آج بھی شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب کو ظلم و نا انصافیوں کا سامنا ہے۔ بھید بھاو کا شکار ہیں۔تعلیمی اداروں میں ان کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات عام ہیں، کام کی جگہوں پر خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ ایسے میں اگر خواتین ریزرویشن بل کے بارے میں اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں تو اس پر غور ضرور کیا جانا چاہیے۔
خواتین ریزرویشن بل کو اگلی مردم شماری اور اس کے بعد حد بندی سے مشروط کیا گیا ہے۔ ایسے میں کم سے کم 2029 کے عام انتخابات کے بعد ہی اس بل کو نافذ ہونے کی امید کی جا رہی ہے۔ بلکہ بعض سیاسی تجزیہ نگار اور ماہرین کو اندیشہ ہے کہ خواتین ریزرویشن بل 2039 سے قبل نافذ نہیں ہو سکتا کیوں کہ 2026 تک حلقہ بندی میں اضافہ پر روک ہے۔ اگر اس میں توسیع نہیں کی جاتی ہے تو انتخابی حلقے کا سروے شروع ہوگا اور یہ سروے اس لیے بھی متنازع رہے گا کہ جنوبی ہند کی ریاستوں میں آبادی میں گراوٹ آئی ہے جبکہ اترپردیش، بہار بنگال اور دیگر شمالی ہند کی ریاستوں میں آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر آبادی کے اعتبار سے ریاستوں کو سیٹ فراہم کی جاتی ہے تو جنوبی ہند کی ریاستوں کی نمائندگی میں کمی آئے گی جس کے نتیجے میں سیاسی عدم توازن پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ ان تنازعات کے دوران خواتین ریزرویشن کا سوال مزید الجھ جانے کا خطرہ ہے۔ خواتین ریزرویشن بل کو فوری نافذ کرنے اور پسماندہ و اقلیتی طبقات کے لیے کوٹہ مخصوص کرنے سے گریز کے بعد اس دعوے میں کسی حد تک سچائی نظر آتی ہے کہ خواتین ریزرویشن بل جملہ بازی اور انتخابی حکمت عملی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
ریزرویشن مثبت عمل مگر۔۔
دو صدیوں پر محیط سامراجی حکومت سے آزادی کے بعد غربت، بھوک، بے روزگاری، ناخواندگی، سیاسی گروہ بندی اور فرقہ وارانہ کشیدگی اور خونریز تقسیم کے نتیجے میں وجود میں آنے والے ملک قانون ساز اسمبلی کے سامنے کئی بڑے چیلنج تھے۔ ان بڑے چیلنجوں میں سے سب سے بڑا چیلنج سماجی مساوات، ذات پات کی تقسیم کا خاتمہ اور تاریخی طور پر پسماندگی کے شکار طبقات کو آزادی کے فوائد سے بہرور کرانا تھا۔ 1946 اور 1950 کے درمیان کے سالوں میں اس مسئلے پر شدید بحثیں ہوئیں۔ تعلیم، روزگار اور گورننس جیسے اہم شعبوں میں پسماندہ طبقات کی نمائندگی کو یقینی بنانے کے لیے ریزرویشن پالیسی نافذ کرنے کی حمایت اور مخالفت میں زودار بحثوں کے بعد اس کو نافذ کردیا گیا۔ریزرویشن، اپنی تعریف کے اعتبار سے امتیازی سلوک کی ایک اور شکل ہے لیکن پسماندہ طبقات کے لیے ریزرویشن مثبت عمل کے نظریے سے نکلتا ہے۔ ریزرویشن بابا صاحب امبیڈکر کی ذہنی تخلیق کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ لفظ نسلی امتیاز کے شکار امریکی معاشرے میں سیاہ فام آبادی کو یکساں مواقع فراہم کرنے اور قومی دھارے میں شامل کرنے کی تحریکوں کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران پہلی مرتبہ امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے جنگی صنعتوں میں سیاہ فام طبقات کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے ایگزیکٹیو آرڈر جاری کرتے ہوئے اس شعبے کو سیاہ فام اور خواتین کے لیے کھول دیا تھا۔ 1961میں شہری حقوق کی تحریک اور امریکہ بھر میں سیاہ فام شہریوں کے پرتشدد مظاہروں کے بعد صدر جان ایف کینیڈی نے ملازمت میں مساوی مواقع فراہم کرنے کے لیے کمیٹی قائم کی اور اس کی سفارشات کے نفاذ کے لیے ایک ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیا۔ اس کو ’’مثبت اقدام‘‘ کا نام دیا گیا۔ 1963 میں کینیڈی نے رہائشی مقامات پر امتیازی سلوک کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے شہری حقوق کے بل کی تجویز پیش کی اور ان اداروں کے عوامی فنڈز روکنے کی تجویز دی جو امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ ان کے جانشین صدر لنڈن جانسن نے 1965 میں ایک اور ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیا جس میں نسل، مذہب اور قومیت کی بنیاد پر امتیاز کے بغیر سب کے لیے روزگار کے مواقع کی برابری کو یقینی بنانے کا پابند بنایا گیا۔ ان اقدامات کے نتیجے میں امریکہ میں سماجی، نسلی اور اقلیتوں، خاص طور پر سیاہ فام افراد اور خواتین کی محرومی میں کمی واقع ہوئی تاہم، قانونی اصلاحات کے تحفظات کے باوجود امریکہ میں آج بھی سیاہ فام افراد کو عوامی اداروں میں امتیاز کا سامنا ہے۔ بھارت میں 1882 میں برطانوی افسر ولیم ہنٹر اور دلت مصلح جیوتی راؤ پھولے نے پہلی مرتبہ بھارت کے تناظر میں ریزرویشن کی بات کی اور 1932میں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اور گاندھی جی کے درمیان  تاریخی پونا معاہدہ پر دستخط ہوئے جس کے تحت برطانوی بھارت میں محروم طبقات کے لیے انتخابی نشستوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا عہد کیا گیا تھا۔ امبیڈکر نے دلیل دی کہ تاریخی طور پر پسماندہ طبقات کو مساوی نمائندگی فراہم کر کے انصاف نہیں دیا جاسکتا بلکہ اس کے لیے واحد طریقہ ریزرویشن کی صورت میں مثبت کارروائی ہے۔ کیوں کہ تاریخی طور پر مظلوم افراد کو سیاسی یا سماجی میدانوں میں مراعات یافتہ اور اعلیٰ ذات کے غلبے کے ماحول میں ریزرویشن کے بغیر یکساں نمائندگی نہیں دی جا سکتی۔ یہی وہ نظریہ ہے کہ جو بعد میں منڈل کمیشن کے ذریعہ او بی سی کو ریزرویشن دیا گیا۔
مرکزی حکومت کے 90 اعلیٰ افسروں میں صرف تین او بی سی ہیں، ان میں سے بھی کوئی اقلیتی طبقے سے نہیں ہے۔ ملک کی آبادی میں خواتین کی حصہ داری 7 فیصد ہے مگر عوامی نمائندگی میں خواتین کی حصہ داری 0.7 فیصد ہی ہے۔ یونائٹیڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن فار ایجوکیشن پلس کی رپورٹ کے مطابق اس ملک میں پسماندہ اور اقلیتی طبقات کی آبادی 50 فیصد کے قریب ہے۔ اگرچہ یہ حتمی نہیں ہے کیوں کہ ذات پات کی بنیاد پر اس ملک میں سروے نہیں ہوئے ہیں۔ اس صورت میں اگر ان اقلیت اور پسماندہ طبقات کی خواتین کو ریزرویشن نہیں دیا جاتا ہے تو ریزرویشن کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ 2008 میں جب یو پی اے حکومت نے ریزرویشن بل پیش کیا تھا تو اس وقت بی جے پی کی فائر برانڈ اوما بھارتی نے جن کا تعلق پسماندہ طبقے سے ہے، خواتین کوٹے میں او بی سی خواتین کے لیے ذیلی کوٹے کا شدت سے مطالبہ کیا تھا۔ ان کے ساتھ بی جے پی کی پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی کھڑی تھیں مگر آج وہی بی جے پی اور ان کے پسماندہ طبقات کی خواتین اور لیڈر خاموش ہیں۔
خواتین ریزرویشن بل کو پہلی مرتبہ 1996 پیش کیا گیا تھا۔ اس وقت پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی نے بل کی جانچ کی تھی جبکہ 2008 کے بل کی جانچ اسٹینڈنگ کمیٹی برائے پرسنل، عوامی شکایات، قانون اور انصاف نے کی تھی۔ دونوں کمیٹیوں نے خواتین کے لیے نشستیں مختص کرنے کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے کچھ سفارشات کی تھیں:
(1) دیگر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لیے ذیلی کوٹے کے طور پر ہی سہی ریزرویشن پر غور کیا جائے۔
(2) 15 سال کی مدت کے لیے ریزرویشن فراہم کیا جائے گا اور اس کے بعد اس پر مزید غور کیا جائے گا۔
(3) راجیہ سبھا اور ریاستی قانون ساز کونسلوں میں بھی خواتین کے لیے نشستیں محفوظ کی جائیں گی۔ اگر موجودہ بل کو ان سفارشات کے تناظر میں ان سے صرف ایک سفارش خواتین ریزرویشن کو 15 سال بعد از سر نو غور کیا جائے گا شامل ہے۔ دو اہم سفارشات کو نظر انداز کر دیا گیا  ہے۔
پہلی لوک سبھا میں خواتین ممبران پارلیمنٹ کی تعداد 5 فیصد تھی جو 17ویں لوک سبھا میں بڑھ کر 15 فیصد ہو گئی ہے۔ اگرچہ یہ ابھی بھی کم ہے۔ پنچایتوں میں خواتین کے لیے ریزرویشن کے اثرات سے متعلق 2003 میں کیے گئے ایک مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ ریزرویشن پالیسی کے تحت منتخب ہونے والی خواتین ان شعبوں میں زیادہ توجہ دیتی ہے جن کا زندگی میں اہم کردار ہوتا ہے۔ قائمہ کمیٹی برائے عملہ، عوامی شکایات، قانون و انصاف (2009) نے اپنے مطالعہ میں کہا تھا کہ بلدیاتی اداروں میں خواتین کے لیے نشستوں کے ریزرویشن نے بلدیاتی اداروں میں خواتین کے کردار کو اہم بنا دیا ہے تاہم اگر اس کا مائیکرو لیول پر تجزیہ کیا جائے بالخصوص پنچایت سطح پر، تو خوش فہمی ختم ہوجاتی ہے کیوں کہ بیشتر مقامات پر خواتین محض علامت کے طور پر منتخب ہوتی ہیں اور اپنے سیاست داں شوہر کے زیر اثر رہتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 85 فیصد خواتین جو پنچایتی اداروں میں ریزرویشن کی وجہ سے کامیاب ہوتی ہیں ان کی سیٹیں ڈی ریزرو ہونے کی صورت میں محض 15فیصد خواتین ہی دوبارہ جیت پاتی ہیں ۔ظاہر ہے کہ یہ اشارے اچھے نہیں ہے ۔
اقلیتی و پسماندہ طبقات کی نمائندگی کا سوال!
وزیرا عظم نریندر مودی کی سیاسی کامیابیوں میں ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے او بی سی کی سیاست کا دھارا ہی تبدیل کر دیا ہے۔ چنانچہ آج کی سیاست میں لالو پرساد یادو، اکھلیش یادو، نتیش کمار اور دیگر طبقاتی سیاست کرنے والے لیڈروں کی سیاست غیر اہم ہو گئی ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جنوبی ہند کی ریاستوں میں او بی سی لیڈروں نے ہی مودی حکومت کی کامیابی کے رتھ کو روک رکھا ہے۔ اپنی سیاسی مقبولیت کے مقام ثریا پر فائز ہونے کے باوجود جنوبی ہند کی ریاستوں میں بے جے پی غیر اہم ہے بلکہ اترپردیش اور بہار جیسی ریاست میں اسے مودی کے بجائے او بی سی کی سیاست کرنے والی چھوٹی جماعتوں کا سہارا لینا پڑا ہے۔ اتر پردیش میں راج بھر اور بہار میں اوپندر کشواہا جیسے سیاستدانوں کے سہارے کی ضرورت ہے۔ مشہور اسکالر نویدیتا مینن نے انڈین ایکسپریس میں لکھا کہ اونچی ذاتوں میں او بی سی اور مسلمانوں کو جگہ دینے کا ایک خاص خوف ہے۔ او بی سی اور مسلمانوں کی عددی طاقت کے پیش نظر انہیں اگر یکساں مواقع اور مراعات دیدی گئیں تو انہیں اپنی برتری باقی رکھنے کا خطرہ ہے۔ نویدیتا مینن کہتی ہے کہ خواتین ریزرویشن طویل جدوجہد کے ذریعہ حاصل کیا گیا ہے اگرچہ یہ ایک علامتی ہے مگر علامت کی بھی اپنی طاقت ہوتی ہے۔ چونکہ خواتین ریزویشن کے نفاذ میں ابھی کئی مراحل باقی ہیں۔ اگرچہ دونوں ایوانوں سے یہ بل پاس ہوگئے ہیں مگر ترمیم کی گنجائش اب بھی باقی ہے۔
مشہور سیاسی تجزیہ نگار اور کالم نویس مولانا عبدالحمید نعمانی نے خواتین ریزرویشن بل پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ مبینہ اعلیٰ ذات کی خواتین کو لوک سبھا، اسمبلیوں وغیرہ میں لا کر اور مضبوطی کے ساتھ مختلف شعبہ ہائے حیات پر اپنا تسلط جمانے کی کوشش ہے، ماضی کی حکومت میں جب یہ بل لایا جا رہا تھا تو تمام قابل ذکر مسلم تنظیموں کے نمائندوں نے مختلف پارٹیوں کے سربراہوں سے ملاقات کر کے مطالبہ کیا تھا کہ بل میں او بی سی اور اقلیتوں کی خواتین کو بھی شامل کیا جائے۔ پہلے تمام پارٹیاں داخلی طور پر پارٹی میں خواتین کو معقول و متناسب نمائندگی دیں۔ راقم السطور ڈاکٹر قاسم رسول الیاس، ڈاکٹر تسلیم رحمانی، مولانا عمیدالزماں کیرانوی، مجتبی فاروق، وغیرہم نے ملائم سنگھ یادو، لالو پرساد، دیوے گوڑا، سابق وزیر اعظم اندر کمار گجرال، سیتا رام یچوری، اتل کمار انجان اور اجیت سنگھ سے ملاقاتیں کر کے اپنے مطالبات پیش کیے تھے، اب پھر یہی وقت آگیا ہے، کیونکہ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور اقوام کی زندگی میں سیاسی، سماجی، مذہبی و تعلیمی معاملے میں غفلت کو تاریخ معاف نہیں کرتی۔ موجودہ حکومت نے دس سالہ مدت میں مردم شماری نہیں کرائی ہے، یہ2021 میں ہو جانا چاہیے تھا۔ مردم شماری کی تکمیل سے پہلے خواتین ریزرویشن بل نافذ نہیں ہوسکتا۔ 2029-30 تک تو معاملہ جائے گا ہی۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ 2024 میں اس بل کا کچھ ہونے والا نہیں ہے، اس کی حیثیت جملہ سے زیادہ نہیں ہے، لیکن اپنی جدوجہد کو ترک کرنا مضر ہے‘‘۔ ماضی کے برعکس کانگریس برہمنی سیاست کے اثرات سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے۔راہل گاندھی مسلسل ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی وہ ماضی میں خواتین ریزرویشن بل میں اونبی سی کوٹہ کی عدم حمایت کو غلطی تسلیم کر رہے ہیں۔ اگر جنوب سے لے کر شمال تک ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری اور خواتین ریزرویشن میں او بی سی کی حصہ داری کا مطالبہ شدت اختیار کرجاتا ہے تو بعید نہیں کہ انتخابی فائدے کے لیے بی جے پی خواتین ریزرویشن بل میں ترمیم لانے پر غور کرنا شروع کردے۔ اس لیے ان حالات میں ضروری ہے کہ مسلم تنظیمیں ماضی کی طرح مسلم خواتین کی نمائندگی کو یقینی بنانے کے لیے رائے عامہ ہموار کریں اور سیاسی جماعتوں کو اقلیتی کوٹے کے لیے راضی کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کے سامنے پیش ہونے سے قبل قانون ساز اداروں میں مسلم خواتین کی نمائندگی پر واضح رپورٹ پیش کریں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 اکتوبر تا 07 اکتوبر 2023