ختنہ؛ تحفظ صحت کا ضامن

عالمی ادارہ صحت نے امراض خبیثہ سے بچنے کے لیے ختنہ کو کامیاب حکمت عملی قرار دیا

ڈاکٹر جاوید جمیل   

دنیا کے کئی ممالک اس سنت کے فوائد جان کر ششدر ہیں اور اس کو اپنانے کی فکر کر رہے ہیں 
ایک مسلم ایم پی کو بھارتی پارلیمنٹ کے  خصوصی سیشن کے دوران گالیاں دینے اور ناشائستہ الفاظ پر رد عمل 
حالیہ دنوں منعقدہ خصوصی پارلیمانی اجلاس میں بی جے پی کے رکن رمیش بھدوری کا ایک مسلم رکن پارلیمنٹ کے خلاف غیر اخلاقی و غیر شائستہ الفاظ اور حقارت آمیز القاب استعمال کرنا ایک نہایت ہی نامناسب اور قابل مذمت حرکت ہے۔ بھدوری نے اس عمل سے ظاہر کر دیا کہ اس نے اپنی نجی، عوامی، سماجی اور سیاسی زندگی میں کس قسم کی تربیت حاصل کی ہے۔ ایک ایم پی نے اپنے ہی رتبے کے ایک ایم پی کے ساتھ پارلیمنٹ کی تاریخ میں نہایت ناشائستہ اور غیر اخلاقی القاب کا استعمال کرکے پارلیمنٹ کے تقدس کو پامال کر دیا ہے۔ ان تمام ناشائستہ القاب میں ایک لفظ اس نے خاص طور پر نہایت طنزیہ اور حقارت کے ساتھ استعمال کیا وہ ہے کٹوا۔ یعنی ایک ختنہ شدہ مسلمان۔ اس لفظ کا استعمال ہر اعتبار سے ناپسندیدہ، ناشائستہ اور گستاخانہ ہے جس  سے وہ خود بحیثیت ایک ہندو ایم پی کے، اسلام اور مسلمان، دونوں کی توہین کا مرتکب ہوا ہے۔
  ہم سب جانتے ہیں کہ لفظ ’ختنہ‘ اسلامی احکام کا ایک جز ہے جو انسانی نظام صحت کی بنیاد ہے اور ایک مذہبی شناخت بھی۔ دوسرے بہترین اسلامی لقب مولوی کو بگاڑ کر اس نے حقارت کے ساتھ ملّا کر دیا جس سے مسلمانوں اور اسلام سے اس کی شدید نفرت کا اظہار ہوتا ہے۔ رمیش بھدوری ایم پی کو ہم یاد دلانا چاہتے ہیں کہ یہ مسلمان مولوی حضرات ہی ہیں جو دنیا میں امن و امان کے قیام کے لیے بچوں کو بڑوں کو اور عوام کو بہترین اسلامی اور اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں جس کے نتیجے میں انسان دنیا میں بھی سکون سے زندگی گزارتا ہے اور مرنے کے بعد، آخرت میں بھی سکون سے رہنے کی امید کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ہی انسانوں کو سکھایا جاتا ہے کہ انہیں کامیاب زندگی گزارنے کے لیے کون کونسی چیزیں ضروری ہیں اور کونسی چیزیں مضر ہیں جن سے ہمیں احتیاط برتنی چاہیے۔ مثلاً خنزیر کا گوشت، شراب، نشہ پیدا کرنے والی ہر شئے، چاہے وہ کھانے پینے کی ہو یا سونگھنے کی اور ہر قسم کی منشیات بھی۔ اس کے علاوہ یہی مولوی حضرات انسانوں کو اسلام کی اخلاقی تعلیمات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں جو ان کی صحت اور اخلاق کو بگاڑ دیتے ہیں۔ وہ شادی کے بغیر عورت اور مرد کے درمیان جنسی تعلقات سے منع کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انسانوں کو قتل کرنے سے، دوسروں کا مال چوری کرنے سے، رشوت خوری سے اور دوسروں کو دھوکہ دے کر مال و دولت جمع کرنے سے روکتے ہیں۔ مولوی حضرات سماج کے غریب اور محتاج افراد کی مدد کرنے اور انہیں صدقات دینے کی ترغیب بھی دیتے ہیں۔
ہم اپنے اس مضمون میں اسلام کے تمام اصولوں میں سے صرف ’ختنہ‘ پر اظہار خیال کریں گے کیوں کہ ختنہ، مسلمانوں کا وہ عمل ہے جو صدیوں سے جاری ہے اور اس کی طبی افادیت کی وجہ سے آج کی ماڈرن دنیا میں اس کی زبردست پذیرائی بھی ہو رہی ہے۔ ختنہ وہ منفرد اسلامی عمل ہے جو ٹھوس طبی فوائد کی بنیاد پر روز بروز ساری دنیا میں مقبول ہوتا جارہا ہے۔ یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ آدمی صرف ختنہ ہی سے امراض خبیثہ یعنی HPV سے منسلک سروائیکل کینسر اور ایڈس سے محفوظ رہ سکتا ہے اور دوسرے انسانوں میں انہیں منتقل ہونے سے روک سکتا ہے۔ افریقہ کی ایک تنظیم کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق افریقہ کے دواخانوں میں امراض خبیثہ میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں دن بہ دن تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر مقامی سوازی قبیلے کے لیے ایچ آئی وی اور ایڈس سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا، مشکل، دشوار اور پریشان کن مسئلہ بن چکا ہے۔ جنوبی افریقہ کی کئی سماجی تنظیموں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹوں میں اس حقیقت کر اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ختنہ شدہ مردوں میں ایچ آئی وی اور ایڈس جیسے امراض منتقل ہونے کے 60 فیصد امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ غالباً اسی رپورٹ کی بنیاد پر آج سوازی قوم کے مرد آج کل ختنہ کروانے کو ترجیح دے رہے ہیں حالانکہ یہی سوازی قبیلہ ختنہ کو غیر انسانی ظالمانہ اور وحشی عمل قرار دیتا تھا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ آج افریقی ممالک میں ختنہ کروانے کا رواج تیزی سے مقبول اور عام ہوتا جا رہا ہے۔  چنانچہ دو دو ماہ کے انتظار کے بعد ہفتے میں صرف 10-15 افراد ہی کی ختنہ ہو پا رہی ہے۔ افریقہ کے ایک معروف سرجن نے ختنہ کے غیر معمولی طبی فوائد کے پیش نظر ریڈیو کے ذریعے سامعین کو ختنہ کروانے کا مشورہ دیتے ہوئے تمام شہریوں سے یہ اپیل کی ہے کہ دنیا میں عضوئے تناسل کے ذریعے پھیلنے والے تمام امراض خبیثہ سے مکمل طور پر محفوظ رہنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے ختنہ۔  ایک افریقی ملک کے رکن قانون ساز کونسل نے پارلیمنٹ میں تمام ارکان سے بھی ختنہ کروانے کی
پر زور وکالت کی ہے۔ انہوں نے حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ ختنہ کروانے والے شہریوں کو خصوصی مراعات دے اور انہیں ہر قسم کی شہری سہولتیں بہم پہنچانے کا معقول انتظام کرے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے مردوں میں دنیوی انتظامی ذمہ داریاں سنبھالنے کی صلاحیت میں بھی قابل لحاظ اضافہ ہوتا ہے۔ اس میدان میں چند افریقی ممالک نے تحقیقی کام بھی کیا ہے جس کے نتیجے میں یہ حقیقت کھل کر عوام کے سامنے آگئی ہے کہ ایچ آئی وی اور ایڈس جیسے امراض خبیثہ کو مکمل طور پر ختم کرنے کا واحد حل صرف ختنہ ہے۔ اس موضوع پر دیگر کئی اقوام عالم نے بھی تحقیق کی ہے جس سے ختنہ کے مثبت نتائج بھی ظاہر کیے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا کہ جن علاقوں میں کم افراد کی ختنہ ہوئی ہے وہاں امراض خبیثہ کے پھیلنے کی شرح نسبتاً زیادہ ہے۔
ہم نے ایک خاص بات یہ نوٹ کی کہ جدید سائنس اور اعلی تعلیم یافتہ افراد اپنے آپ کو مذہب سے بالاتر اور مذہب کے اصولوں پر عمل کرنے والوں کو دقیانوسی اور جاہل سمجھتے ہیں لیکن حیرت ہے کہ اس ذہنیت کے باوجود یہی ترقی یافتہ طبی ماہرین آج ختنہ کی افادیت کے قائل ہوچکے ہیں اور امراض خبیثہ سے انسانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ختنہ کی وکالت کر رہے ہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بھی گزشتہ صدی سے ختنہ کی اہمیت اور اس کی افادیت کو طبی نقطہ نظر سے تسلیم کرلیا گیا ہے لیکن افسوس کہ 1999 کے بعد امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ نوزائیدہ لڑکوں کی ختنہ کیے جانے کے بعد حاصل ہونے والے طبی فوائد اتنے قابل ذکر نہیں ہیں کہ ختنہ کی سفارش کی جائے۔ اس سرکاری بیان کے بعد امریکہ میں ختنہ کروانے کے عمل میں تیزی کے ساتھ گراوٹ آئی۔ اس طرح ختنہ کے عمل میں مسلسل کمی کے بعد اس اکیڈمی کے موقف میں بھی نمایاں تبدیلی آئی جس کے بعد اس نے دوبارہ ختنہ کروانے کی تائید کا اعلان کیا اور کہا کہ ختنہ سے ہونے والے طبی فوائد اس کے خطرات سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس نے والدین کو ختنہ کے مثبت اور طبی حفاظتی اثرات کے بارے میں ذہن سازی کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ایک امریکی فزیشن اور پروفیسر ڈاکٹر رونالڈ گرے نے کہا کہ ختنہ ہر حال میں اس انسان کی محفوظ جنسی زندگی کی ضمانت ہے۔انہوں نے لکھا کہ ختنہ سے صرف فائدے ہی فائدے حاصل ہوتے ہیں، اس میں نقصان کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس پر مزید تحقیق کرنے کے لیے اسی میڈیکل گروپ کی طرف سے ایک ٹاسک فورس بھی تشکیل دی گئی، جس کی تحقیقات کی بنیاد پر حاصل شدہ نتائج اور شواہد پر مبنی حقائق اس طرح ہیں:
* بچپن ہی میں کی جانے والی ختنہ کے بے شمار فائدے ہیں۔ اس سے پیشاب کی نالی انفیکشن سے متاثر نہیں ہوتی جب کہ غیر ختنہ شدہ لڑکے ہی اس انفیکشن سے متاثر ہوتے ہیں۔ عام طور پر بچوں کی زندگی کے ابتدائی دو سال کے دوران ان کے عضوئے تناسل کی جلد کے نچلے حصے میں سوزش پیدا ہوتی ہے جس سے 17 فیصد بچے متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر دیکھا گیا ہے کہ 8 سال کی عمر سے کم عمر والے ختنہ شدہ لڑکوں میں سے 60 فیصد بچے اس بیماری سے محفوظ رہے۔ ایک اور تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ نوجوانی میں ختنہ کروانے والے مردوں میں سے 50-60 فیصد مرد عضوئے تناسل کے انفیکشن سے محفوظ رہے۔عالمی ادارہ صحت نے بھی امراض خبیثہ ایڈس اور ایچ آئی وی سے بچنے کے لیے ختنہ ہی کو ایک کارگر حکمت عملی قرار دیا ہے اور نوجوانوں کو عملی طور پر ختنہ کروانے کی ترغیب بھی دی اور کہا کہ ختنہ کے بعد مردوں کے عضوئے تناسل میں سوزش یا السر پیدا ہونے کا خطرہ بڑی حد تک کم ہوجاتا ہے، Herpes نامی انفیکشن سے بھی نجات مل جاتی ہے اور جنسیاتی زخم پیدا کرنے میں مانع ثابت ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور وائرس Papillouma کو بھی پیدا ہونے سے روکتا ہے۔ اس سے بڑھ کر مرد و خواتین دونوں میں پیدا ہونے والے HPV وائرس پر بھی قابو پالیتا ہے۔
آپ کو یاد دلا دیں کہ امریکہ میں جنسی طور  پر تیزی سے پھیلنے والا خطرناک وائرس HPV ہے۔ جو اس مرض میں پہلے سے مبتلا مرد و خواتین میں جنسی تعلقات کی وجہ سے بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ چنانچہ آگے چل کر یہ مرض کولہے کی ہڈیوں اور مقعد کے کینسر کا سبب بنتا ہے۔ اس مرض میں مبتلا مردوں کے عضوئے تناسل پر پہلے چھوٹی چھوٹی پھنسیاں نمودار ہوتی ہیں جو آگے چل کر تکلیف دہ پھوڑے بن جاتے ہیں۔ ختنہ شدہ مردوں کے ساتھ عورتوں کے جنسی ملاپ کے نتیجے میں عورتوں کے اندام نہانی Uterus کے انفیکشن، پھوڑے یا زخم پیدا ہونے کی شرح بہت کم ہے۔ علم طب کے مختلف اصولوں پر الگ الگ طریقوں سے کیے گئے تجربات سے یہ ثابت ہوا کہ ختنہ سے جنسی لذت ہرگز متاثر نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ ختنہ کرنے والے مرد اور غیر ختنہ شدہ مردوں کے درمیان جب قوت باہ کا موازنہ کیا گیا تو بعد میں ختنہ کروانے والے مردوں میں مردانہ طاقت اور جنسی لذت، ختنہ سے پہلے کی طاقت و لذت سے کہیں زیادہ محسوس کی گئی۔ مختصر یہ کہ ایک نو زائیدہ لڑکے کی ختنہ کروانے سے اسے تاحیات بہترین نارمل صحت مند زندگی کے فوائد حاصل ہوتے ہیں جو اسے اچانک پیدا ہونے والی مختلف بیماریوں اور دیگر طبی خطرات سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ تاحیات حاصل ہونے والی جنسی صحت کی حفاظت کے لیے والدین کو اپنے نو زائیدہ بچوں کی ختنہ وقت پر کروانے کا مشورہ دیا جانا چاہیے تاکہ وہ اپنے آئندہ پیدا ہونے والے بچوں کی صحت کی حفاظت کے لیے مناسب وقت پر ضروری قدم اٹھائیں۔
میں نے پہلی مرتبہ 1995ء میں شائع شدہ اپنی کتابIslamic Model for Control of Aids میں دلائل کے زور پر یہ تجویز دی تھی کہ عالمی سطح پر ایڈز پر قابو پانے کے لیے ختنہ کو مجوزہ پروگرام میں شامل کیا جائے۔ خوش آئند بات یہ رہی کہ 12 سال بعد WHO نے میری اس تجویز کو قبول کیا اور 2007ء میں WHO نے بنی نوع انسان کی بہترین جنسی صحت کے لیے ختنہ کو تسلیم کیا اور اس کا رسمی اعلان بھی کیا گیا۔ البتہ کہا گیا کہ مردوں کی رضا مندی کے بعد ہی ختنہ کی جانی چاہیے۔
ڈاکٹر کم ڈکسن Kim Dickson ورکنگ گروپ کوآرڈینیٹر جنہوں نے ختنہ سے متعلق سفارشات پیش کی تھیں، کہا تھا کہ ان ممالک میں جہاں مردوں کے درمیان ہم جنسی کی وجہ سے امراض خبیثہ کی شر ح15 فیصد سے تجاوز کرچکی ہے وہاں 20 فیصد مردوں کی ختنہ کی گئی ہے۔ WHO نے عوام کو مشورہ دیا کہ وہ ماہرین کے ذریعے ہی ختنہ کروائیں۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ خواتین میں Cervix کے کینسر سے بچاؤ میں ختنہ کا رول اب ہر قسم کے شکوک و شبہات سے بالاتر ہو چکا ہے۔ دنیا میں ہر سال تین لاکھ سے زیادہ خواتین Cervix کے کینسر میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ ختنہ شدہ مرد کے ساتھ جنسی تعلق رکھنے والی خواتین میں Cervix کا کینسر بہت کم پایا گیا۔ انڈین نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق بھارت میں 453 ملین خواتین، جن کی عمریں 15 سال یا اس سے زیادہ ہیں، انہیں کینسر میں مبتلا ہونے کا شدید خدشہ لاحق ہے۔ HPV انفارمیشن سنٹر کے اندازوں کے مطابق آج بھارت میں تقریبا ایک لاکھ خواتین میں Cervical کینسر کی تشخیص ہو چکی ہے جن میں سے تقریباً ساٹھ ہزار خواتین موت کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں۔ Cervix کینسر سے مسلم متاثرہ خواتین کی تعداد قابل لحاظ حد تک کم پائی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1995 میں میری کتاب کی اشاعت کے بعد، شیوسینا کے سپریمو آنجہانی بال ٹھاکرے نے ’’ہندوکھٹنا‘‘ متعارف کروانے کی سفارش کی تھی جس میں انہوں نے اس شرط کے ساتھ ہندوؤں کو ختنہ کروانے کا مشورہ دیا تھا کہ ختنہ کے بعد بھی ہندوؤں کی شناخت کے لیے کچھ امتیازی خصوصیات باقی رہنی چاہئیں۔
یقینا آج وہ وقت آ پہنچا ہے کہ رمیش بھدوری جیسے نادان لوگ ختنہ کو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ایک مفید عمل کے طور پر قبول کرنے کے بارے میں غور کریں۔ مسلمان ارکان پارلیمنٹ، اس گستاخ غیر مسلم ایم پی پر لعنت ملامت کرنے کے بجائے اسے اسلام کے اصولوں، طور طریقوں، ہدایات اور احکامات کے متعلق معلومات فراہم کرنے کی کوشش کریں۔
ترجمہ: سلیم الہندی (حیدرآباد)
***

 

***

 دنیا میں ہر سال تین لاکھ سے زیادہ خواتین Cervix کے کینسر میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ ختنہ شدہ مرد کے ساتھ جنسی تعلق رکھنے والی خواتین میں Cervix کا کینسر بہت کم پایا گیا۔ انڈین نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق بھارت میں 453 ملین خواتین، جن کی عمریں 15 سال یا اس سے زیادہ ہیں، انہیں کینسر میں مبتلا ہونے کا شدید خدشہ لاحق ہے۔ HPV انفارمیشن سنٹر کے اندازوں کے مطابق آج بھارت میں تقریبا ایک لاکھ خواتین میں Cervical کینسر کی تشخیص ہو چکی ہے جن میں سے تقریباً ساٹھ ہزار خواتین موت کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں۔ Cervix کینسر سے مسلم متاثرہ خواتین کی تعداد قابل لحاظ حد تک کم پائی گئی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 اکتوبر تا 07 اکتوبر 2023