قانون ساز اداروں میں خواتین کی نہایت کم نمائندگی

جماعت اسلامی ہند نے متناسب نمائندگی کی مثال قائم کی

سید خلیق احمد / عطیہ صدیقہ، دلی

162 رکنی مجلس نمائندگان کے لیے 36 خاتون نمائندے منتخب
جماعت اسلامی ہند ہمارے ملک بھارت کی ایک اہم دینی و ثقافتی تنظیم ہے۔ اس تنظیم نے گزشتہ مہینے اپنی 162 رکنی مجلس نمائندگان کے لیے 36 خواتین کو منتخب کیا ہے۔ مجلس نمائندگان دراصل جماعت اسلامی ہند کا ایک فیصلہ ساز ادارہ ہے جو امیر جماعت اسلامی ہند کا انتخاب کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جماعت کے تمام بڑے اور اہم فیصلے بھی یہی مجلس کرتی ہے۔ یہ مجلس، امریکی الکٹورل کالج کی طرز پر قائم ہے جہاں تمام ارکان، صدر اور نائب صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔ مجلس نمائندگان کا انتخاب جماعت اسلامی کے 14,000 ارکان، دو مرحلوں میں آن لائن کرتے ہیں۔ جدید منتخب شدہ مجلس نمائندگان کی مدت معیاد جسے میقات کہا جاتا ہے، چار سال کی ہوتی ہے۔ نئی میقات اپریل 2023 تا مارچ 2027 کے لیے ہوگی۔
جماعت اسلامی کے ہر انتخاب کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ کوئی بھی شخص کسی بھی عہدے کے لیے اپنے آپ کو پیش نہیں کر سکتا، اسے منتخب کرنے کے لیے کوئی انتخابی مہم نہیں چلا سکتا نہ کسی سے زبانی درخواست کر سکتا ہے۔ مجلس نمائندگان کے ارکان کا انتخاب کل ہند سطح پر رکن کی قابلیت، عملی میدان میں صلاحیت اور سابقہ تحریکی خدمات کی اساس پر کیا جاتا ہے۔ منتخب شدہ خاتون نمائندوں میں سے کئی خواتین عملی میدان کی ماہرین، ماہرین فن، ماہرین تعلیم، ڈاکٹروں اور انجینیروں کے علاوہ اعلی تعلیم یافتہ پوسٹ گریجویٹس بھی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان خواتین کا انتخاب پہلی مرتبہ جماعت اسلامی کی مجلس نمائندگان کے لیے ہوا ہے بلکہ ماضی میں بھی اس اعلی سطحی مجلس نمائندگان کے لیے خواتین کو منتخب کیا جاچکا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس مرتبہ خواتین کی زیادہ تعداد منتخب ہوئی ہے۔ اس میقات کے لیے منتخب مجلس نماندگان کا آغاز اس سال اپریل کے اختتام پر ہوگا جب موجودہ مجلس نمائندگان کی میقات ختم ہوگی۔ جماعت اسلامی کے معتمدین میں سے اس میقات میں دو خواتین ہیں۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی ہند میں باضابطہ شعبہ خواتین اور شعبئہ طالبات (جی آئی او) قائم ہے اور نہایت فعال ہے۔ جماعت اسلامی کی اس میقات میں خواتین کا اتنی قابل لحاظ تعداد کا مجلس نمائندگان کے لیے منتخب ہونا خوش آئند ہے، خصوصا ایسے سماج میں جہاں خواتین کے متعلق غلط فہمیاں عام ہیں۔ جماعت اسلامی کا دستور قرآن اور سنت کی مکمل ہدایات کے مطابق مرتب کیا گیا ہے۔ مجلس نمائندگان میں خواتین کے قابل لحاظ تعداد میں انتخاب سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام خواتین کو تنظیموں کے لائحہ عمل، فیصلہ سازی اور سماجی خدمات میں شمولیت کو ضروری سمجھتا ہے اور اس کی ہمت افزائی کرتا ہے۔ چنانچہ جماعت اسلامی ہند، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے علاوہ وہ واحد مسلم تنظیم ہے جہاں خواتین انتظامی امور سنبھالنے کے ساتھ ساتھ فیصلہ سازی اور دیگر معاملات میں برابر کی شریک ہیں۔ سب سے زیادہ اہم نکتہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی مجلس نمائندگان میں خواتین کی تعداد 22 فیصد ہے جو پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ خواتین کی اتنی بڑی تعداد ملک کی کسی ریاست میں نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں خواتین 13 فیصد اور ریاستی اسمبلیوں میں 10 فیصد سے کم ہیں۔ موجودہ اعداد و شمار کی روشنی میں پارلیمنٹ کے کل 766 ارکان میں خواتین کی تعداد صرف 102 (لوک سبھا میں 78 اور راجیہ سبھا میں 24) یعنی جملہ 13 فیصد ہے۔ اس سے زیادہ افسوس ناک حالت ریاستی اسمبلیوں کی ہے جہاں خواتین کی تعداد 10 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ اس ملک کی صورتحال ہے جہاں ایک خاتون اندرا گاندھی وزیر اعظم اور ایک خاتون پرتیبھا پاٹل صدر جمہوریہ رہ چکی ہیں اور اب ایک خاتون دروپدی مرمو صدر جمہوریہ ہیں۔ افسوس ناک بات ہے کہ ریاست میزورم کی نومبر 2022 میں منتخبہ 40 رکنی اسمبلی میں ایک بھی خاتون رکن نہیں ہے حالانکہ اس ریاست میں خاتون رائے دہندگان کی تعداد مردوں سے کہیں زیادہ ہے جبکہ آبادی 87 فیصد عیسائی ہے۔ اسی طبقے کی علاقائی جماعت میزہ نیشنل فرنٹ نے گزشتہ انتخابات میں 26 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی لیکن ایک بھی خاتون امیدوار کو میدان میں نہیں اتارا۔ اس بارے میں ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ یہ میزورم کے عیسائی سماج کی خصوصیت ہے کہ وہ اپنی خواتین کو سیاست کے میدان میں نہیں اتارتے۔ حالانکہ دیگر مقامی چھوٹی چھوٹی پارٹیوں نے خواتین امیدوار میدان میں اتارے تھے لیکن کسی کو بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ریاست شمال مشرقی ریاست ناگالینڈ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 60 رکنی ریاستی اسمبلی کے لیے صرف دو خواتین کو منتخب کیا گیا۔ دیگر ریاستوں میں بھی اسمبلیوں میں خواتین کی تعداد قابل ذکر نہیں ہے۔
سرکاری ایجنسیوں (اسمبلیوں، کونسل، پارلیمنٹ) میں خواتین کی تعداد کے تناسب سے عالمی سطح پر بھارت کا مقام147 ہے۔
بھارت میں خواتین کی آبادی کا تناسب 50 فیصد ہونے کے باوجود ریاستی اسمبلیوں، کونسلوں، راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں خواتین کی تعداد کم ہے، جو بھارتی خواتین کی مکمل نمائندگی نہیں کرتی۔ ایک تنظیم انٹر پارلیمنٹری یونین (IPU) کے مطابق بھارت میں گزشتہ کچھ دہوں سے خواتین کی نمائندگی تشویشناک حد تک کم ہوگئی ہے اور آج عالمی سطح پر سرکاری ایجنسیوں میں خواتین کے تناسب کی بنیاد پر 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت 148 نمبر پر آگیا ہے جبکہ 2008 میں یہ 144 نمبر پر تھا اور 1998 میں 95 نمبر پر تھا۔ IPU کے اعداد و شمار کے مطابق دیگر ممالک کے اعداد و شمار اس طرح ہیں:
چین۔۔۔86 نیپال۔۔۔45 پاکستان۔۔۔116 بنگلہ دیش۔۔۔11 افغانستان۔۔۔71 انڈونیشیا۔۔۔110 ملیشیا۔۔۔146 پر ہیں۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں خواتین کی نمائندگی کو بڑھانے کے لیے سب سے پہلے حکومت کو ان کی مالی حالت سدھارنی ہوگی۔ مناسب منصوبہ بندی کے ذریعے ریاستی اسمبلیوں، کونسل اور مرکزی لوک سبھا، راجیہ سبھا میں ان کی تعداد کو بڑھانے کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔سیاسی جماعتوں کو قانونی طور پر پابند کیا جائے کہ وہ آئندہ انتخابات میں خواتین کو ٹکٹ دیں، انہیں انتخاب لڑنے کا موقع اور ذرائع مہیا کریں۔ عموماً سیاسی پارٹیوں کا استدلال یہ ہوتا ہے کہ وہ بلا لحاظ جنس کسی بھی مرد یا خاتون کو ٹکٹ نہیں دیتے جن میں انتخاب لڑنے اور کسی بھی قیمت پر انتخاب جیتنے کا جذبہ اور صلاحیت ہی نہ ہو۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کے اعداد و شمار کے مطابق لوک سبھا کے 1952-1977 کے انتخابات کے دوران، خاتون امیدواروں کا فیصد صرف 3 تھا۔ اس کے بعد 1977-2002 کے عام انتخابات میں ان کا فیصد 4 رہا۔ اس سے ہٹ کر ریاستی اسمبلیوں کے 1952-1977 کے درمیان ہونے والے انتخابات میں خواتین امیدواروں کا فی صد صرف 2 تھا۔1977-2002 میں 4 فیصد تھا اور 2002-2019 میں 8 فیصد تھا۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سرکاری ایوانوں میں خواتین کی نمائندگی کا تناسب بہت کم ہے۔ جب مناسب تعداد میں خواتین امیدوار، انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیں گی تو کس طرح خواتین کی نمائندگی کا مطلوبہ تناسب حاصل ہوگا۔
سیاسی جماعتوں میں بھی خواتین کی مناسب نمائندگی نہیں پائی جاتی:
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے 17 ارکان میں صرف 2 خواتین سبھاشنی علی اور برندا کرات ارکان ہیں۔
آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے کل 10 جنرل سکریٹریز میں صرف 2 خاتون جنرل سکریٹریز ہیں اور کل 55 سکریٹریز میں صرف 5 خاتون سکریٹریز ہیں
بی جے پی کے کل 12 نائب صدور میں صرف 3 خاتون نائب صدور ہیں، 9 جنرل سکریٹریز میں صرف 2 خاتون سکریٹریز ہیں اور 13 نیشنل سکریٹریز میں سے خاتون نیشنل سکریٹریز صرف 4 ہیں۔
ترجمہ: سلیم الہندی (حیدرآباد)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 اپریل تا 08 اپریل 2023