قاہرہ امن سربراہی اجلاس غزہ میں انسانی بحران کو حل کرنے میں ناکام
تنازع سے فوری طور پر نہ نمٹا گیا تو یہ ایک بڑے علاقائی تنازع کی شکل اختیار کرسکتا ہے
اسد مرزا
مصر نے مغربی ایشیا میں جاری تنازعہ میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور غزہ میں جاری انسانی بحران کے حل کی کوشش کے طور پر قاہرہ امن سربراہی اجلاس کی میزبانی کی، لیکن اس کا نتیجہ حسب توقع نہیں رہا۔
قاہرہ امن سمٹ،مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی میزبانی میں مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے مشرق میں نئے انتظامی دارالحکومت میں منعقد ہوئی جس میں تقریباً ہر عرب قوم نے شرکت کی اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل گوٹیرس نے ’’اس خوفناک خواب کو ختم کرنے‘‘ کے لیے کارروائی کا مطالبہ کیا، تین فوری اہداف درج کروائے: غزہ پٹی میں محصور شہریوں کو بلا روک ٹوک انسانی امداد کی ترسیل،ان تمام یرغمالیوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی جن کااسرائیل سے اغوا کیا گیا اور تنازع کو بڑھنے سے روکنے کے لیے تشدد پر قابو پانے کی پرعزم کوشش۔‘‘
انہوں نے کہا کہ تنازع صرف دو ریاستی حل سے ختم ہو سکتا ہے، ایک اسرائیلیوں کے لیے اور دوسرا فلسطینیوں کے لیے۔اس سمٹ میں اسرائیل کی نمائندگی نہیں کی گئی، کیونکہ وہ خود کو مظلوم کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے، نہ کہ حملہ آور۔
اگر ہم سربراہی اجلاس میں کی گئی تقریروں پر گہری نظر ڈالیں تو ہمیں اندازہ ہوگا اگرچہ اس نے خطے میں بڑھتے ہوئے غصے کی عکاسی کی ہے،تاہم اس میں اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے والے شریک تھے اور ان میں بھی وہ ممالک جو اکثر ثالث کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ سربراہی اجلاس صرف گفتار کی ایک جگہ تھی جہاں کسی ٹھوس کارروائی کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔
20 اکتوبر کو، اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے ایک تین مرحلوں پر مشتمل منصوبہ پیش کیا جس میں فضائی حملے اورزمینی حملے(manoeuvring)کا مقصد حماس کو کم شدت والے آپریشنز کی مہلت سے قبل جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ گیلنٹ نے کہا کہ ’’غزہ میں ایک نئی ’سیکیورٹی رجیم‘ قائم کی جائے گی جس کے ذریعہ غزہ پٹی میں امور زندگی کو چلانے کی اسرائیلی ذمہ داری کو ختم کیا جائے گا۔
اس بیان پر کسی نے رد عمل ظاہر نہیں کیا، لیکن زیادہ تر عرب رہنماؤں نے اپنے کھوکھلے پن اور متضاد خیالات کو ظاہر کرنا پسند کیا، جب انہوں نے فلسطینیوں کے تحفظ کی بات کی لیکن اسرائیل کے جنگی اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی مربوط حکمت عملی اختیار کرنے یا وضع کرنے سے گریز کیا۔
دوسری طرف عجیب بات یہ ہے کہ یورپی رہنما جو اسرائیل کے دفاع کے حق کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں، فلسطینیوں کے زندہ رہنے کے حق، ان کے دفاع کے حق اور مادر وطن کے حق اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے بارے میں بھول جاتے ہیں۔
اب تک، یورپی حکام نے غزہ کے شہریوں پر اسرائیل کے حملوں کی سنگینی کو اتنی اہمیت نہیں دی ہے اور اس کی بجائے اسرائیل کے دفاع کے حق کی مدافعت کی ہے اور دوسری طرف اسرائیل سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ محصور علاقے میں انسانی امداد پہنچانے کی اجازت دے۔
یورپی رہنماؤں کی طرف سے اختیار کردہ اس متضاد موقف نے اسرائیل کو دفاع کا حق دیا۔ اگرچہ یہ موقف مختلف عرب آوازوں سے متصادم ہے لیکن حقیقت میں عرب آوازیں بھی صرف بیان بازی ہی رہی ہیں اور اسرائیل کے خلاف کوئی تصدیق شدہ یا منصوبہ بند کارروائی نہیں کی گئی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ یہ تنازع وسیع تر علاقائی تنازع میں بدل جائے۔
مزید براں، تقاریر نے یہ بھی ظاہر کیا کہ سربراہی اجلاس کے میزبان مصر کو دوسری چیزوں کے علاوہ خاص طور پر جس چیز کا خدشہ ہے وہ یہ ہے کہ اس کی سرزمین میں فلسطینیوں کی بڑی تعداد میں آمد ہوسکتی ہے،جس سے فلسطینی ریاست کی امیدوں کو شدید نقصان پہنچے گا۔ مصر کو خدشہ ہے کہ بڑے پیمانے پر اخراج سے عسکریت پسندوں کو سینائی میں لانے کا خطرہ پیدا ہو گا، جہاں سے وہ اسرائیل پر حملے شروع کر سکتے ہیں، جس سے اسرائیل کے ساتھ اس کے امن معاہدے کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔
اسی بنیاد پر، اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے، جن کے ملک کا اسرائیل کے ساتھ سفارتی ربط ضبط ہے، فلسطینیوں کی جبری بے گھری کو ’مطلق مسترد‘ کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ انہوں نے کہا ’’بین الاقوامی قانون کے مطابق یہ جنگی جرم ہے اور ہم سب کے لیے سرخ لکیر ہے۔‘‘ تاہم انہوں نے فلسطینی کاز کی حمایت میں کوئی ٹھوس بیان دینے سے گریز کیا۔
عرب ممالک بھی خوفزدہ ہیں، اور اس لحاظ سے وہ غلط نہیں ہیں کہ کہیں 1948 کی جنگ کےدوران کے حالات کا اعادہ نہ ہوجائے جب تقریباً 700,000 لوگوں نے نقل مکانی کی تھی یا بے دخل کیے گئے تھے۔ فلسطینی اس واقعہ کو ’نکبہ‘ (نسلی صفایہ یا تباہی) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ان پناہ گزینوں اور ان کی اولادوں کو، جن کی تعداد اب تقریباً 60 لاکھ ہے، کبھی بھی واپس جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
دریں اثناء رائٹرز نے اطلاع دی کہ چین کی پیپلز لبریشن آرمی (PLA) نے مشرق وسطیٰ میں بحری جنگی جہازوں کو تعینات کیا ہے کیونکہ خطے میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔
یہ پیشرفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب امریکہ نے اپنے جدید ترین کیریئر یو ایس ایس جیرالڈ آر فورڈ کو ایک جنگی گروپ کے ساتھ مغربی ایشیا کے خطے میں بھیجا ہے۔
واشنگٹن اسرائیل کو A-10 Warthog اور F-15E حملہ آور طیاروں کے ساتھ مہٹ] جدید ترین جنگی سازوسامان کے ذریعہ سے بھی مدد کر رہا ہے کیونکہ بنجمن نیتن یاہو کی زیرقیادت حکومت غزہ پر جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے۔
یہ پیش رفت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر تنازع کو فوری طور پر نہ نمٹایا گیا، تو یہ ایک بڑے علاقائی تنازعے کی شکل اختیار کرسکتا ہے، جو دیگر علاقائی طاقتوں کو اپنے دائرے میں لاسکتا ہے۔
اس دوران، ایک اور تشویشناک رجحان، جو تازہ ترین تنازع کے بعد دیکھا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ جو لوگ فلسطینیوں کے حق میں بات کر رہے ہیں، انہیں بہت تیزی سے برطرف کیا جا رہا ہے۔ ایک سرکردہ ٹیکنالوجی کانفرنس کے سی ای او کو سوشل میڈیا پر اسرائیل کے خلاف موقف اختیار کرنے پر ردعمل کی شدید لہر کے باعث مستعفی ہوجانا پڑا۔انہوں نے یہ تبصرہ کیا تھا کہ اسرائیل نے ’’جنگی جرائم‘‘ کا ارتکاب کیا ہے اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی کی ہے۔
پیڈی کوسگریو، جو لزبن و پرتگال میں ہزاروں سرکردہ ٹیک اسٹارٹ اپس اور فرموں کو اکھٹا کرنے والی کمپنی کے شریک بانی ہیں، انہوں نے اسپانسرز اور شرکاء کی جانب سے ردعمل ملنے کے بعد استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے ذاتی خیالات ’’ایونٹ میں خلفشار‘‘ کا سبب بن گئے اوریہ کہ ’’کسی بھی قسم کی تکلیف‘‘ کے لئے وہ معذرت چاہتے ہیں۔
دوسری طرف گزشتہ دنوں ایک خط میں، کیٹ بلانشیٹ اور سوسن سارینڈن سمیت ہالی ووڈ کے درجنوں اداکاروں اور اداکاراؤں نے امریکی صدر جو بائیڈن کو خط لکھ کر غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے پر زور دیا ہے۔یہ تبدیلی اس پس منظر میں سامنے آئی ہے کہ بہت سے کاروباری ایگزیکیٹوز نے ہارورڈ کے طلباء کو بلیک لسٹ کرنے کا عندیہ دیا ہے جن کا تعلق ان گروپوں سے ہے جنہوں نے ایک خط پر دستخط کیے تھے جس میں اسرائیل کو تازہ ترین تشدد کے پھیلنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا، جبکہ متعدد فلسطین کے حامی صحافیوں کو ایکس پر اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بنانے والی پوسٹس کی وجہ سے معطل یا برطرف کر دیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کے حامیوں کا کہنا ہے کہ کارپوریٹ ردعمل نے فلسطینیوں کے لیے حمایت کا اظہار کرنے والے کارکنوں کے لیے خوف کی فضا پیدا کی ہے۔ یہودی گروہوں نے 7 اکتوبر کو حماس کے حملے پر نرم ردعمل یا سست ردعمل پر تنقید کی ہے۔
دی کونسل آن امریکن-اسلامک ریلیشنز نے جو مسلم شہریوں کی آزادیوں کی وکالت کرنے والی ملک کی سب سے بڑی تنظیم ہے، طلباء کے خلاف ردعمل اور امریکی کارپوریٹ رہنماؤں کے بیانات کی مذمت کی ہے ۔
ان تمام پیش رفتوں کو اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آج کی دنیا میں نام نہاد ترقی یافتہ اور آزاد قومیں اب بھی اپنے تنازعات کو ثالثی کے ذریعے حل کرنے یا مصالحانہ رویہ اختیار کرنے کے بجائے خون بہانے پر یقین رکھتی ہیں اور اس سے ان کی پالیسیوں کا کھوکھلا پن اور تضاد پوری طرح عیاں ہوجاتا ہے جو سیاسی نظام اور مستقبل کے لیے خوش آئند نہیں ہے۔
(بشکریہ : انڈیا ٹومارو ڈاٹ نیٹ)
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 نومبر تا 11 نومبر 2023