خبر و نظر

پرواز رحمانی

برصغیر میں دینی مدارس

برصغیر ہند وپاک میں دینی مدارس کے قیام کا ہمیشہ سے رواج رہا ہے۔ اس کی روایت مسلم دور حکومت میں پڑی تھی جو بعد میں بھی قائم رہی اور آج تک قائم ہے۔ بحمداللہ آج بھی ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں دینی مدارس کا جال پھیلا ہوا ہے۔ یہ مدارس ہر سطح کے ہیں جو ابتدائی قواعد سے لے کر تخصص قرآن تک ہیں۔ یہاں قرآن و حدیث کی بنیاد پر وضع کردہ علوم پڑھائے جاتے ہیں جو انسانی زندگی کے ہر گوشے اور ہر پہلو کا احاطہ کرتے ہیں۔ حال ہی میں یو پی کی حکومت نے اسلامی مدارس کے سروے کا کھیل شروع کیا ہے جو درحقیقت حکمراں طبقے کی مسلم مخالف پالیسی کا مشغلہ ہے۔ اگرچہ کچھ مدارس کے سرپرست اس سروے کی حمایت بھی کر رہے ہیں اور اس بنیاد پر کر رہے ہیں کہ اس بہانے حکومت اور عوام کو مدارس کی حقیقت بھی معلوم ہو جائے گی اور وہ پروپیگنڈا جو اسلام اور مدارس اسلامیہ کے خلاف کیا جاتا ہے، اپنے آپ ختم یا کم ہو جائے گا۔ پھر مدارس کے ہندو ٹیچر بھی گواہی دے رہے ہیں کہ مدارس میں کوئی غلط کام نہیں ہوتا۔ کہا جاتا ہے کہ یو پی اور بہار کے ان مدرسوں میں جنہیں تنخواہوں کی حد تک حکومت کی امداد ملتی ہے چالیس فیصد غیر مسلم اساتذہ ہیں جو ہندی، انگلش اور ریاضی پڑھاتے ہیں۔ دینی تعلیم کا کچھ حصہ ان ٹیچروں کو بھی بتایا جاتا ہے۔

مدارس کی تحقیقات

یہ نہیں کہ ان مدارس کے نظام اور انصاف اور طریقوں کی تحقیق نہیں کی گئی، خوب کی گئی۔ ایک زمانے میں جب ان مدرسوں کے خلاف حکومت اور ٹی وی چینلوں نے زبردست مخالف پروپیگنڈا شروع کر رکھا تھا اور کئی ٹی وی چینلوں نے اسٹنگ آپریشن بھی کیا تھا، ہر بات کی تحقیق کی لیکن اپنے مطلب کی کوئی بات انہیں نہیں ملی۔ حقیقت جب سامنے آئی تو بس یہ کہ یہ مدارس چھوٹے بڑے چندوں اور عطیات پر چل رہے ہیں۔ ان میں کوئی غیر قانونی کام نہیں ہوتا۔ لیکن نیوز چینلوں کے مالکین نے کوئی رپورٹ پیش کرنے کی جرات نہیں کی۔ انہیں اندیشہ تھا اور بالکل بجا تھا کہ یہ رپورٹیں عام ہو گئیں تو ان کی سازش خاک میں مل جائے گی اور ان کا الٹا اثر ہو گا۔ اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی، جو وہ نہیں چاہتے۔ اب یو پی حکومت کے سروے کی حقیقت دیکھنی ہو گی کہ اس میں کیا بتایا جاتا ہے اور کیا چھپایا جاتا ہے۔ اگر یو پی حکومت کے اس سروے کی رپورٹ باقاعدہ شائع ہوتی ہے تو مسلم ماہرین کو دیکھنا ہو گا کہ اس میں کہاں کہاں کوتاہی ہوئی ہے اور کہاں کہاں مثبت طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ اگر اس میں کچھ ایسے مثبت پہلو بھی ہوں جو مسلمانوں کو نظر سے اوجھل رہے تو انہیں اختیار کرنے میں تکلف نہیں ہونا چاہیے۔ دینی تعلیمی نظام کو مزید بہتر بنانے کی بہرحال ضرورت ہے۔

ایک بڑی کوتاہی

دینی مدارس کے سلسلے میں امت کے اندر ایک بڑی کوتاہی پائی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ امت کے خواص اور امرا اپنے بچوں کو ان مدارس سے بالعموم دور رکھتے ہیں۔ کہیں بھی دیکھ لیجیے ان مدرسوں میں زیادہ تر غریب اور پسماندہ خاندانوں کے بچے ہی پڑھتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ امیر اور خوشحال گھرانے اپنے بچوں کو عصری تعلیم دلاتے ہیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے بھیجتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں وہ خاندان اور افراد بھی ہیں جو دینی تعلیم کی اہمیت جانتے ہیں۔ مدارس کو عطیات دیتے ہیں۔ بہت سے افراد دینی تعلیم کے مدارس کی انتظامیہ میں بھی شریک ہیں لیکن اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے وہ انگریزی اسکولوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ نظام تعلیم کو مختلف خانوں میں تقسیم کیے جانے کا سب سے زیادہ اثر مسلمانوں پر ہوا۔ دینی اور عصری تعلیم کو یکجا کرنے کا سب سے کامیاب تجربہ جماعت اسلامی ہند نے پچاس کی دہائی میں کیا تھا۔ اس سے پہلے بیچ میں مثالی افراد نکلے جن میں ایک دو آج بھی باحیات ہیں۔ لیکن یہ تجربہ بوجوہ جاری نہیں رہ سکا۔ کیا ہی اچھا ہو اگر جماعت یہ تجربہ زندہ کرے۔ اس سے امرا اور خوشحال گھرانے بھی جو تعلیم کے لیے کالجوں کی طرف دیکھتے ہیں متوجہ ہو سکیں گے۔ مالی لحاظ سے خوشحال خاندانوں کو دینی تعلیم کی طرف بہرحال متوجہ ہونا چاہیے۔