خبرونظر

پرواز رحمانی

سنگھ کیا تھا کیا ہے

انگریزی حکومت میں صرف دو سیاسی پارٹیاں موجود تھیں جنہیں اپوزیشن کہہ سکتے تھے مگر فی الحقیقت وہ اپوزیشن میں نہیں تھیں بلکہ وہ حکومت کے ساتھ تعاون بھی کرتی تھیں اور حسب ضرورت ہندوستانی عوام کے حق میں حکومت پر سخت تنقید بھی کرتی تھیں۔ کانگریس یعنی انڈین نیشنل کانگریس کا قیام ایک انگریز کی سربراہی میں عمل میں آیاتھا۔ ابتدا میں اس کا مقصد حکومت اور ملکی عوام کے مابین بہتر تعلقات پیدا کرنا بتایا جاتا تھا۔ ایک تیسری پارٹی تھی آل انڈیامسلم لیگ۔ اس کاکام حکومت کے ساتھ تعاون کرنا بھی تھا اور وہ تنقید بھی کرتی تھی اور یہ پارٹی بنیادی طور پر مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے قائم ہوئی تھی لیکن وہ عام لوگوں کےمسائل میں بھی دلچسپی رکھتی تھی۔ عین اس ماحول میں 1925میں راشٹرایہ سوئم سیوک سنگھ کا قیام عمل میں آیا۔ یہ سنگٹھن اپر کاسٹ یعنی ہندووں کی اعلیٰ ذاتوں کو جوڑنے اور انہیں مضبوط بنانے کے لیے کام کرتا تھا۔ اسے انگریزی حکومت سے کوئی دشمنی نہیں تھی بلکہ وہ اس کےساتھ دوستی رکھتی تھی۔ جو لوگ حکومت کی مخالفت کرتے تھے یہ ان کے خلاف تھی۔ حکومت کو سامان رسد کی فراہمی اسی کے ذمہ تھی اور بھی بڑے بڑے ٹھیکے حکومت کو اسی سنگٹھن سے ملا کرتے تھے۔ جب کانگریس اور دیگرپارٹیوں نے، جن میں جمیعۃ العلما پیش پیش تھی ، انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی چھیڑی تو آر ایس ایس نے اس کی سخت مخالفت کی تھی اور انگریزوں کو یقین دلایا تھا کہ وہ ان کے ساتھ ہے۔ اس وقت سے اس کی پالیسی یہی ہے۔ اسے وہ دیش بھکتی کہتی ہے۔ آج بھی اس کانعرہ یہی ہے۔ اسے جمہوریت اور ملک کی حقیقی آزادی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

جنگ آزاد ی میں

جنگ آزادی کے دوران جب کانگریس اور دیگرپارٹیاں انگریزی حکومت کے ساتھ کشمکش میں تھیں، آر ایس ایس حکومت کا ساتھ دے رہی تھی اور علانیہ دے رہی تھی۔ پھر جب 15اگست 1947کو ملک آزاد ہوا اور ملک بھر میں خوشیاں منائی گئیں تو سنگھ نے ان میں حصہ نہیں لیا۔ اس نے 1952میں کانگریس کے مقابلہ پر اپنی سیاسی پارٹی بھارتیہ جن سنگھ کے نام سے بنائی۔ انتخابات جیتنے کے لیے اس نے نئے تجربات کیے۔ گاندھی جی کو اپنایا سوشلسٹوں سے دوستی کی۔ جاتی واد مٹانے کی کوشش کی۔ منو سمرتی کو دور کرکے ملکی آئین پر بھروسا جتلایا ڈاکٹر امبیڈکر کو اپنانا چاہا کچھ دن سیکولرازم کا دم بھی بھرا کسی کوشش میں کامیابی نہیں ملی۔ اس کی پالیسی دیش بھکتی اور دیوی دیوتاوں کو عوام کے سامنے پیش کرنے کی رہی، ہندو، مسلم تنازعات کو ہوا دینا اس پارٹی آزمودہ کام ہے۔ گویاپارٹی اپنی طے شدہ پالیسی پر گامزن ہے۔ پالیسی پر گامزن ہونا تو اچھی بات ہے لیکن کمی یہ ہے کہ اس کے پاس ملک اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی نقشہ نہیں ہے۔ آج 2024میں بھی اس کی پالیسی یہی ہے ۔ آج بھی وہ کمزوروں اور مسلمانوں کو دبائے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ علاوہ ازیں اس نے ملک کے تمام وسائل پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ سرکاری ایجنسیوں الیکشن کمیشن، پولیس، بیورو کریسی وغیرہ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔سپریم کورٹ پر اس کا پورا بس تو نہیں ہے لیکن کئی اہم کاموں میں کورٹ اس کے ساتھ ہے۔ مثلاً رام مندر، گیان واپی مسجد، یو پی مدرسہ بورڈایکٹ کا خاتمہ۔ سب سے خطرناک چیز حکومت کے ہاتھ میں ای وی ایم ہے۔

ای وی ایم کا کیا ہوگا

گزشتہ سال آر ایس ایس نے اپنے ترجمان اخبار آرگنائزر میں ایک مضمون لکھ کر ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔ لکھا تھا کہ اب انتخابات میں صرف مودی کا چہرہ کا م نہیں کرے گا۔ مقامی لیڈر شپ کو بھی آگے بڑھانا چاہیے۔ اس پر ملک میں ایک زور دار بحث چھڑگئی تھی۔ کہا جارہا تھا کہ سنگھ کو اب مودی پر اعتبار نہیں لیکن مودی کو پریشانی نہ تھی۔ مودی جی نے ای ڈی کو اپوزیشن کے پیچھے لگادیا اور سیکڑوں لیڈروں کو گرفتار کرلیا۔ الکشن کمیشن میں ا ی وی ایم پر اپنی مضبوط کرلی۔ کہا جاتا ہے کہ ای وی ایم ہے تو مودی ہے۔ تین ریاستوں کےانتخابات بھی بی جے پی نے ای وی ایم کے سہارے ہی جیتے تھے ۔ اس طرح مودی نے سنگھ کو یہ پیغام بھی دے دیا کہ اگرتم نے مجھے دور کردیا تو میں اپنی پارٹی بنالوں گا۔ اب تو ای وی ایم کے خلاف سپریم کورٹ کے وکیل بھی میدان میں آگئے ہیں۔ لیکن اس کے خلاف اپوزیشن میں ابھی پورا زور نہیں آیا شاید اس لیے کہ ہر بڑی پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ اس کی باری آنے پر وہ بھی یہی کرے گی۔ لیکن یہ زور پیدا ہو بھی سکتا ہے وکیلوں کی تحریک آگے بڑھ بھی سکتی ہے۔ آر ایس ایس کےبارے میں نہیں معلوم کہ اب کیا کرے گی۔ بڑی اپوزیشن پارٹیاں بھی اب ای وی ایم کو سمجھنے کی کوشش کررہی ہیں لیکن سنگھ کی سوچ واضح نہیں ہے۔