خبرونظر
پرواز رحمانی
بنارس کی گیان واپی مسجد
بنارس کی گیان واپی مسجد کے مقدمے میں بنارس کی مقامی عدالت نے جو فیصلہ سنایا ہے وہ اندیشوں کے عین مطابق ہے۔ فیصلہ یہ ہے کہ مسجد کے تہہ خانے میں ہندوؤں کو پوجا پاٹھ کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ججوں نے ڈی ایم کو حکم دیا ہے کہ تہہ خانے میں پوجا کا انتظام کرے۔ ڈی ایم نے اس تیزی کے ساتھ انتظام کیا کہ فیصلے کے محض نو گھنٹوں بعد وہاں پوجا پاٹھ شروع ہوگئی۔ لوکل کورٹ کی خبر سن کر مسجد انتظامیہ کمیٹی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ سپریم کورٹ نے ان سے کہا کہ وہ ہائی کورٹ جائیں۔ ہائی کورٹ نے مقامی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا مگر اس سے پہلے ہی مسجد کے تہہ خانے میں سرگرمیاں شروع ہوچکی تھیں۔ مخالف فریق نے خوشیاں منانا شروع کردی تھیں۔ گویا سپریم کورٹ نے جو طرز عمل بابری مسجد کے سلسلے میں اختیار کیا تھا وہی گیان واپی مسجد کے بارے میں بھی اختیار کیا۔ بابری مسجد کے مقدمے کے ہر مرحلے میں سپریم کورٹ نے ہندو پریشد کی طرف جھکاو رکھا۔ اس پر مشہور جرنلسٹ سدھارتھ وردا راجن اور جے این یو کے پروفیسر نے ایک ویڈیو میں بڑی مدلل گفتگو کی ہے۔ سب سے دلچسپ حتمی مقدمے کا فیصلہ ہے کہ ایک طرف تو کورٹ نے تسلیم کیا کہ بابری مسجد کسی مندر کو منہدم کرکے نہیں بنائی گئی اور وہ جگہ شری رام کی جائے پیدائش بھی نہیں ہے، اس لیے مسلمانوں کا مقدمہ معقول ہے لیکن اس کے باوجود مسجد کی جگہ ہندو پریشد کے حوالے کردی۔ اسی لیے بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ رام مندر وشو ہندو پریشد یا نریندر مودی نے نہیں، سپریم کورٹ نے بنوایا ہے۔ بنارس کی مسجد کے دیگر تہہ خانوں کے سروے کی بات بھی کی جارہی ہے۔ گویا اس مسجد کو بھی اسی انجام تک پہنچانا ہے جو بابری مسجد کا ہوا۔ یعنی ایک کے بعد ایک مسجد، درگاہ یا قبرستان کی باری آنے والی ہے۔
سپریم کورٹ کیوں
درست ہے کہ بابری مسجد کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرنے کی بات مسلم فریق ہی نے کی تھی، اس لیے کہ ہندو فریق بات چیت میں سنجیدہ نہیں تھا۔ مذاکرات کی میز پر وہ لوگ ہمیشہ الٹی سیدھی باتیں کرتے تھے، غیر متعلق اور لا یعنی مسائل اٹھاتے تھے۔ اصل مسئلہ پر بات ہی نہیں کرتے تھے، جب مسلم دانشوروں کے دلائل سے زچ ہوجاتے تو یہ کہہ کر اٹھ جاتے کہ یہ ہندووں کی آستھا کا مسئلہ ہے اس پر بات نہیں ہو سکتی۔ کچھ دن بعد پھر مذاکرات کی بات کی جاتی۔ مذاکرات کے نام پر اس طرح وہ لوگ مسلم لیڈر شپ کو ٹہلاتے رہے، اس عمل کو طویل سے طویل تر کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے مسلم لیڈر شپ نے یہ کہہ کر ان لوگوں کی شرارتیں روک دیں کہ اب فیصلہ سپریم کورٹ میں ہوگا۔ سپریم کورٹ سے یہی امید تھی کہ انصاف سے کام لیا جائے گا لیکن فیصلہ عجیب و غریب آیا۔ اب مسلمانوں کا موقف یہ ہے کہ کورٹ نے فیصلہ ہندو فریق کے حق میں بھلے ہی دے دیا ہو، وہ جگہ جہاں بابری مسجد قائم تھی اور اب جسے توڑ دیا گیا ہے، مسجد ہی ہے، اس لیے کہ مسجد کسی مندر کو توڑ کر یا کسی کی جگہ چھین کرکے یا کسی کی جگہ پر قبضہ کرکے بنانا منع ہے، غیر قانونی ہے، وہاں نماز نہیں ہو سکتی۔ شریعت کی یہ حقیقت وہ لوگ بھی جانتے تھے جنہوں نے اس وقت مسجد بنائی تھی۔ اس وقت بھی علما اور دانشور موجود تھے جو خوب جانتے تھے کہ غیر قانونی طریقے سے بنائی گئی مسجد، مسجد نہیں ہوتی اور آج کے علما اور عام مسلمان بھی جانتے ہیں کہ کسی مندر کو توڑ کر یا کوئی جگہ زبردستی چھین کر مسجد نہیں بنائی جاسکتی۔ بابری مسجد قانونی طور پر جگہ حاصل کرکے بنائی گئی تھی۔ اس لیے مسلمان یہ موقف رکھتے ہیں اور جہاں ایک بار مسجد بن جائے وہ ہمیشہ کے لیے مسجد ہوتی ہے۔ اس لیے مسلمان اس جگہ کو مسجد ہی سمجھتے ہیں بھلے ہی اسے توڑ دیا گیا ہو۔
مساجد کے دروازے وا کیجیے
اعمال صالحہ کے لحاظ سے ہندوستانی مسلمانوں کے اندر کئی کمیاں گنائی جا سکتی ہیں، ایک طرف جہاں مساجد پانچوں وقت بھری ہوئی ہوتی ہیں وہیں بہت سے بے نمازی بھی ہمارے گرد و پیش موجود ہیں۔ الکحل کے عادی بہت سے پائے جاتے ہیں۔ ان کمیوں کے باوجود ان کے اندر بہت سی خوبیاں بھی ہیں۔ ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ قرآن، مسجد اور عظمت رسولؐ کے سلسلے میں مسلمان بہت حساس اور غیرت مند واقع ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایودھیا میں پانچ سو سال قدیم مسجد کے لیے ان کے دل کا درد مرا نہیں ہے۔ اس جگہ کو وہ آج بھی مسجد ہی سمجھتے ہیں جو کہ فی الواقع ہے۔ قرآن مجید کا احترام جتنا مسلمان کرتے ہیں دنیا میں کسی مذہبی کتاب کا نہیں کیا جاتا۔ رسول کی شان میں مسلمان کوئی گستاخی برادشت نہیں کرسکتا۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اگر اسلام اور اسلامی احکام کو غیر مسلموں نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی تو مسلمان بھی بے عمل رہے، انہوں نے بھی سمجھانے کی کوشش نہیں کی۔ قوم مسلم کا سب سے بڑا سانحہ یہی ہے کہ اتنی بڑی تعداد رکھنے کے باوجود مسلمان اپنے ہم وطنوں کو اسلام سے متعارف نہیں کرواسکے۔ اس لیے آج مشکلات سے دوچار ہیں۔ بادشاہوں اور نوابوں نے کام تو بہت سے کیے لیکن دین حق کے تعارف کا خیال انہیں نہیں آیا۔ اس سر زمین پر اسلام تاجروں اور سیاحوں کی وجہ سے پھیلا۔ با عمل مسلمانوں کا طرز عمل اور طرز زندگی نماز کا عمل اور زکوٰۃ کا طریق کار دیکھ کر مقامی آبادی اسلام کی طرف متوجہ ہوئی۔ آج بھی موقع ہے کہ لوگوں کو مسجد کی زندگی سے باخبر کیا جائے، بتایا جائے کہ نماز کیا ہوتی ہے اور کیسے ادا کی جاتی ہے۔ نماز میں کیا پڑھا جاتا ہے۔ امریکہ اور یوروپ میں یہ کام ہوتا ہے۔ غیر مسلم بھائیوں کو مسجدوں میں مدعو کرتے ہیں۔ اس سے غیر مسلمانوں کی غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں۔