فلسطینی مظالم پر اہل ادب کی خامہ فرسائیاں

شعراء کرام کے اشعار اور ادیبوں کی مختلف اصناف سخن نے تاریخی واقعات کو زندہ جاوید بنادیا

ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی
سابق صدر ادارہ ادب اسلامی ہند

آج ساری دنیا میں حق و صداقت کے خلاف محاذ آرائی ہے، ارض فلسطین کے دشت و دامن پچھتر سال سے لہو لہو ہیں، ادھر 4ماہ سے اسرائیلی جارحیت تمام حدود پار کر چکی ہے۔ گزشتہ سالوں میں سرزمین عراق و افغانستان، بوسینیا اور چیچنیا، ہر جگہ جنگ و جدال اور حقوق انسانی کی پامالی ہوتی رہی ہے۔ فلسطین کے خوں چکاں حالات اور قبلہ اول کی بازیابی کے تعلق سے گزشتہ نصف صدی کے اردو ادب میں جو عظیم شعری ادب وجود پذیر ہوا ہےوہ قابل ذکر ہے ۔
شعرا کرام جو فطری طور پر بڑے حساس اور نازک مزاج ہوتے ہیں، ان کی طبیعتیں حالات سے جلد متاثر ہوتی ہیں۔ اسی لیے انہوں نے فلسطین کے قبضے پر بہت سی نظمیں کہی ہیں۔ چند برس قبل جناب انتظار نعیم نے ’اے ارضِ فلسطین‘ کے عنوان سے فلسطین پر لکھی سیکڑوں نظموں میں سے ایک انتخاب شائع کیا تھا۔ وہ مرتب کے دیباچے کے ساتھ 64 نظموں پر مشتمل ہے۔ اس مجموعے کی پہلی نظم نعیم صدیقی کی ہے، جس کا عنوان ’پروشلم‘ ہے۔ ہم یہاں صرف چند نظموں کے اقتباسات پیش کریں گے، جس سے اندازہ ہوگا کہ مسئلہ فلسطین نے اردو شاعری پر کیا کچھ اثر ڈالا ہے۔ علامہ اقبال نے فلسطین کے عربوں سے مخاطب ہوکر ایک نظم کہی تھی:
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے
تری دَوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یَہود میں ہے
اقبال نے اہل فلسطین کو خطاب کرتے ہوئے خودی کی پرورش اور لذت نمود کو امتوں کی ترقی اور غلامی سے نجات کا ذریعہ قرار دیا ہے:
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے
فیض احمد فیض کی ایک نظم ہے ’فلسطین کے مجاہدوں کے نام‘ جو جون 1938 میں لکھی گئی تھی، ملاحظہ کیجیے:
ہم جیتیں گے
حقاً ہم اک دن جیتیں گے
بالآخر اک دن جیتیں گے
کیا خوف ز یلغار اعدا
ہے سینہ سپر ہر غازی کا
کیا خوف ز یورش جیش قضا
صف بستہ ہیں ارواح الشہدا
ڈر کاہے کا
ہم جیتیں گے
حقاً ہم اک دن جیتیں گے
قد جاء الحق و زھق الباطل
فرمودۂ رب اکبر
ہے جنت اپنے پاؤں تلے
اور سایۂ رحمت سر پر ہے
پھر کیا ڈر ہے
ہم جیتیں گے
حقاً ہم اک دن جیتیں گے
الآخر اک دن جیتیں گے
اس مجموعہ میں شامل محسن انصاری، ادا جعفری، ایوب بسمل، ف، س اعجاز، کوثر صدیقی، رفعت سروش، قیصر الجعفری، عرفان جعفری، اسلم غازی وغیرہ کی فلسطین پر نظمیں میرے سامنے ہیں۔ 4 مہینے ہوگئے، آج بھی فلسطین میں اسرائیل کی وحشیانہ بم باری جاری ہے۔ جس میں ہزاروں بچے اور خواتین شہید ہو چکے ہیں، جس پر ساری انصاف پسند دنیا سراپا احتجاج ہے۔ ان 4 مہینوں میں اردو کے شعرا نے بھی بڑی تعداد میں شعری پیرائے میں اپنا احتجاج درج کرایا ہے۔ اگر ان سب کو جمع کیا جائے تو فلسطین کے مسئلے پر دو تین مجموعے بہ آسانی تیار ہوسکتے ہیں۔ اس پس منظر میں عائشہ مسرور نے ’نئی لوری‘ کے عنوان سے ایک نم ناک نظم کہی ہے، خیمہ کے اندر ایک ماں اپنے بچے کو لوری سنا رہی ہے:
اے میرے نور عین! جاگ
اے میرے دل کے چین! جاگ
تیرا شفیق باپ تو جنگ میں کام آگیا
تشنہ دہن کے ہاتھ میں موت کا جام آگیا
دشت و دمن لہو لہو
سارا وطن لہو لہو
صحن چمن لہو لہو
قوم بچھڑ کے رہ گئی
ساکھ بگڑ کے رہ گئی
مانگ اُجڑ کے رہ گئی
اب آئیے اردو فکشن یعنی افسانہ، ڈرامہ اور ناول کی طرف اس پہلو سے جب ہم ان اصناف کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ فکشن نگاروں نے بھی اپنی تخلیقات میں فسادات، بدامنی، جنگ و جدل، نفرت و عداوت، فسطائیت کے درمیان حقوق انسانی کی پامالی پر بھرپور اظہارِ خیال کیا ہے جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے ۔ تقسیم ہندکے بعد فسادات اور ہجرت نے سیکڑوں مسائل پیدا کردیے اور معاشی و معاشرتی نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا ترقی پسندوں نے خاص طور سے اپنے ناول و افسانہ میں اس لایعنی فسادات اور لوٹ مار کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس سلسلے میں کرشن چندر اور سعادت حسن منٹو کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ بہ قول ڈاکٹر ابن فرید ’’کرشن چندر کے مقابلے میں منٹو نے فن کو برقرار رکھنے کی زیادہ کوشش کی، فسادات سے متعلق ان کے مختصر ترین افسانے اردو ادب کے لیے بڑا اہم تجربہ ہیں، یہ مختصر ترین افسانے ’سیاہ حاشیے‘ کے نام سے ایک مجموعے کی شکل میں شائع ہوئے۔ منٹو اپنی ذہنی پختگی کی معراج پر تھے، وہ کم سے کم الفاظ میں بڑے سے بڑا قرطاس پیش کردیتے تھے۔ اردو افسانے میں اس طرح کاتجربہ اس سے پہلے نہیں کیا گیا تھا۔‘‘لیکن خود ڈاکٹر ابن فرید کا ایک افسانوی مجموعہ ’خوں آشام‘ شائع ہوا ہے، جس میں شامل تمام افسانے فسادات کے موضوع پر ہیں اور مصنف کے تعمیری و اسلامی فکر کی بھرپور نمائندگی کرتے ہیں۔ اس طرح چند برسوں قبل زبیر رضوی نے ’فسادات کے افسانے‘ کے عنوان سے ایک افسانوی مجموعہ شائع کیا تھا۔ جو ملک کے 42 معروف و مستند اور معتبر افسانہ نگاروں کے فرقہ وارانہ فسادات پر لکھے افسانوں کا ایک خوب صورت انتخاب ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ تمام تحریریں ایک المیہ اور سانحہ بن کر ہر قاری کے دل میں درد مندی کے جذبے کو ابھارتی ہیں۔
اسی طرح اردو ڈراموں میں عصمت چغتائی کے ڈرامے ’دھانی بانکپن‘ میں نہ صرف فسادات سے پیدا ہونے والے ماحول کی دہشت انگیزی کو پیش کیا گیا ہے بلکہ مل جل کر رہنے کا پیغام بھی دیا گیا ہے۔ فیض احمد نے ’لاشیں‘ میں فسادات پر احتجاج کیا ہے، جاوید اقبال کا ’سفر‘ اور قدوس صہبائی کا ’گاؤں واپس جائیں گے‘ بھی فسادات اور ہجرت کے متعلق ڈرامے ہیں۔ خواجہ احمد عباس کا ڈرامہ ’ایٹم بم سے پہلے اور ایٹم بم کے بعد‘ ریوتی سرن شرما نے ’شکست‘ اور ابراہیم یوسف کا ڈرامہ ’طمانچہ‘ قابل ذکر ہے، جس میں عام طور سے جنگ اور مابعد جنگ کے اثرات کو پیش کیا گیا ہے۔جنگ عظیم ثانی کے موضوع پر لکھے گئے افسانوں اور ڈراموں کے اس ذکر کے بعد ایک اہم ناول کاذکر بھی ضروری ہے، جس کے متعلق ڈاکٹر ابن فرید لکھتے ہیں:
اردو ادب میں جنگ عظیم ثانی اتنے نمایاں انداز میں ضبط تحریر میں نہ آ سکی، چند ایک ڈرامے اور افسانے ضرور اس موضوع پر مل جاتے ہیں لیکن سید اسعد گیلانی کا ناول ’جہنم کے دروازوں پر‘ کے علاوہ کوئی قابل اعتنا ناول نہیں لکھا گیا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ادھر جنگ عظیم دوم ختم ہورہی تھی اور ادھر تقسیم ہند کے مسئلے نے شدت اختیار کر لی تھی۔‘‘ یہ سچ ہے کہ جب صبح آزادی کے طلوع کے ساتھ مذہب کے نام پر نفرت، فسادات، درندگی، اور حقوق انسانی کی پامالی کا بھیانک رقص شروع ہوا تو رامانند ساگر نے ’اور انسان مر گیا‘ اور کرشن چندر نے ’غدار‘ جیسے ناول لکھ کر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔اب میں صلاح الدین پرویز کے ایک ناول ’دی وار جرنلس‘ کا خاص طور سے ذکر کرنا چاہتا ہوں ، جو مصنف کی مخصوص فکرو آہنگ کا نمونہ ہے۔ یہ ناول دراصل موجودہ عالمی معاشرے کے بحران کے وسیلے سے امن عالم کے پیام کی ترسیل اور اپنے عہد کے ضمیر کی بازیافت کی ایک کامیاب کوشش ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ ’دی وار جرنلس‘ میں صلاح الدین پرویز کی تحریر کی ساخت کچھ اس طرح ہے کہ ہم عراق، افغانستان، گجرات اور دوسرے الم ناک سلسلوں کو مہابھارت کے اٹھارہ دنوں کے یودھ کے معنیاتی جزر و مد کو اگر Reshuffle بھی کریں، تب بھی ان میں تہہ نشیں پیڑا اور کراہ کا تسلسل قائم رہے گا۔‘‘
اس دوران گجرات کی مہابھارت کا ذکر بھی اہم ہےاسی لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے فکری پس منظر پر بھی کچھ اشارے کر دیے جائیں جنہوں نے ان مسائل کو جنم دیا ہے۔ موجودہ سیاسی و سماجی صورت حال کا ذکر جناب نایاب حسن نے اپنے ایک مبسوط مقالے ’اردو ناولوں میں فسطائیت‘ کے موضوع پر بہت تفصیل سے کیا ہے۔ یہاں اس کا ایک مختصر اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’۔۔۔ملک کا ایک قابل لحاظ سیاسی ڈھانچہ اور ایک بڑا سماجی حلقہ فسطائی ذہن کا حامل تھا۔ چناں چہ دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت میں فاشزم کے انفرادی و اجتماعی مظاہرے بار بار ہوئے، کئی شہر اس کی مکروہ علامت بن گئے، کئی حکومتیں کھلے عام فاشزم کی نمائندگی کرتی رہیں۔ پھر یہ ہوا کہ سیاسی و سماجی جبر و استحصال بھی دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت کا ایک حوالہ بن گیا، عوام حقوق سے محروم کیے جانے لگے۔ ایک بڑے طبقے کی مذہبی شناخت ظلم و زیادتی کی وجہ بن گئی، لو جہاد، گھر واپسی، غدار وطن، دہشت گرد اور ان سے بھی زیادہ شرم ناک پھبتیاں عام ہو گئیں۔ سیاسی ایوانوں سے چلائے گئے زہر میں بجھے فسطائی تیروں نے چن چن کر کم زور و لاچار شہریوں کا شکار کرنا شروع کیا۔ قوم پرستی کے جنون نے ملک کی اکثریت کو ہجوم میں بدل دیا اور پھر ہجومی قبل (ماب لنچنگ) کا نہایت سفاک سلسلہ شروع ہوا جو بتدریج معمول کے واقعہ میں تبدیل ہوگیا ہے۔‘‘
موجودہ دور کے ان ناگفتہ بہ حالات نے زیادہ تر اہل قلم کو مصلحت اندیش بنا دیا مگر کچھ ایسے جیالے اور بہادر اہل قلم بھی ہمارے سامنے آئے ہیں جنہوں نے سماج و سیاست کو ہمت و حوصلے کے ساتھ آئینہ دکھایا ہے، ایسے ناول نگاروں میں ایک اہم نام مشرف عالم ذوقی کا ہے، ’آتش رفتہ کا سراغ‘ ان کا ایک ضخیم ناول ہے، پنپنے والی نفرت، فرضی انکاؤنٹر، دہشت گردانہ دھماکوں میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاری اور سماجی سطح پر پھیلائی گئی فرقہ واریت کو بڑی مہارت سے پیش کیا ہے۔ اسی طرح 2019 میں شائع ہونے والے ذوقی کے ناول ’مرگ انبوہ‘ کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی، جس میں ہندستانی مسلمانوں پر بیتنے والے سانحات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
رحمان عباس کا ناول ’نخلستان کی تلاش‘ 2004 میں شائع ہوا تھا، اس ناول میں بھی سماجی و سیاسی فسطائیت کے نتیجے میں برپا ہونے والے فسادات، کشمیر میں پھیلتی بد امنی، بابری مسجد کا سانحہ، ممبئی دھماکوں اور مسلم نوجوانوں کے بدلتے ذہنی احوال کو موضوعِ گفتگو بنایا گیا ہے۔ ایک ناول ’روحزن‘ بھی بہت مشہور ہوا ہے، جس پر 2018 کا ساہتیہ اکادمی ایوارڈ بھی ملا تھا۔ جس کی اصل کہانی بنیادی طور پر ممبئی، اس کے مضافات کی ہنگامہ خیز زندگی اور طوفان ابر و باد سے نکلی ہے۔
عبدالصمد ہمارے عہد کے معروف و مقبول ناول نگار ہیں۔ ان کا مشہور ناول ’دو گز زمیں‘ جس پر ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا، تقسیم ہند اور مہاجرت کے المیہ پر مبنی ہے۔ ان کا ایک ناول ’اجالوں کی سیاہی‘ مسلم معاشرے سے جڑی بعض خامیوں اور اکثریتی طبقے کی فسطائی ذہنیت سے اس کی کش مکش پر مرکوز ہے۔ اس ناول میں انہوں نے خاص طور سے لو جہاد جیسی متعصبانہ سیاسی تعبیر، سماجی اثرات اور مسلم نوجوانوں کے گھرانوں کو جن اندوہ ناک نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں بہت تفصیل سے بیان کیا ہے۔
موجودہ دور میں دوسرے چند ناول اور بھی ہیں، جس میں عصری سیاسی و سماجی مسائل اور جستہ جستہ فسطائیت کی مختلف شکلوں پر تخلیقی اظہار ہوا ہے۔ مثال کے طور پر صدیق عالم کا ’مرز بوم‘ ترنم ریاض کا ’برف آشنا پرندے‘ آصف زہری کا ’زباں بریدہ‘ محمد علیم کا ’میرے ناولوں کی گمشدہ آواز‘ حسین الحق کا ’اماوس میں خواب‘ شموئیل احمد کا ’مہاماری‘ غضنفر کا ’پانی‘ اور سلیم خان کا ’ ہم زاد اور جیتو جلاد‘ جیسے ناولوں میں عصری مسائل کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔
آزادی کے بعد اردو ناول میں لکھے جانے والے فسادات و ہجرت کے حادثات اور گزشتہ ایک دہائی میں رونما ہونے والے فسطائیت کے سنگین حالات پر تفصیلی گفتگو کے بعد اب کچھ آزادی سے پہلے کے واقعات کا ذکر بھی ضروری ہے، جس نے ہندستانی سماج میں حقوق انسانی کی پامالی، وہ ظلم و جبر پر مبنی زمین داری، تعلق داری اور جاگیرداری کا نظام تھا۔ سماج کے کم زور طبقوں خصوصاً عورتوں، بچوں، مزدوروں اور کسانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی، غیر انسانی سلوک، گھٹن اور استحصال کے موضوع پر بھی کثرت سے ناول لکھے گئے۔ قاضی عبدالستار نے ’شب گزیدہ‘ اور انور عظیم نے ’دھواں دھواں سویرا‘ میں اس شکست و ریخت کو موضوع بنایا اور فیوڈل سماج کے رشتوں اور قدروں پر کاری ضرب لگائی۔ قرۃ العین حیدر کے ناول ’میرے بھی صنم خانے‘ میں اسی نظام کے ٹوٹنے اور بکھرنے کی صدا سنائی دیتی ہے۔ جیلانی بانو نے اپنے ناول میں حیدرآباد کے جاگیردارانہ نظام کے زوال کی داستان تیکھے احساس کے ساتھ بیان کی ہے، اور وہ اس نظام میں رائج ہر طرح کے استحصال کے خلاف احتجاج بلند کرتی ہیں۔
مختصر یہ کہ بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی دنیا نے نہ صرف دو جنگ عظیم کو دیکھا بلکہ اس کے ساتھ ہی بم کے دھماکوں سے آبادیوں کی مسماری، فوجیوں کے بوٹوں کے نیچے تمام اخلاقی و معاشرتی قدروں کی بے دردی سے پامالی، زندگی کی ناقدری، قتل و غارت گری، فسادات، ہجرت، عورت کا بہیمانہ استحصال اور بچوں کا قتل، یہ سب اتنے بڑے سانحے تھے، جنہیں اردو ادب کے قلم کار کیسے نظر انداز کرتے، چناں چہ انہوں نے اپنی کاوش فکر و تخلیق سے معاصر مسائل کی بہترین عکاسی کی اور اپنے عہد کے حالات و واقعات کی ان تصویروں کو زندہ جاوید بنا دیا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 فروری تا 24 فروری 2024