خبرونظر

خبر و نظر
پرواز رحمانی

ملک کے حالات کا رخ
پورے ملک میں اس وقت ایودھیا میں رام مندر کا سب سے زیادہ شور ہے۔ وزیر اعظم مودی نے اس پروگرام کو مکمل طور سے اپنا ذاتی اونٹ بنالیا ہے جس کا مقصد آنے والے عام انتخابات میں اس کا پروپیگنڈا کرکے ووٹ حاصل کرنا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم کے پروگرام کی مخالفت بھی پوری شدت کے ساتھ کی جارہی ہے۔ مخالفت محض اپوزیشن لیڈروں کی طرف سے نہیں بلکہ دھرم گرووں، شنکر آچاریوں اور دھارمک لوگوں کی طرف سے کی جارہی ہے۔ مودی وادی لوگ اسے صرف مودی کا مندرشپ کر رہے ہیں لیکن پڑھے لکھے لوگ یہ حقیقت بھی بتا رہے ہیں کہ مندر کی تعمیر میں مودی یا حکومت کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ مندر سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی روشنی میں بن رہا ہے۔ یہ فیصلہ بجائے خود متنازعہ ہے۔ فیصلے میں پانچ سو سال قبل یعنی بابری مسجد کی تعمیر کے وقت وہاں کسی مندر کی موجودگی کا ثبوت بتایا گیا نہیں ہے۔ جب مندر تھا ہی نہیں تو توڑا کہاں سے گیا؟ واقعہ یہ ہے کہ وہاں صاف ستھری غیر متنازعہ زمین خرید کر مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ بہت سے دیانت دار مورخین اور مصنفین اس بات کو دہراتے رہتے ہیں لیکن پروپیگنڈا کچھ اس طرح کیا گیا ہے کہ قدیم مندر توڑ کر مسجد بنائی گئی تھی۔ لیکن اب اس اصل وجہ کو چھوڑ کر مودی ایونٹ کی مخالفت اس بنیاد پر کی جا رہی ہے کہ مندر پوری طرح نہیں بنا ہے، ادھورا ہے، اس کا بڑا حصہ بننا باقی ہے اور ادھورے مندر کا افتتاح کوئی نہیں کر سکتا، مودی تو بالکل نہیں کرسکتے اس لیے کہ وہ دھرم گرو نہیں ہیں وہ مندر یا سناتن دھرم کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔ چاروں شنکر آچاریوں اور دیگر دھرم گرووں نے بھی یہی باتیں کہی ہیں۔ عوام کے ایک بڑے طبقے کی جانب سے بھی اس ادھورے مندر اور پی ایم مودی کے ہاتھوں اس کے افتتاح کی خبروں پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ سیکڑوں قسم کے مسائل کھڑے ہوگئے ہیں۔ خاتون صدر جمہوریہ کو دعوت نامہ نہیں بھیجا گیا۔ لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور ادھو ٹھاکرے جیسے لیڈروں کو نہیں بلایا گیا، اور بھی بہت سے قابل ذکر لیڈروں کو دعوت نہیں دی گئی۔
رامندر کا شور
دھرم کے اس نکتہ پر کہ موجودہ صورت حال میں مندر کا افتتاح نہیں کیا جاسکتا، کئی دھرم گرو عدالت جانے کی تیاری کر رہے ہیں بلکہ سپریم کورٹ جانا چاہتے ہیں۔ بہت سے لوگ جن میں جیوتشی بھی شامل ہیں کہہ رہے ہیں کہ ادھورے مندر کے افتتاح سے پورے ملک پر کوئی بھی آفت اور مصیبت آسکتی ہے، بھونچال آسکتا ہے، کوئی خطرناک ملک گیر بیماری پھیل سکتی ہے، شدید مصائب و آلام سے گزرنا پڑ سکتا ہے وغیر۔ یہ کہتے ہوئے بہت سے دھرم گرووں کا لہجہ کرخت ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی مختلف باتیں کہی جارہی ہیں لیکن حکومت مندر ساز کمیٹی پر کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ کچھ لوگوں نے دنگے فساد کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے سخت بیانات جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک صاحب کے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2024 کے الیکشن جیتنے کے لیے یہ حکومت کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ کچھ بھی کرسکتی ہے۔ ایک اور پلوامہ بھی ہوسکتا ہے۔ حکم راں پارٹی کے کسی بڑے لیڈر کا قتل بھی ہو سکتا ہے۔ کہیں فساد بھی کرایا جا سکتا ہے۔ یہ بات کہ ایودھیا میں رام مندر کا پورا پروگرام محض الیکشن جیتنے کے لیے ہے، سوشل میڈیا پر عام طور سے کہی جا رہی ہے۔ عوام میں اس کا چرچا عام ہے۔ بہت سے مقامی اخبارات کے عام کالموں میں دھرم گرووں اور عام سادھو سنتوں کی جانب سے ببانگ دہل کہا جا رہا ہے کہ اس طریقے سے رام مندر کی تعمیر دھرم شاستروں اور عام دھارمک روایتوں کے خلاف ہے۔ کچھ لوگ حکومت سے اپیل بھی کر رہے ہیں۔ تاریخوں کے لحاظ سے مندر کے نرمان کی تاریخ بدل دی جائے۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ رام نومی کی تاریخ مناسب ترین تاریخ ہے۔ یہ سوال پبلک میں بڑے پیمانے پر اٹھایا جا رہا ہے کہ حکومت کو اس قدر عجلت آخر کیوں ہے۔ اس کا کام تو اس وقت صرف عام انتخابات کی تیاری ہونا چاہیے۔
ضبط و تحمل کی ضرورت
انتخابات کی وجہ سے اپوزیشن پارٹیوں کی سرگرمیاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ 14؍ جنوری سے راہول گاندھی اپنی دوسری بھارت جوڑو یاترا کر رہے ہیں۔ اس مرتبہ یاترا کا نام ’’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘‘ رکھا گیا ہے۔ یاترا کانگریس کی ہے لیکن کہا جا رہا ہے کہ اسے ’’انڈیا گٹھ بندھن‘‘ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ نتیش کمار کو گٹھ بندھن کا کنوینر بنائے جانے سے گٹھ بندھن میں مزید گرمی آنے کی امید ہے۔ یہ کام اپوزیشن نے بہت اچھا کیا کہ رام مندر کے پروگرام پر حکم راں پارٹی کے لیڈروں کی اشتعال انگیزی کے باوجود بیان بازی سے دور ہیں۔ سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کے اس اعلان پر کہ وہ اس پروگرام میں شریک نہیں ہوں گے کانگریس والے خاموش ہیں اسی طرح مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ گودی میڈیا بڑے پیمانے پر اشتعال پھیلا رہا ہے۔ پانچ سو سال کی لگاتار کوششوں اور محنت کے بعد ہندووں کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ نئے سرے سےمندر کا نرمان کر رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں نہایت غیر ذمہ دارانہ باتیں بھی کہی جا رہی ہیں۔ اسدالدین اویسی گودی میڈیا کے خاص نشانے پر ہیں۔ وہ اکثر اظہار خیال کرتے ہیں اور جم کر کرتے ہیں مگر یہ میڈیا ان سے مزید کچھ کہلوانا چاہتا ہے۔ بنارس کی گیان واپی مسجد پر ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی غیر ذمہ دارانہ بیان آجاتا ہے۔ کرناٹک میں بی جے پی کے لیڈر نے مسلمانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ از خود متھرا اور بنارس کی مسجدوں سے دستبردار ہوجائیں ورنہ حالات خراب ہوسکتے ہیں۔ مسلم رہنماوں کی دور اندیشی اور معاملہ فہمی ہے کہ ان اشتعال انگیزیوں پر خاموش ہیں۔ یہی رویہ مناسب ہے۔ حالات بدلتے رہتے ہیں۔ عام مسلمان بھی دین و ایمان پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں۔ دینی احکام سے غافل نہ ہوں۔ اشتعال انگیزیوں میں صبر و ضبط سے کام لیں۔ اللہ رحمان و رحیم بھی ہے اور منتقم بھی ہے۔