خبرونظر

پرواز رحمانی

غزہ میں خوں ریزی
7؍ اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل کی ایک بستی پر راکٹوں سے جو حملہ کیا تھا وہ ایک انتہائی جوابی کارروائی تھی۔ اسرائیلی فوج رہ رہ کر غزہ پر ہلاکت خیز حملے کر رہی تھی۔ یہ سلسلہ طویل ہوتا جا رہا تھا۔ بالآخر حماس کے جنگی شعبے نے یہ حملہ کر دیا جس میں اسرئیل کے کئی سو فوجی مارے گئے۔ اس کارروائی کی سبھی نے مذمت کی۔ مسلم ملکوں کا موقف یہ ہے کہ اسرائیل اور فلسطین حکومت کو پرامن طریقے سے یہ مسئلہ کرنا چاہیے، خوں ریزی سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ فلسطین ایک آزاد چھوٹی سی ریاست ہے۔ وہاں کئی متحارب گروپ ہیں۔ سب سے بڑا گروپ پی ایل او ہے۔ یہ تنظیم یاسر عرفات مرحوم نے قائم کی تھی۔ ایک معاہدہ کے تحت اسرائیل نے فلسطین کا حصہ پی ایل او کے حوالے کیا تھا، محمود عباس اسی کے لیڈر (صدر) ہیں۔ ان گروپوں میں ایک شعبہ حماس ہے جو اسلامی فکر کے مطابق دعوتی روابط کے ذریعے کام کرتا ہے۔ یہ اسی فکر کے مطابق حسب ضرورت یا مجبوری کے عالم میں، صیہونی یہودیوں سے جنگ بھی کرتا ہے۔ صیہونیت اسرائیل کا سب سے خطرناک تخریب کار گروپ ہے۔ حماس کی لڑائی اسی سے ہوتی ہے۔ اس نے حماس کے تمام لیڈروں کو ایک ایک کرکے ختم کر دیا مگر پھر بھی حماس باقی ہے اور وقتاً فوقتاً صیہونیوں کی جارحیت کا جواب دیتا ہے۔ اس بار کے حماس کے حملے کے بعد اسرائیلی حکومت براہ راست جنگ میں کود پڑی ہے اور ہمیشہ کے مطابق امریکہ، برطانیہ اور کچھ دوسرے بڑے ممالک اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ آغاز میں وزیر اعظم ہند نے بھی اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا تھا لیکن بعد میں دفتر خارجہ کے ایک افسر نے وضاحت کی کہ ہندوستان ہمیشہ فلسطین کے ساتھ رہا ہے اور اس پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ اس کے بعد پی ایم نے بھی فلسطین کے صدر محمود عباس سے بات کی اور فلسطین کی حمایت کا یقین دلایا۔

اسرائیل کی سفاکی
جو لوگ حماس کو دہشت گرد گروپ بتا رہے ہیں وہ حقیقت حال سے بالکل ناواقف ہیں۔ آر ایس ایس اور بی جے پی والے تو اپنی عادت اور دیرینہ پالیسی کے مطابق یہ کام کر رہے ہیں لیکن کچھ جرنلسٹ بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ حماس کا دعوتی شعبہ ایک پرامن روابطی شعبہ ہے اور سرحد پر یہودی آبادی میں بھی کام کرتا ہے۔ اس کے کارکن یہودی خاندانوں کے گھر جاکر ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ بیماریوں کی عیادت کرتے ہیں۔ انہیں دوائیں پہنچاتے ہیں ان کی ضروریات پوری کرتے ہیں اور حسب موقع ان سے اسلام پر گفتگو بھی کرتے ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ فلسطینی علاقوں سے متصل رہنے والے یہودی خاندان اچھے اور پرامن لوگ ہیں۔ فلسطینیوں کے بارے میں اچھے خیالات رکھتے ہیں۔ حماس کے کارکنوں کی باتیں توجہ سے سنتے ہیں۔ بعض اوقات یہ سلسلہ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ اسرائیلی حکومت پریشان ہوجاتی ہے، سرحد بند کر دیتی ہے تاکہ یہودی آبادی حماس والوں سے نہ مل سکے۔ حماس سے جانی دشمنی کی سب سے بڑی وجہ دراصل یہی ہے۔ کچھ عرب ممالک بھی حماس کے اس کردار کو پسند نہیں کرتے۔ اب اسرائیل حماس کو نیست و نابود کردینے کی جو بات کر رہا ہے اس پر عربوں کو کوئی پریشانی نہیں ہے۔ وہ خود بھی حماس سے نالاں ہیں۔ یاسر عرفات کی پی ایل او فلسطین کی محض آزادی چاہتی ہے، اسلامی تاریخ سے اسے کوئی دلچسپی نہیں۔ سات اکتوبر کے حملے کے جواب میں اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے وہ حماس کو کچلنے کی کارروائی ہے۔ غزہ کے ایک بڑے اور قدیم ہسپتال پر حملہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس حملے کی مذمت جب پوری دنیا میں ہونے لگی تو اب کہتا ہے کہ یہ حملہ حماس نے کیا ہے جبکہ حماس والے یہ کام کر ہی نہیں سکتے۔ اس بڑی تعداد میں بچے بھی کام آئے ہیں۔ ویسے بھی غزہ کے حملوں میں بچے مارے جارہے ہیں۔ حماس کو جاننے والے یہ حقیقت جانتے ہیں۔ اسرائیل کی سفاکی سے بھی سب واقف ہیں۔

اطمینان کا ایک پہلو
اطمینان کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں اسرائیلی سفاکی کی مذمت کی جا رہی ہے۔ متعدد ملکوں میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ان مظاہروں میں عیسائی اور دوسری قوموں کے ساتھ یہودی بھی شامل ہیں۔ امریکہ کے یہودی بھی سراپا احتجا ج بنے ہوئے ہیں۔ 19؍ اکتوبر کو امریکی پارلیمنٹ کے سامنے بہت بڑا مظاہرہ ہوا۔ اس میں زیادہ تر یہودی تھے۔ یہ لوگ غزہ پر بمباری کے خلاف خاص طور سے مظاہرہ کر رہے تھے۔ پانچ سو سے زیادہ یہودیوں کو امریکی پولیس نے گرفتار کرلیا۔ آئرلینڈ، اسپین، برازیل اور کئی ملکوں سے مظاہروں کی خبریں ملی ہیں۔ عرب ممالک سمیت مسلم دنیا میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم مودی کے پہلے بیان کے بعد گودی میڈیا بھی حرکت میں آیا تھا اور حماس کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا تھا۔ گودی میڈیا کے لوگ بڑی تعداد میں اسرائیل گئے ہوئے ہیں اور یکطرفہ رپورٹنگ کررہے ہیں۔ لیکن مودی کے دوسرے بیان کے بعد جس میں مودی نے فلسطین کے صدر محمود عباس سے بات چیت کرکے انہیں اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے، مودی میڈیا کا رخ بدل گیا ہے۔ البتہ اسرائیل گیا ہوا میڈیا وہی کچھ بول
رہا ہے جو اسرائیل چاہتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ اسرائیلی خرچ پر وہاں گئے ہوئے ہیں۔ انہیں اسرائیل نے بلایا ہے۔ غزہ پر بمباری کے خلاف خود اسرائیل میں آواز یں اٹھ رہی ہیں۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کے ایک ممبر نے کہا کہ سات اکتوبر کا حماس کا حملہ فلسطین میں  اسرائیل کے ظلم و تشدد کے خلاف تھا۔ امت مسلمہ کی تاریخ آزمائشوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ آزمائش بھی گزر جائے گی اور ان شاء اللہ امت سرخرو ہو کر نکلے گی۔ امت کو فلسطین، خصوصاً حماس کے حق میں دعا گو رہنا چاہیے کہ اللہ انہیں ہمت و حوصلہ دے، انہیں محفوظ رکھے۔ اللہ مسجد اقصیٰ کی حفاظت فرمائے۔ اسے مستقلاً مسلم امت کے لیے وا اور آزاد کردے۔