خبرونظر
پرواز رحمانی
جب انڈیا الائنس کی میٹنگ ہوئی
حال ہی میں انڈیا اتحاد کی ایک اہم میٹنگ ممبئی میں ہوئی۔ عین اسی دوران حکومت نے اعلان کیا کہ پارلیمنٹ کا پنج روزہ اجلاس جلد ہی ہوگا۔ اجلاس کا ایجنڈا نہیں بتایا گیا اور نہ ہی کوئی دوسری بات بتائی گئی، خود بی جے پی کے لوگوں کو بھی نہیں معلوم تھا کہ اجلاس کا موضوع کیا ہے اور یہ کیوں ہو رہا ہے؟ اس لیے اس پر طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہونے لگیں۔ بالآخر معلوم ہوا کہ قانون ساز ایوانوں میں خواتین کے ریزرویشن سے متعلق اجلاس ہے۔ بی جے پی کی کوشش تھی کہ ریزرویشن کا پورا کریڈیٹ خود لے لے لیکن سونیا گاندھی نے اپنی افتتاحی تقریر میں پہلے ہی بتادیا کہ خواتین ریزرویشن بل ان کے خاوند راجیو گاندھی کا تصور تھا۔ بعد میں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اسے ایوان میں پیش کیا، وہ اب بھی پیش ہے موجودہ حکومت اسی کو آگے بڑھا رہی ہے اور ممبروں نے بھی کچھ باتیں کہیں۔ کچھ باتیں ادھر ادھر کی بھی ہوئیں لیکن اجلاس کے چوتھے دن ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔ جیسا کہ بی جے پی کے اجلاسوں میں عموماً ہوتا رہتا ہے۔ دراصل بحث میں چندریان کا ذکر ہورہا تھا اور بی جے پی ممبر پورے کام کا کریڈٹ وزیر اعظم مودی کو دے رہے تھے، اس پر بی ایس پی کے ممبر دانش علی نے ان سائنس دانوں کا نام لیا جنہوں نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ انہوں نے دو مسلم لڑکیوں کا بھی نام لیا جو کہ اس ٹیم میں شامل تھیں اور کہا کہ یہ سبھی لوگ بھی قابل احترام ہیں۔ اس پر بی جے پی ممبر جو کہ دلی سے ہی ہیں وہ بھڑک گئے اور کنور دانش علی کو گالیاں دینا شروع کیں۔ انتہائی نازیبا الفاظ کہے اس پر مسلم ممبروں کے ساتھ بہت سے غیر مسلم ممبر بھی گالیاں بکنے والے ممبر کے خلاف طیش میں آگئے۔ ویڈیو تھوڑی ہی دیر میں وائرل ہوگیا۔ سیکڑوں لوگوں نے سوشل میڈیا پر ٹوئیٹ کرکے اس کی مذمت کی، اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ متعدد اپوزیشن لیڈروں نے رمیش بھدوری کی بدزبانی کی مذمت کی، کچھ لیڈروں نے یہ بھی کہا کہ یہ بی جے پی کا کلچر ہے۔
یہ بھارتی پارلیمنٹ ہے
پارلیمنٹ کی تاریخ میں بازاری گالی گلوچ کا یہ پہلا واقعہ تھا اس لیے لوگ ششدر رہ گئے۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ لوک سبھا میں کسی ایک مسلمان کو نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کو گالیاں دی گئی ہیں اور سبھی مسلمانوں کو ذلیل کیا گیا ہے۔ ایک ممبر نے کہا کہ پورے دیش کا اپمان کہا گیا ہے۔ دوسرے نے کہا کہ آج ساری انسانیت ہی شرمسار ہوگئی ہے۔ غرض بہت سے لوگوں نے بہت کچھ کہا۔ ایوان کے اندر اور باہر بہت سے لوگ بھدوری کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کررہے ہیں، بہت سے لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ واقعے کا اصل ذمہ دار بھدوری نہیں بلکہ نریندر مودی ہیں جو اپنی حکومت کے پہلے دن سے ہی یہ کام انجام دے رہے ہیں لیکن بہت سے افراد کا خیال اب بھی یہی ہے کہ بھدوری کا کچھ نہیں ہوگا اس لیے کہ حکومت اپنے ممبران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی۔ راہل گاندھی نے ایوان سے باہر صرف یہ کہہ دیا تھا کہ پیسے کی لوٹ مار کرنے والے کیا صرف مودی ہوتے ہیں؟ راہل کے خلاف فی الفور کارروائی کی گئی پارلیمنٹ سے نکال دیا گیا مکان خالی کروا گیا۔ دو سال کہ سزا سنا دی گئی لیکن ننگی گالیاں بکنے والے بھدوری کے خلاف کچھ نہیں ہوگا؟ کچھ مبصر یہ کہہ رہے ہیں کہ مس مایاوتی کو حرکت میں آکر خود کارروائی کرنی چاہیے لیکن مایاوتی نے بھی ہلکا پھلکا افسوس ظاہر کردیا اور بس! مرکزی دھارے کے ٹی وی چینلوں نے اس بارے میں کچھ زیادہ نہیں کہا، البتہ سوشل میڈیا اس پورے معاملے کو لگاتار اٹھا رہا ہے۔ واقعے کے دوسرے دن 22 ستمبر کو کانگریس سینئر لیڈر راہل گاندھی نے دلی میں کنور دانش علی سے ملاقات کی اور بھی کئی ملاقاتیوں کا تانتا بندھا رہا دور دور سے لوگ دانش علی کی رہائش گاہ پر آتے رہے۔
مبصرین کیا کہتے ہیں؟
ذمہ دار مبصرین کا کہنا ہے کہ اس قسم کے واقعات منصوبہ بند طریقے سے ہورہے ہیں۔ اس لیے کہ لوک سبھا انتخابات قریب ہیں۔ مودی حکومت کے پاس الیکشن جیتنے کے لیے کوئی کام نہیں ہے اسی لیے اس پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں بڑا ہنگامہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا مگر وہ کام بھی نہ ہو سکا۔ لوک سبھا سے پہلے پانچ ریاستوں کے انتخابات ہونے والے ہیں جہاں بی جے پی کی حالت خستہ بتائی جا رہی ہے۔ لوک سبھا الیکشن میں انڈیا اتحاد نے بی جے پی کو دبا کر رکھ دیا ہے اس لیے پارٹی کے پاس اب فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں بچا ہے۔ ویسے بھی یہ پارٹی ہر الیکشن کے موقع پر اقلیتوں کے خلاف ماحول بناتی رہی ہے اور اسی وجہ سے جیت بھی جاتی ہے۔ لیکن کہا جارہا ہے کہ اس بار یہ فارمولا بھی کام کرنے والا نہیں ہے، اس بار اپوزیشن مکمل تیاری کے ساتھ میدان میں اتر رہی ہے۔ ادھر آر ایس ایس نے بھی وارننگ دے دی ہے کہ صرف مودی پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔
ایک دلچسپ بات یہ ہو رہی ہے کہ بی ایس پی کی لیڈر مایاوتی نے وزیر اعظم کے خلاف بیان بازی شروع کردی ہے جبکہ دوسری طرف صورت یہ ہے کہ آر ایس ایس مایاوتی کو قریب کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ مایاوتی یو پی کی وزیر اعلی بننا چاہتی ہیں، اب تک وہ بی جے ہی کا سہارا بنتی رہی ہیں لیکن اس بار سنگھ نے حکمت عملی بدل دی ہے اب وہ مرکز میں بھی کسی اور کو وزیر اعظم بنانا چاہتی ہے اور یو پی میں مایاوتی کو بٹھانا چاہتی ہے۔ یوگی کو مرکز بلا کر وزیر اعظم بنا دے گی یا کوئی اور بڑا عہدہ دے گی۔ اس سال پندرہ اگست کو مودی نے اپنے بارے میں کہا تھا کہ آئندہ سال بھی آؤں گا اور یہیں ترنگا لہراؤں گا۔ اس بات کو بھی سنگھ نے پسند نہیں کیا۔ مودی کو صرف وزیر اعظم بنے رہنے کی ہوس ہے جبکہ سنگھ اپنا نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔ حالات بہت آزمائشی ہیں سنگھ کے لیے بھی اور اپوزیشن کے لیے بھی۔