خبرو نظر
پرواز رحمانی
حکمراں پارٹی میں یہ تبدیلی
محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی یعنی آر ایس ایس نے اب لڑائی جھگڑوں، فسادات اور تخریبی کاموں سے براءت اور لاتعلقی ظاہر کرنا ترک کر دیا ہے۔اب وہ ان کاموں کا اعتراف اور اظہار علانیہ کرتی ہے۔ شاید وہ سمجھ گئی ہے کہ جب وہ ان کاموں کا اقرار کرتی تھی اس وقت بھی اس کے مخالف اس کی باتوں پر یقین نہیں کرتے تھے اور حمایتی تو اس کے ان کاموں کو ہی پسند کرتے ہیں۔ اب شاید (بزعم خود) اس کے حامیوں کی تعداد اتنی ہوگئی ہے کہ اسے دوسروں کی پروا نہیں رہی۔ اسے یہ بھی یقین ہوگیا ہے کہ اس کے حمایتی اس کے اصل ایجنڈے کو سمجھ چکے ہیں، اب انہیں کسی فریب کی ضرورت نہیں ہے۔ لہٰذا وہ نسل کشی اور دنگوں کا اقرار فخر کے ساتھ کرنے لگے ہیں۔ تازہ ثبوت وزیر داخلہ امیت شاہ کا وہ بیان ہے جو انہوں نے ضلع کھیڑا کے مہودھا میں ایک انتخابی جلسے میں دیا کہ ’’کانگریس کی حکومت کے دور میں فسادی آزاد تھے، بات بات پر دنگے کرتے تھے، کانگریس ان کی حمایت کرتی تھی لیکن 2002میں ہم نے انہیں سبق سکھا دیا ہے چنانچہ اب گجرات میں مکمل امن و چین ہے‘‘۔
’’اچھے کام‘‘ پر ووٹ
گویا گودھرا ریلوے اسٹیشن پر ٹرین میں آتشزنی فسادات بھڑکانے کے لیے کی گئی تھی پھر فسادات کے نام پر مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی اور یہ نسل کشی مسلمانوں کو سبق سکھانے کے لیے کی گئی۔ امیت شاہ کا یہ بیان گواہی دے رہا ہے کہ مسلم مخالف فسادات ریاستی حکومت نے کروائے تھے اور ان میں بی جے پی (آر ایس ایس) کا پورا ہاتھ تھا۔ مسلمانوں کی نسل کشی کو سبق سکھانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور یہ سبق سکھایا ہے بی جے پی اور اس کی ریاستی سرکار نے جس کے وزیر اعلیٰ مودی تھے۔ گجراتیوں کو فرقہ واریت اور مسلم دشمنی بی جے پی نے اچھی طرح سکھادی ہے۔ انہیں فرقہ وارانہ میل ملاپ اور سماجی یکجہتی سے اب کوئی دلچسپی نہیں۔ اس لیے ریاست کے گزشتہ کئی انتخابات میں رپورٹروں نے کئی شہروں میں کئی گروپوں سے بات کی تو انہوں نے جواب دیا کہ ریاست میں تو اگرچہ روزگار بہت کم ہے، عام لوگوں کی معاشی حالت اچھی نہیں ہے، مہنگائی بھی بڑھی ہے لیکن وہ ووٹ بہرحال بی جے پی (مودی) کو ہی دیں گے۔ کئی لوگوں نے وجہ بھی بتائی کہ مودی ’’ایک کام‘‘ بہت اچھا کر رہے ہیں، اور سبھی جانتے ہیں کہ وہ ’’اچھا کام‘‘ کیا ہے۔
اب کیا ہونا چاہیے
وزیر داخلہ نے مہودھا میں اسی ’’اچھے کام‘‘ کا حوالہ دے کر ووٹ مانگے ہیں۔ اس ’’اچھے کام‘‘ کا ذکر ایک بار ایک بڑے ٹی وی چینل نے بھی کیا تھا۔ چند سال قبل ایک سنسنی خیز رپورٹ میں اس چینل نے گودھرا کے کچھ فسادیوں کو پیش کیا تھا جنہوں نے برملا اظہار کیا کہ انہوں نے مسلم کش فساد میں حصہ لیا تھا۔ یہ بھی بتایا کہ کس طرح دنگوں میں حصہ لیا تھا، کس کس طرح بے گناہ انسانوں کو مارا تھا اور ان دنگوں کے بعد گجراتیوں پر مسلم مخالف رنگ کس طرح چڑھ گیا تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ مودی نے اپنی وزارت اعلیٰ کے آخری دور میں گجرات میں جو سدبھاونا یاترا نکالی تھی وہ کسی شہر میں کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ بس مسلم علاقوں میں مسلمان اور کچھ دلت برادری کے لوگ شامل ہوتے رہے۔ یعنی گجراتی اس سلسلے میں اب مودی سے بھی سننے کو تیار نہیں۔ اس لیے کچھ مبصرین کہتے ہیں کہ گجرات میں کانگریس کتنا بھی زور مار لے، جیتے گی بی جے پی ہی۔ اس کے ساتھ الیکشن کمیشن اور سرکاری ایجنسیاں بھی تو ہیں۔ بہرحال امیت شاہ کے بیان سے یہ قانونی نکتہ تو ابھرتا ہے کہ دنگے بی جے پی نے کروائے تھے چنانچہ عدلیہ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔