خبرونظر

پرواز رحمانی
گیان واپی مسجد

گیان واپی مسجد سے متعلق فاسٹ ٹریک عدالت کا جو تازہ فیصلہ آیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس معاملے کو حکومت اور حکمراں پارٹی لمبا کھینچنا چاہتی ہے تاکہ اس دوران کشیدگی بھی بڑھائی جائے اور شہریوں کے ایک بڑے طبقے کو الجھنوں میں مصروف رکھا جائے۔ اس صورت میں وہ ان مظاہرین اور احتجاج میں شریک نہیں ہوسکیں گے جو حکومت کی بدعنوانی، غلط کاری اور نا اہلی کے خلاف ملک بھر میں ہوئے ہیں اور جن سے حکومت بہت پریشان ہے۔ فیصلے سے یہ حقیقت بھی و اضح ہو گئی کہ حکومت کے پاس الیکشن جیتنے اور حکومت کرنے کے لیے ہندتوا کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا ہے خواہ اس سے ملک کو کتنا ہی نقصان پہنچے۔ بنارس کی گیان واپی مسجد کا تنازعہ لمبے عرصے سے چل رہا ہے۔ مختلف فریقوں کی درخواستوں اور اپیلوں کو یکجا کر کے فاسٹ ٹریک عدالت کے سپرد کیا گیا تھا۔ عدالت نے سماعت کر کے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ تاہم محفوظ کرنے کی ضرورت سمجھ میں نہیں آئی۔ عدالت نے اب 17 نومبر کو فیصلہ سنا دیا ہے۔ فیصلہ یہ ہے کہ عدالت نے ہندو فریقوں کی تمام درخواستوں کو برائے سماعت منظور کرلیا ہے اور مسلم فریق کے تمام اعتراضات مسترد کر دیے ہیں۔

اب کیا کرنا چاہیے

ہندو فریق کی درخواستوں میں ایک درخواست وشو ویدک سناتن سنگھ کے صدر جتیندر سنگھ بسین کی اہلیہ کرن سنگھ کی تھی جس پر سماعت کے دوران فاسٹ ٹریک عدالت نے کہا کہ اس میں کیے گئے مطالبات قابل غور ہیں۔ پورا گیان واپی مسجد کیمپلکس ہندووں کو سونپ دیا جائے۔ اس احاطے میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی ہو۔ حال ہی میں وضو خانے میں دریافت شدہ مبینہ شیو لنگ کے درشن اور اس کی پوجا کی اجازت دی جائے۔ مسلم فریق کے وکلا پہلے سے کہتے آرہے تھے کہ یہ عرضی قابل سماعت ہرگز نہیں ہے لیکن عدالت نے ان کی ایک نہ سنی۔ اس طرح فاسٹ ٹریک عدالت کا رخ واضح ہو گیا۔ اب معاملہ آگے کی عدالت تک جاتا ہے تو اس کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کیا کرے گی لیکن بحیثیت مجموعی عدلیہ کا رخ اور رجحان تو یہی دکھائی دیتا ہے، خصوصاً بابری مسجد سے متعلق عجیب و غریب فیصلہ آنے کے بعد۔ ابھی تک صرف الیکشن کمیشن، خفیہ ایجنسیوں اور دوسرے سرکاری اداروں کے بارے میں ہی کہا جاتا ہے کہ حکومت کے زیر اثر ہیں، عدلیہ سے متعلق خاموشی رہتی تھی لیکن بابری مسجد کے فیصلے کے بعد اور اب گیان واپی کی مسجد پر فاسٹ ٹریک عدالت کے فیصلے سے یہ بھی صاف ہو گیا کہ عدالتی نظام بھی اس سے مستثنیٰ نہیں رہ گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس صورتحال میں شہریوں کے ان حلقوں کو جو زیادتی اور بے انصافی کا شکار ہیں، کیا کرنا چاہیے؟

تمام جماعتیں آگے آئیں

گیان واپسی مسجد کا معاملہ 2024 تک تو زندہ رہے گا ہی کہ عام انتخابات کا سال ہے۔ اس کے بعد بھی معلوم نہیں کب تک چلے گا۔ اس لیے مسلمانوں کو بابری مسجد سے زیادہ اس معاملے میں احتیاط اور تدبر سے کام لینا ہو گا۔ ہماری صفوں میں اتحاد ضروری ہے۔ مسلمانوں کے دو نمائندہ اجتماعی ادارے ہیں مسلم پرسنل لا بورڈ، اور مسلم مجلس مشاورت۔ پرسنل لا بورڈ تو الحمدللہ کہ متحد اور متحرک ہے لیکن مجلس مشاورت کو بدخواہوں کی نظر لگ گئی ہے، کئی سال سے بحرانی کیفیت میں ہے جبکہ ملکی صورتحال کا تقاضا ہے کہ مسلمانوں کا ہر فرد اور ہر حلقہ ذاتی اور گروہی مفادات سے اوپر اٹھ کر سوچے اور کام کرے۔ ملکی مفادات کا تقاضا بھی یہی ہے۔ بات صرف گیان واپسی مسجد کی نہیں اور بھی کئی مسائل ہیں جن کا ہمیں سامنا ہے۔ ملت کی صفوں میں انتشار صرف مسالک اور عقائد کی وجہ سے ہے اور صدیوں سے ہے۔ بہتر ہو گا کہ مسلمانان ہند موجودہ حالت میں کم از کم مجلس مشاورت کو متحد اور متفق رہنے دیں۔ تمام جماعتوں کے رہنما جو مشاورت میں شامل نہیں ہیں، مشاورت کا بحران ختم کرنے کے لیے یکجا ہوں اور متحارب حلقوں سے درد مندانہ گفتگو کریں۔ مسئلہ بہت بڑا نہیں ہے بلکہ دیکھا جائے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ چند افرد نے اپنی کم فہمی اور نا انصافی کی وجہ سے یہ بحران پیدا کر دیا ہے۔ انہیں خاص طور سے سمجھانے کی ضرورت ہے۔