خبرونظر

پرواز رحمانی

دلت وزیر اعظم؟

بہوجن سماج پارٹی کی رہنما مایاوتی کو بڑی شدید شکایت ہے کہ ملک کی آزادی کو 75 سال گزر گئے لیکن آج تک دلت طبقے سے کسی کو بھی وزیر اعظم نہیں بنایا گیا بلکہ الٹا دلت طبقے کے وہ حقوق اور اختیارات پامال کیے گئے جن کا اہتمام دستور ہند میں ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر نے کیا تھا۔ مرکز میں حکومت ہمیشہ اعلیٰ ذات والوں کی رہی ہے۔ اس صورت حال کے لیے مایاوتی نے کانگریس سمیت تمام پارٹیوں کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ ٹوئٹر پر طویل اظہار خیال میں انہوں نے کہا کہ آج حالات پہلے سے زیادہ بدتر ہیں۔ کسی دلت کے وزیر اعظم بننے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ برطانیہ کے نئے وزیر اعظم رشی سنک کا جو ہند نژاد ہیں ذکر کرتے ہوئے مس مایاوتی نے لکھا ہے کہ اس پر ضرورت سے زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ برطانیہ کے تجربے سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستانی سیاست نے ایک سکھ کو تو وزیر اعظم بنا دیا لیکن کسی دلت کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں۔ مس مایاوتی کا خیال ہے کہ دلت طبقے کو دستور میں دیے گئے حقوق اور اختیارات کو برسر اقتدار پارٹیوں نے ہمیشہ دلتوں پر احسان بتایا۔ مایاوتی نے لکھا کہ یہاں اونچ نیچ پر مبنی سماجی نظام ہے۔ اس لیے اس کی تحقیق ہونی چاہیے کہ دلت برادری کا سچا ہمدرد کون ہے؟

شکایت درست ہے لیکن

مس مایاوتی کی شکایت درست ہے۔ سماجی تقسیم کے لحاظ سے اس ملک میں سب سے زیادہ تعداد دلت سماج کی ہی ہے لیکن انہیں ہندو کہا جاتا اور استعمال کیا جاتا ہے۔ انہیں ہندو بنائے رکھنے کے لیے ایک اتنا کامیاب حربہ استعمال کیا گیا ہے کہ دلت سماج اس سے نکل ہی نہیں سکتا۔ دلتوں کو بہت ساری سرکاری مراعات دی گئی ہیں جن میں سب سے نمایاں ریزرویشن ہے۔ سرکاری ملازمتوں اور کچھ اداروں میں ریزرویشن دیا گیا ہے لیکن بتادیا گیا ہے کہ یہ مراعات اسی وقت تک ہیں جب تک وہ ہندو ہیں۔ اگر وہ کوئی دوسرا مذہب اختیار کرتے ہیں تو یہ مراعات منسوخ کر دی جائیں گی۔ اسی لیے ڈاکٹر امبیڈکر نے بھی اشاروں کنایوں میں ارادہ ظاہر کرنے کے باوجود اسلام قبول نہیں کیا۔1956ء میں بودھ مذہب اختیار کیا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس سے سرکاری مراعات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور دلتوں کو اس سے زیادہ کچھ چاہیے بھی نہیں۔ 1932ء میں انگریزی حکومت نے ڈاکٹر امبیڈکر کا یہ مطالبہ کہ اچھوتوں کو انتخابات میں علیحدہ ووٹنگ کا حق دیا جائے تسلیم کرلیا تھا لیکن گاندھی جی نے اس کے خلاف مرن برت رکھ لیا تھا بالآخر ڈاکٹر کو اس مطالبہ سے دستبردار ہونا پڑا تھا۔ 1956ء کے فیصلے میں اس کا اثر بھی بتایا جاتا ہے۔

خواہش کے پیچھے

ان حالات میں مس مایاوتی دلت پرائم منسٹر کی خواہش ظاہر کررہی ہیں تو کیا اس سے وہ حقوق اور اختیارات دلت سماج کو مل پائیں گے جن کا ذکر خاتون لیڈر کر رہی ہیں۔ یعنی کیا دلت وزیر اعظم کو آزادانہ کام کرنے دیا جائے گا۔ ملک میں کئی دلت وزرائے اعلیٰ بنائے گئے ہیں، کسی کا ریکارڈ اس پہلو سے اچھا نہیں رہا۔ دلت سماج کو دستور ہند نے بہت کچھ دے رکھا ہے، وہ اسے استعمال بھی کر رہے ہیں اور خود بھی حسب ضرورت استعمال ہوتے ہیں۔ مس مایاوتی نے دلت لیڈر کے وزیر اعظم نہ بننے کا ذکر تو کیا ہے لیکن سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کا ذکر نہیں کیا۔ کوئی رائے ظاہر نہیں کی۔ ویسے مسلمانوں کو اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ملک کے سب سے بڑے آئینی عہدے پر دو مسلمان فائز رہ چکے ہیں لیکن کسی خاص کام کی نشان دہی مشکل ہی سے کی جاسکے گی۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے نائب صدر بننے سے پہلے کئی لاکھ دستخطوں کے ساتھ صدر جمہوریہ کو اردو کی ترقی سے متعلق ایک یادداشت پیش کی تھی۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب وہ خود صدر جمہوریہ بن گئے۔ یادداشت کا مسودہ ان کے دفتر میں محفوظ تھا لیکن انہوں نے اس کا نام تک نہیں لیا۔ دلت وزیر اعظم کا مطالبہ دراصل مس مایاوتی کی اپنی خواہش پر مبنی ہے۔ اگر سیاسی حادثات سے وہ بن بھی گئیں تو دیکھنا ہو گا کہ وہ کیا کرتی ہیں اور انہیں وزیر اعظم بنانے والے کہاں تک آزادی اور اختیار دیتے ہیں۔