خبرونظر
پرواز رحمانی
حکومت کو ایک یاد دہانی
’’ہماری حکومت مسلمانوں کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتتی‘‘ یہ کہنا ہے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کا۔ 5 اپریل کو نئی دلی میں سرکردہ مسلمانوں کے ایک وفد سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کئی باتیں کہیں۔ کہا کہ رام نومی کے موقع پر جہاں جہاں تشدد ہوا، اس کا ہمیں بھی افسوس ہے۔ تحقیقات کے بعد قصور واروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ ہماری حکومت سب کے ساتھ انصاف کرتی ہے کسی کے ساتھ ذات پات یا مذہب کی بنیاد پر بے انصافی نہیں کی جاتی۔ اس وفد کی قیادت جمیعۃ العلما کے صدر محمود مدنی نے کی تھی۔ وفد نے مسائل کی ایک لمبی فہرست وزیر داخلہ کے سامنے پیش کی جن کی وجہ سے مسلم شہری پریشان ہیں۔ فرقہ وارانہ تشدد، نفرت کی مہم جو مسلمانوں کے خلاف چلائی جارہی ہے، سڑکوں پر اور بازاروں میں قتل و غارت گری کے واقعات، مسلم پرسنل لا کے خلاف ریشہ دوانیاں، کرناٹک میں مسلم ریزرویشن پر قدغن، دین اسلام کے خلاف بدزبانی، اسلامی مدارس کے خلاف سازش، وقف جائیدادوں پر حملے، آسام میں مسلمانوں کے انخلا کے لیے زور و زبردستی، میوات میں لگا تار ناخوشگوار واقعات وغیرہ۔
پیچھے کون ہے؟
اس کے علاوہ بھی بہت کچھ شرارتیں ہیں جو مسلم شہریوں کے خلاف کچھ مخصوص حلقے مسلسل کر رہے ہیں، مگر مرکزی حکومت اور بی جے پی کی ریاستی حکومتیں ان واقعات و مہمات پر بالکل خاموش ہیں۔ اور اب مرکزی وزیر داخلہ بڑی معصومیت کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ ان کی حکومت مسلمانوں کے ساتھ کوئی تفریق نہیں کرتی! جمیعۃ علما نے مسائل کی جو فہرست وزیر داخلہ کے سامنے رکھی ہے، یہ نہیں کہ حکومت ان سے نا واقف ہے۔ خوب واقف ہے، بلکہ زیادہ واقف ہے۔ ان افراد اور گروپوں سے بھی واقف ہے جو ان مسائل کو کھڑا کرتے ہیں۔ کئی مسائل ایسے بھی ہیں جنہیں حکومت جانتی ہے کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں، حکومت نے محض ایک شرارت کو زندہ رکھنے کے لیے اس کا شوشہ چھوڑا ہوا ہے۔ ان میں سے ایک ہے یکساں سول کوڈ۔ حکومت اور آر ایس ایس جانتی ہے کہ یہ ایک غیر عملی چیز ہے اور اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سنگھ کے رہنما گولوالکر نے اپنے ایک انٹرویو میں صاف کہا تھا کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ غیر حقیقت پسندانہ عمل ہے۔ حکومت ان مسائل سے اس لیے بھی واقف ہے کہ ان میں سے کئی مسائل خود اس کے پیدا کردہ ہیں یا اس کے حامیوں نے پیدا کیے ہیں۔
تاریخ کیا کہتی ہے؟
دوسری جماعتوں اور باخبر افراد کی طرح جمیعۃ علما کے ذمہ دار بھی جانتے ہیں کہ یہ تمام مسائل اور مشکلات حکومت کے علم میں بھی ہیں تاہم انہوں نے اچھا ہی کیا کہ وفد کی شکل میں جاکر یہ صورت حال وزیر داخلہ کے گوش گزار کرادی تاکہ حکومت کو یاد دہانی ہو جائے۔ یاد دہانی تو ہوگئی، وزیر داخلہ نے کچھ رسمی باتیں بھی کہہ دیں لیکن کیا وزیر داخلہ یا ان کی حکومت اس کا ذرا بھی نوٹس لے گی؟ حکومت اور اس کے حامیوں کی پوری فوج کے طرز عمل سے تو نہیں معلوم ہوتا کہ اس ملاقات کا ذرا بھی نوٹس لیا جائے گا۔ زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور آر ایس ایس کے سنجیدہ افراد کو، اگر واقعی ان میں ہوں، تو انہیں بتایا جائے کہ جو کچھ ہو رہا ہے کہ اس سے کچھ لوگوں کو وقتی فائدہ تو مل سکتا ہے لیکن یہ صورت حال ملک کے وسیع تر مفاد کے لیے انتہائی نقصان دہ اور تباہ کن ہے۔ اقوام عالم کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان ہتھکنڈوں سے کوئی قوم خواہ وہ اپنے وقت کی کتنی ہی بڑی طاقتور رہی ہو، نہ کبھی فلاح پا سکی ہے نہ پا سکتی ہے۔ دنیا میں بڑی بڑی سرکش قومیں گزری ہیں، قدرت نے ان کو ان کی سرکشیوں کی پاداش میں ایسی سزا دی کہ وہ ایسے نابود ہوئے کہ آج دنیا میں ان کا ایک بھی نام لیوا نہیں ہے۔