خبرونظر

پرواز رحمانی

حقوق انسانی ایک اور رپورٹ
امریکہ نے ہندوستان میں حقوق انسانی کے بارے میں ایک اور رپورٹ جاری کی ہے جس میں صورت حال پر سخت تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگایا جا رہا ہے۔ پولیس من مانی گرفتاریاں کرتی ہے اور لوگوں کو وجہ بتائے بغیر حراست میں رکھا جاتا ہے۔ ماورائے عدالت قتل کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ بغیر مناسب قانونی عمل کے شہریوں کی جائیدادیں ضبط کی جاتی ہیں اور انہدامی کارروائیاں ہوتی ہیں۔ انگریزی روز نامہ ہندوستان ٹائمز نے یہ رپورٹ شائع کی ہے۔ دراصل یہ رپورٹ مختلف ممالک میں انسانی حقوق کی صورت حال سے متعلق معمول کی رپورٹ ہے۔ ایک سرکاری بیورو اس صورت حال کی نگرانی کرتا ہے۔ 22 مارچ کو واشنگٹن میں جب رپورٹ جاری کی جا رہی تھی تو متعلقہ افسر سے ہندوستان کے بارے میں بھی پوچھا گیا جس کے جواب میں افسر نے یہ باتیں بتائیں۔ یہ بھی بتایا کہ حکومت ہند کے ساتھ ہمارا مستقل رابطہ ہے، دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو مشورے بھی دیے ہیں اور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ افسر نے بتایا کہ ہم ہندوستان میں حقوق انسانی کی صورت حال کی بہتری پر مستقل زور دیتے ہیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔
اقلیتوں کے ساتھ یہ سلوک
امریکی رپورٹ میں اقلیتی گروپوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ حکومت ہند ایسی رپورٹوں کو بالعموم ملک مخالف پروپگنڈہ کہہ کر مسترد کر دیتی ہے۔ اس رپورٹ پر بھی یہی رد عمل ہوگا لیکن امریکہ برطانیہ اور دوسرے ممالک حکومت ہند کا اعتراض قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بی بی سی کی ڈاکیومنٹری رپورٹ دو حصوں میں آئی تو حکومت ہند کے وزیروں اور افسروں نے بڑے پیمانے پر اس کی مذمت کی۔ اسے ہند مخالف پروپیگنڈا بتایا لیکن بی بی سی نے یہ اعتراض قبول نہیں کیا۔ یہ رپورٹ پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ آج بھی اس کے تذکرے جاری ہیں۔ حکومت کے لیے کام کرنے والے میڈیا نے بھی اس پر بہت شور مچایا لیکن عالمی میڈیا کی رائے اپنی جگہ قائم رہی۔ بی بی سی کی دستاویزی رپورٹ پر ہر ملک کے میڈیا نے تبصرے کیے اور حکومت ہند پر تنقید کی ہے۔ لیکن حکومت اب بھی یہی کہہ رہی ہے کہ یہ رپورٹ مخالف پروپیگنڈا ہے اور انڈیا کو بدنام کرنے کی سازش ہے جبکہ بی بی سی اپنی رپورٹ پر اٹل ہے۔ اس نے یہ دستاویز برطانوی حکومت کی ایک رپورٹ کے مطابق جاری کی ہے۔ سنا ہے کہ بی بی سی اس سلسلے میں کچھ اور لانے والی ہے۔

حقائق کو جھٹلانا ٹھیک نہیں
حقوق انسانی کی پامالی کی فہرست میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک بھی درج ہے۔ کیا حکومت ہند اس سے انکار کر سکتی ہے؟ اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ علانیہ ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔ تازہ واقعہ میں جنید اور ناصر نامی دو مسلم نوجوانوں کی ہریانہ میں زندہ جلا دیا گیا۔ کرناٹک میں نقاب پوش طالبات کو کلاسوں میں آنے نہیں دیا جاتا۔ کچھ سادھو سنت نما بھگوا دھاری اسلام اور اسلامی شخصات کو مائیک پر برا بھلا کہتے ہیں۔ قرآن اور مساجد کی بے حرمتی عام ہے۔ مساجد میں "شیو لنگ” دریافت کیے جار ہے ہیں۔ جس کے منہ میں جو آتا ہے بک دیتا ہے۔ کیا حکومت کے مشیروں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو یہ مشورہ دے سکے کہ عالمی سچ کو جھٹلانے کی ناکام کوشش کرنے کے بجائے ان برائیوں کو مٹانے کی کوشش کریں؟ حقیقت تو حقیقت ہوتی ہے، جلد یا بدیر مان لی جاتی ہے، جس طرح آج امریکہ اور برطانیہ مان رہے ہیں۔ اگر چہ کہ یہ دونوں ممالک اپنا پوشیدہ ایجنڈا بھی رکھتے ہیں جنہیں جھٹلایا نہیں جاسکتا اس لیے کیوں نہ انہیں پہلے ہی تسلیم کرلیا جائے، اس سے ساکھ قائم رہتی ہے۔