کائنات کی سب سے بڑی سچائیاں اور قرآن مجید
دین کی دعوت کے لیے قرآن کا طر زِ استدلال ہی سب سے موثر
ڈاکٹر ساجد عباسی
دعوت کے لیے صرف تقابلِ ادیان کا طریقہ کافی نہیں۔ قرآنی طرز کو اختیار کرنے کی ضرورت
قرآن نے کائنات کی سب سے بڑی سچائیوں کو عقائد کے طور پر پیش کیا ہے جیسے توحید، آخرت اور رسالت۔ان عقائد ہی سے انسان کی اس کرۂ ارض پر پیدائش کا مقصد بھی واضح ہوجاتا ہے۔ قرآن کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اسلامی عقائد کو وہ انسانوں کے سامنے پیش کرنے کے ساتھ ساتھ پر زور طریقے سے ان کے حق میں دلائل پیش کرتا ہے۔یہ دلائل آفاق وانفس اور انسانی تاریخ سے پیش کیے گئے ہیں۔ نیز منطق اور عقلِ عام سے بھی دل نشین انداز میں استدلال کیا گیا ہے جو ایک کم پڑھے لکھے انسان کو بھی سمجھ میں آجاتا ہے ۔ قرآن کو نصیحت اور یاد دہانی کی کتاب کہا گیا اور فرمایا گیا کہ نصیحت کے لیے اللہ نے اس قرآن کو آسان بنا دیا ہے۔ وہ تمام مذہبی کتابیں جو انسانوں کی ملاوٹوں سے الہامی باقی نہیں رہیں ہیں ان کے اندر حقائق قرآن کی طرح واضح نظر نہیں آتے اور نہ ہی ان کے ثبوت میں منطقی دلائل ہوتے ہیں ۔ان میں بغیر کسی استدلال کے غیر عقلی باتوں کو پیش کیا گیا ہے ۔ان کتابوں میں من گھڑت قصے اور کہانیاں پیش کی گئی ہیں۔ان نام نہاد مذہبی کتابوں کے ماننے والے بغیر کسی دلیل کے ان کتابوں کی کہانیوں کو مان لیتے ہیں ۔ان کے مذہبی پیشوا ان کتابوں پر منطقی بحث سے کتراتے ہیں اور اپنے متبعین کو بغیر دلیل کے ان کتابوں کو ماننے کی دعوت دیتے ہیں، جبکہ قرآن باربار عقل کی بیناد پر ان عقائد کو پرکھنے کی دعوت دیتا ہے تاکہ ایمان مضبوط بنیادوں پر دلوں میں راسخ ہوجائے۔
قرآن کا بہت ہی کم حصہ ہے جن میں احکام دئے گئے ہیں اور ان احکام کی تفصیل کے بجائے اجمال کا طرز اختیار کیا گیا ۔احکام کی تفصیلات کے لیے احادیث اور سنتِ رسول کی طرف رجوع کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جاسکے۔ قرآن کو دلائل کی کتاب کہا جاسکتا ہے جہاں پڑھنے والے کو بار بار متوجہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی عقل کو استعمال کرے اور غوروفکر سے کام لے۔قرآن جہاں عقل کو مطمئن کرتا ہے وہیں وہ دل کے جذبات کو بھی اپیل کرتا ہے ،جھنجھوڑتا ہے اور گرماتا ہے۔ سخت دل لوگوں کے دلوں کو پگھلاتا ہے۔
آج کل داعیانِ اسلام دعوت الی اللہ کے میدان میں محض تقابلِ ادیان کو پیش کرکے دینِ اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔چونکہ آج کے زمانے میں لوگ مذہب بے زار ہوتے جارہے ہیں اس لیے اس طرزِ دعوت میں ،مدعو افراد کے لیے زیادہ اپیل باقی نہیں رہی۔یہ طرز استدلال ان لوگوں کے لیے مفید ہے جو اپنے مذہب سے عقیدت رکھتے ہیں۔چونکہ ان کی مذہبی کتابوں میں غیر عقلی اور غیر منطقی چیزیں شامل ہیں اس لیے پڑھے لکھے لوگ ان کو پڑھ کر مذہب بیزار ہوتے جارہے ہیں۔ایسے لوگوں کے سامنے ان کی مذہبی کتابوں کے حوالے مفید ہونے کے بجائے ان کی عقل پر گراں گزرتے ہیں۔
آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کا طرزِ استدلال کیا ہے اور توحید ،آخرت اور رسالت کےاثبات میں کیا کیا دلائل پیش کیے گئے ہیں؟
توحید کے دلائل :
۱۔ یہ کائنات حادثاتی طورپر وجود میں نہیں آگئی ہے۔أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ کیا یہ کسی خالق کے بغیر خود پیدا ہو گئے ہیں؟) یا یہ خود اپنے خالق ہیں؟ (سورہ طور۳۵)
۲۔اللہ اس کائنات کا خالق ہے جس نے کمال درجہ کی حکمت اور قدرت کے ساتھ انسانوں کی ضروریات کے مطابق وسائل کو پیدا فرمایا۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الأَرْضَ فِرَاشاً وَالسَّمَاءبِنَاءوَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءمَاءفَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقاً لَّكُمْ فَلاَ تَجْعَلُواْ لِلّهِ أَندَاداً وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
لوگو، بندگی اختیار کرو اپنے اس ربّ کی جو تمہارا اور تم سے پہلے لوگ ہو گزرے ہیں اُن سب کا خالِق ہے، تمہارے بچنے کی توقع اِسی صورت سے ہو سکتی ہے. وہی تو ہے جِس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا، آسمان کی چھت بنائی، اوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لیے رزق بہم پہنچایا پس جب تم یہ جانتے ہو تو دوسروں کو اللہ کا مد مقابل نہ ٹھیراؤ۔(سورۃ البقرۃ ۲۱، ۲۲)
هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاء فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْء عَلِيمٌ
وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں،پھر اوپر کی طرف توجّہ فرمائی اور سات آسمان استوار کیے۔اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ (سورۃ البقرۃ ۲۹)
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاء۔۔لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دُنیا میں پھیلا دیے۔ (سورۃ النساء ۱)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنا تعارف خالق کے طور پر کروایا ہے۔دنیا میں خدائی کا دعوی کرنے والے تو بہت پیدا ہوئے لیکن اب تک کوئی ہستی نے یہ دعویٰ نہیں کیا ہے کہ اس نے دنیا میں کوئی تخلیق کی ہو۔
أَيُشْرِكُونَ مَا لاَ يَخْلُقُ شَيْئاً وَهُمْ يُخْلَقُونَ ۔کیسے نادان ہیں یہ لوگ کہ ان کو خدا کا شریک ٹھیراتے ہیں جو کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں۔(سورۃ الاعراف ۱۹۱)
أَفَمَن يَخْلُقُ كَمَن لاَّ يَخْلُقُ أَفَلا تَذَكَّرُونَ ۔کیسے نادان ہیں یہ لوگ کہ اُن کو خدا کا شریک ٹھیراتے ہیں جو کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں۔ (سورۃ النحل ۱۷)
وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ لاَ يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ أَمْواتٌ غَيْرُ أَحْيَاءوَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ ۔ اور وہ دوسری ہستیاں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں، وہ کسی چیز کی بھی خالق نہیں ہیں بلکہ خود مخلوق ہیں ُمردہ ہیں نہ کہ زندہ۔ اور ان کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ انہیں کب (دوبارہ زندہ کر کے) اُٹھایا جائے گا۔ (سورۃ النحل ۲۰، ۲۱)
دنیا میں جس چیز کی ابتدا ہوتی ہے اس کی تخلیق کا سبب لازمی طور پر ہونا چاہیے۔ اس کو cosmological argument کہتے ہیں ۔یہ کائنات ہمیشہ سے نہیں ہے بلکہ اس کی بھی ایک ابتداء ہے جس سے قبل اس کا وجود نہیں تھا۔اس کائنات کا سبب یعنی اس کے خالق کا ہونا لازمی ہے جو خود پیدا نہیں کیاگیا ہو۔اگروہ بھی پیدا کیا گیا ہوتا تو پھراس کے بھی خالق کا سوال اٹھتا۔ اگراللہ کے بھی خالق کا سوال اٹھایا جائے تو پھر اس خالق کے بھی خالق کا سوال اٹھے گا اور لامتناہی طور پر یہ سوال چلتا رہے گا۔کسی نہ کسی جگہ رکنا پڑے گابکہ ایک ایسی ہستی ہے جس کا کوئی خالق نہیں ہے ورنہ موجودہ دنیا کے خود وجود پر سوال ہوگا۔چونکہ یہ دنیا موجود ہے اس لیے اللہ اس کا خالق ہے جس کا کوئی خالق نہیں ہے اور وہ ازل سے ہے۔ وہی ایک ہستی ہے جو ہمیشہ سے ہے اور باقی جو کچھ ہے وہ مخلوق ہے اور سب کا ایک نقطۂ آغاز ہے۔ وہ ایسا cause ہے جو خود uncaused ہے۔
مکہ کے کفار و مشرکین بھی اس بات کے قائل تھے کہ تخلیق میں اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے۔ وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ اگر تم ان لوگوں سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے اور چاند اور سورج کو کس نے مسخر کر رکھا ہے تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، پھر یہ کدھر سے دھوکا کھا رہے ہیں؟
(سورۃ العنکبوت ۶۱)
بلکہ مشرکین مکہ یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ ایک اللہ ہی ہے جو بارش برساتا ہے اور ان سے نباتات اگاتا ہے ۔دنیا میں کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ بارش برساتا ہے اور نباتات کی تخلیق کرتا ہے۔
وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّن نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاء مَاء فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ اور اگر تم ان سے پوچھو کس نے آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو جِلا اُٹھایا تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے۔ کہو، الحمدللہ، مگر اکثر لوگ سمجھتے نہیں ہیں۔ (سورۃ العنکبوت ۶۳)
اس طرح قرآن منکرینِ خدا کو جواب دیتا ہے ۔کفر کا ابطال کرنے کے بعد قرآن شرک کا ابطال کرتا ہے۔شرک کا ابطال دراصل توحید کا اثبات ہے۔
۳۔توحید کے دلائل :خالق کے وجود کے اثبات کے بعد قرآن توحید پر پے در پے دلائل پیش کرتا ہے کہ اس کائنات کا ایک ہی خالق ہے ۔جب اس کائنات کا ایک ہی خالق ،رازق اور رب ہےتو معبود بھی ایک ہی ہونا چاہیے۔ اللہ کی ربوبیت الوہیت کو اللہ کے لیے خاص کر دیتی ہے۔
اللہ کی توحید کو نہایت ہی جامع انداز میں سورۃ الاخلاص میں پیش کیا گیا ہےکہ:قُلْ هُوَ اللَهُ أَحَدٌ اللَهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ۔کہو، وہ اللہ ہے یَکتا۔ اللہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں۔نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد۔ اور کوئی اُس کا ہمسر نہیں ہے۔ (سورۃ الاخلاص) اس مختصر سورۃ میں اللہ تعالیٰ کی تعریف اس طرح بیان کی گئی ہے کہ وہ تنہا خالق ہے باقی سب مخلوق ہیں ۔وہ اپنی ذات و صفات میں یکتا ہے۔ساری کائنات تمام مخلوقات سمیت اس کی محتاج ہے اور وہ سب سے بے نیا ز ہے۔اللہ جب تنہا خالق ہے اور باقی سب اس کی مخلوق ہیں تو اس کا کوئی والد نہیں ہوسکتا۔وہ uncreated ہے۔وہ اس بات کا محتاج نہیں ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو۔اولاد ہو تو ہمسری کا سوال پیدا ہوتا ہے اس لیے اس جیسا کوئی نہیں ہے۔
دنیا میں اگر ایک سے زیادہ خدا ہوتے تو دو صورتیں ہوتیں : ایک صورت یہ ہوتی کہ سب خداؤوں کی قدرت یکساں ہو اور دوسری صورت یہ ہے کہ قدرت میں سب مختلف ہوں ۔پہلی صورت کو لے لیں اور اگر بالفرض مان لیں کہ اس کائنات کے دو خدا ہیں اور دونوں قدرت اور صفات میں ایک جیسے ہوں اور ان کی سوچ و ارادہ بھی یکساں ہو۔ایسی صورت میں ان کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہوگا لیکن ایک کی موجودگی میں دوسرے کا وجود غیر ضروری ہوگا۔ غیر ضروری ہونے کا مطلب ہے اس کا ہونا اور نہ ہونا یکساں ہو۔ایسی غیر ضروری ہستی خدا نہیں ہوسکتی ۔ لیکن اگر دو خدا ہوں جو قدرت میں یکساں ہوں لیکن ان دونوں کا ارادہ مختلف ہو تو دونوں کی متضاد مرضی بیک وقت چلے گی اور دنیا میں تصادم ہی تصادم ہوگا۔جیسے ایک اسٹیرنگ پر دو ڈرائیور ہوں اور دونوں اسٹیرنگ کو گھمانے میں آزاد ہوں تو حادثہ سے بچنا ناممکن ہوگا۔ چونکہ یہ کائنات تسلسل کے ساتھ بغیر کسی خلل کے کئی ارب سالوں سے چل رہی ہے اس لیے لازماً یہ ماننا پڑے گااس کائنات کے دو یا زیادہ خدا نہیں ہوسکتے ۔لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ اگر آسمان و زمین میں ایک اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو (زمین اور آسمان) دونوں کا نظام بگڑ جاتا۔ پس پاک ہے اللہ ربّ العرش اُن باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔(سورۃ الانبیاء۲۲)
اور اگر دوسری صورت یہ ہو کہ ایک سے زیادہ خدا ہوں اور ان کی قدرت میں فرق ہو۔اس صورت میں اسی خدا کو ماننا کافی ہے جس کی قدرت سب سے اعلیٰ ہو۔ان خداؤوں کی خدائی کو ماننے کا کیا فائدہ جو کسی کے ماتحت ہو۔اس کو تو خدا کہلانے کا بھی حق نہیں ہونا چاہیے۔اسی بات کو قرآن میں اس طرح پیش کیا گیا کہ : يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ اے زنداں کے ساتھیو، تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب غالب ہے؟(سورۃ یوسف ۳۹) اسی بات کو علامہ اقبال نے اس طرح فرمایا:
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ۔ہزار سجدےسے دیتا ہے آدمی کو نجات
(جاری)
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اگست تا 03 ستمبر 2023