11 سال کے بعد یو اے پی اے کے الزام سے بری ہونے والا کشمیری شخص وطن واپس پہنچا
نئی دہلی، یکم جولائی: انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق جموں و کشمیر کے سرینگر میں ریناوری سے تعلق رکھنے والے 44 سالہ بشیر احمد بابا کو 23 جون کو گجرات پولیس کے ذریعے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہونے کے گیارہ سال بعد بری ہو کر گھر واپس لوتے ہیں۔ ان پر سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
19 جون کو گجرات کے وڈوڈرا کی ایک عدالت نے استغاثہ میں کہا کہ پراسیکیوشن بابا کے خلاف الزامات ثابت کرنے اور ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔
نیوز کلک نے رپوٹ کیا کہ بشیر احمد ریناوری میں ایک کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ چلاتے تھے اور ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ کام کرتے تھے، جس نے طبی کیمپ لگائے تھے، خاص طور پر بچوں کے لیے۔
فروری 2010 میں وہ ایک ورکشاپ میں شرکت کے لیے گجرات گئے تھے۔ لیکن 13 مارچ 2010 کو جب وہ گھر واپس آنے کے لیے تیار تھے، اس سے ایک دن پہلے گجرات پولیس کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ نے ان کو آنند ضلع سے گرفتار کیا اور ان پر الزام لگایا کہ وہ ’’دہشت گردی کی تربیت‘‘ کے لیے نوجوانوں کا نیٹ ورک قائم کرنے کی غرض سے ریاست کے دورے پر تھے۔ ان پر دہشت گرد گروہ حزب المجاہدین سے وابستہ ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
پولیس نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ بابا حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین اور احمد شیرا سے بلال فون اور ای میل پر رابطے میں تھا۔ دی کشمیر والا کے مطابق انھیں انسداد دہشت گردی اسکواڈ کی تحویل میں 16 دن رکھنے کے بعد وڈوڈرا سنٹرل جیل بھیج دیا گیا تھا۔
اگلے 11 سالوں تک ان کے وکلا نے بشیر احمد کا دفاع کیا اور یہ دعوی کیا کہ وہ گجرات میں، وادی کشمیر میں مریضوں کو خدمات کی فراہمی کے لیے کینسر کے بعد کی دیکھ بھال سے متعلق ایک کیمپ میں شریک تھے۔ ان کے وکیل خالد شیخ نے کہا کہ سرینگر کے ایک ڈاکٹر نے سفارش کی تھی کہ وہ اس کیمپ میں حاضر ہوں۔
اپنے فیصلے میں گجرات کے آنند ضلع میں ایک ایڈیشنل سیشن جج نے کہا کہ گجرات پولیس کی جانب سے یہ ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا کہ بشیر احمد بابا ریاست میں ’’دہشت گردی کا نیٹ ورک‘‘ قائم کرنے کے لیے آیا تھا اور اسے اس مبینہ جرم کے لیے مالی امداد ملی ہے۔
عدالت نے اپنے حکم میں کہا ’’استغاثہ یہ ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت قائم کرنے میں ناکام رہا ہے کہ وہ حزب المجاہدین کے مطلوبہ کمانڈروں سے رابطے میں تھا۔‘‘
دی انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بشیر احمد بابا نے کہا کہ وہ جانتے تھے کہ وہ بے قصور ہے اور انھوں نے بری ہونے کی امید کبھی نہیں چھوڑی۔ انھوں نے کہا ’’مجھے معلوم تھا کہ مجھے ایک دن باعزت رہا کیا جائے گا۔‘‘
نیوز کلک کے مطابق بشیر احمد نے جیل میں رہتے ہوئے پولیٹیکل سائنس، پبلک ایڈمنسٹریشن اور انٹلیکچول پراپرٹی ایکٹ جیسے تین مضامین میں ماسٹر ڈگری مکمل کی ہے۔ انھوں نے کہا ’’میں نے جیل میں اپنا بیشتر وقت پڑھائی میں صرف کیا اور مجھے یقین تھا کہ ایک دن میں بے قصور ثابت ہوجاؤں گا اور رہا کردیا جاؤں گا۔‘‘
تاہم بابا نے مزید کہا کہ رہائی نے انھیں خوشی کے ساتھ غم کی کیفیت بھی دی ہے کیونکہ وہ جیل میں رہتے ہوئے اپنے خاندان کے بہت سے افراد کو کھو بیٹھے ہیں۔ ان کے والد کا انتقال کولون کے کینسر میں مبتلا ہونے کے تین سال بعد 2017 میں ہوا۔