کشمیر میں شعبہ باغبانی بربادی کے دہانے پر: ذمہ دار کون؟

سیبوں کی مناسب قیمتیں نہ ملنے پر ہزاروں خاندان خسارے کا شکار

ندیم خان ، بارہمولہ ،کشمیر

پھلوں کی نقل و حمل کے دوران حکومت کی جانب سے عائد پابندیوں اور ٹیکسوں نےکشمیری کاشتکاروں کی کمر توڑ دی
شعبہ باغبانی جموں و کشمیر کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ریاست کی ستر فیصد آبادی اس شعبے سے بالواسطہ یا بلا واسطہ منسلک ہو کر اپنا روزگار حاصل کرتی ہے۔ وادی کشمیر کے کاشتکاروں کو سیب کے درخت تیار کرنے میں برسوں گزر جاتے ہیں اس دوران انہیں ایک طویل اور مشقت بھرے دور سے گزرنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ صنعت پچھلے کچھ سالوں سے مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ کشمیر، ملک میں سیب کی کل فصل کا تقریباً 75 فیصد پیدا کرتا ہے، اور اسے اس کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے، جو جموں و کشمیر کی جی ڈی پی میں تقریباً 8.2 فیصد کا حصہ ڈالتا ہے۔ چیمبر آف آزاد پور فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ٹریڈرز کے صدر میتھارام کرپلانی نے کہا کہ کشمیر سے آنے والے سیب کی قیمت 2021 اور 2022 میں تقریباً 30 فیصد کم رہی ہے جس کی وجہ سے کاشتکاروں کو بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے، حکومتی تعاون کے بغیر ان کے لیے نقصانات پر قابو پانا بہت مشکل ہے، کرپلانی نے جو دہلی اگریکلچرل مارکیٹنگ بورڈ کے رکن اور کشمیر شاپنگ موڈاسپل مرچنٹس ایسوسی ایشن کے صدر بھی ہیں، اس کی کئی وجوہات بتائی ہیں۔ انہوں نے کہا ان سالوں میں ایک معیاری بمپر فصل ہوئی، لیکن پچھلے سال کے مقابلے پیکیجنگ اور ٹرانسپورٹیشن چارجز جیسے اخراجات تقریباً دگنے ہو گئے ہیں، قیمتیں براہ راست رسد اور طلب سے منسلک ہیں، چونکہ سپلائی زیادہ ہے اس لیے مصنوعات کی شرح میں تقریباً 30 فیصد کمی آئی ہے”۔
آپ کو شاید یاد ہوگا جب مرکزی سرکار کی جانب سے امریکہ سے درآمد ہونے والے سیب سے 20 فیصد درآمدی ڈیوٹی کم کرنے کا اعلان کیا تھا جس سے کشمیر میں میوہ کے بیوپاریوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔ دراصل 2018 میں امریکہ نے ہندوستان سے برآمد ہونے والے اسٹیل پر 25 فیصد اور ایلومینیم پر 10 فیصد امپورٹ ڈیوٹی بڑھا دی تھی۔ ان شرحوں کی وجہ سے ہندوستان پر 24 کروڑ ڈالر یعنی تقریباً 1650کروڑ روپے سالانہ کا اضافی بوجھ پڑا تھا۔ ہندوستان ہر سال تقریباً 10 ہزار کروڑ روپے کے اسٹیل اور ایلومینیم مصنوعات امریکہ کو برآمد کرتا ہے۔اس کے جواب میں انتقامی کارروائی کے طور حکومت ہند نے 2019 میں 28 مصنوعات پر 20 فیصد ڈیوٹی ٹیکس بڑھایا تھا جس میں سیب بھی شامل ہے۔ تاہم اس فیصلے کو بعد میں واپس لیا گیا تھا، مگر کشمیر سے لے کر ہماچل پردیش تک کے بیوپاریوں کا ماننا ہے کہ 2019 سے سیب کی قیمتوں میں بہت زیادہ کمی آئی ہے۔
کشمیر میں پیداوار کی اچھی واپسی کی امیدیں دم توڑ گئی ہیں اور زیادہ تر کاشتکار اور تاجر اپنی مالی حالت سے پریشان ہیں۔ کچھ سیب کاشتکاروں سے دعوت نیوز نے بات کی تو انہوں نے کہا، کٹائی کے موسم کے دوران لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے سری نگر جموں قومی شاہراہ کے بار بار بند ہونے اور پھلوں سے لدے ٹرکوں کے کئی دنوں تک ایک ساتھ پھنسے رہنے کا اثر پڑا ہے، جس کی وجہ سے میوہ ٹرکوں میں ہی خراب ہوجاتا ہے پھر جیسے تیسے کرکے یہ ٹرک منڈیوں میں پہنچ بھی جاتے ہیں لیکن ان خراب ہونے والے سیبوں کو خریدنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا، نتیجے میں ان کاشتکاروں کو کروڑوں روپیوں کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’16 کلو وزنی سیب کے ہر ڈبے کا خرچہ 500 روپے سے زیادہ ہے، جس میں پیکجنگ، فریٹ چارجز اور کیڑے مار ادویات اور کھادوں کا استعمال شامل ہے لیکن ہمیں فی ڈبہ اوسطا صرف 400 روپے ہی مل رہے ہیں‘۔ انہوں نے مزید  کہا کہ ”حکومت کو آگے آنا ہو گا اور ہمیں بچانا ہو گا، ورنہ موجودہ حالات کے پیش نظر بھاری نقصانات پر قابو پانا ہمارے لیے بہت مشکل ہے” کرپلانی نے کہا کہ مرکزی حکومت کو جموں و کشمیر میں باغبانی کی صنعت پر پوری توجہ دینی ہو گی۔ حکومت پیکیجنگ میں استعمال ہونے والی مصنوعات پر سبسیڈی دے سکتی ہے، اچھے معیار کے گتے فراہم کر سکتی ہے، ٹرانسپورٹیشن چارجز طے کر سکتی ہے اور پھلوں کو لے جانے والے ٹرکوں پر ٹیکس ختم کر سکتی ہے۔ اگر اخراجات میں کمی آتی ہے تو کسانوں اور سیب کی تجارت سے منسلک افراد کو پریشانی سے بچایا جا سکتا ہے۔ کرپلانی نے بینک قرضوں پر سود کی معافی اور کسانوں کے لیے نرم قرضوں کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ "صورتحال ایسی ہے کہ وہ اس سیزن میں اپنے سرمائے کا ایک بڑا حصہ کھو سکتے ہیں، اور قرضوں کی ماہانہ اقساط واپس کرنے کے قابل نہیں ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چیمبر باغبانی کے شعبے کو جدید بنانے کے لیے وادی میں باقاعدہ ورکشاپس کا انعقاد سمیت اپنا تجربہ شیئر کرنے کے لیے تیار ہے۔ کرپلانی نے، جو پچھلی کئی دہائیوں میں کشمیر کا اکثر دورہ کرتے ہیں، پھلوں کی حمل و نقل کے لیے تمام باغات کو ڈھکنے والی میکارمیڈ سڑکوں کی تعمیر گاؤں کی سطح پر کنٹرولڈ ماحول (CA) کولڈ اسٹورز قائم کرنے اورکسانوں کو درجہ بندی کے لیے جدید ترین مشینری نصب کرنے اور ٹیکس سے بچنے کے لیے جدید ترین مشینری نصب کرنے کی ترغیب دی۔ ٹیکس سے بچنے کے لیے ایران کے راستے افغانستان سے درآمد کیے جانے والے سیب پر ڈیوٹی عائد کرنے کی وکالت کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ملک میں کسان اپنی پیداوار صحیح قیمت پر فروخت کر سکیں۔ کشمیری سیب بنگلہ دیش سمیت مختلف ممالک کو بھی برآمد کیے جاتے ہیں۔ حکومت کو متعلقہ حکومتوں کے ساتھ مسئلہ اٹھانے کے بعد مصنوعات کو ڈیوٹی سے پاک اشیاء میں شامل کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔
کاشتکاروں کا دعویٰ ہے کہ بھارت کی مختلف منڈیوں میں گزشتہ سالوں سے سیب اور دیگر میوہ کی قیمتیں مسلسل کم ہو رہی ہیں۔ فروٹ گروورس اور مالکین باغات نے بتایا کہ عام طور پر نومبر اور دسمبر کے اختتام کے بعد سیب کے نرخ بڑھ جاتے ہیں لیکن گزشتہ سال ہم نے دیکھا کہ ریٹ کم ہوگئے تھے، جس کی وجہ سے جن فروٹ گروورس کو بہت زیادہ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ میوہ بیوپاریوں اور مالکین باغات نے دعوت نیوز کو یہ بھی کہا کہ ابھی تک ہم نے بڑی تعداد میں اسٹوریج کیے ہوئے ناشپاتی کے ڈبے بیرون منڈیوں میں بھیجے ہیں، کیونکہ ہم قیمت بڑھنے کا انتظار کر رہے ہیں،  لیکن ناشپاتی کی قیمتیں بڑھنے کے بجائے ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہو رہی ہیں، جو ناشپاتی کا ایک ڈبہ 1500 سو میں فروخت ہونا چاہیے تھا وہ ڈبہ 400 روپے میں فروخت ہورہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم میوہ اسٹور میں رکھنے کے لیے مجبور ہیں تاوقتیکہ قیمتوں میں اضافہ نہ ہو جائے۔
ضلع شوپیان کے تاجر اور کاشتکار کا کہنا ہے کہ جب سے ایرانی اور ترکی سے ملک میں سیب آنا شروع ہوئے ہیں تب سے کشمیر کے سیب کی قیمتیں بہت کم ہوئی ہیں جو ہمارے لیے کافی پریشانی کا سبب بنتا جا رہا ہے۔ کشمیر کے متعدد تاجروں نے یہ بھی بتایا کہ دہلی کے بازار میں کام کرنے والے تاجر انہیں انتہائی کم قیمت پر سیب فروخت کرنے کا دباؤ ڈال رہے ہیں، جس سے انہیں بھاری نقصان ہو رہا ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں گزشتہ سالوں کی طرح امسال بھی کاشتکاروں کو خسارہ نہ اٹھانا پڑے۔ سیب کے تاجرین نے بتایا بیرون ممالک ایران اور ترکی سے ملک ہندوستان میں کم ٹیکس پر سیب آرہے ہیں جس کی وجہ سے یہاں سیب کی قیمتیں کم ہوگئی ہیں اور قریب چالیس ہزار سیب کی پیٹیوں کی فروخت ابھی باقی ہے جو کولڈ اسٹوریج میں بند ہیں۔ ضلع بارہمولہ سے تعلق رکھنے والے ایک اور میوہ تاجر نے بتایا کہ گزشتہ تین سالوں سے کشمیری سیب کی قیمت فی پیٹی 500 سے400 روپے تک کم ہوئی ہے اور وہ مالکین باغ جن کی سب سے زیادہ پیداوار کشمیر میں ہی ہے، بہت پریشان ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ نرخوں میں کمی کی وجوہات ایران سے سیب کی درآمد ہے جو روزانہ کی بنیاد پر دہلی پہنچ رہے ہیں حالانکہ سرکار کہہ رہی ہے کہ ایران اور ترکی کے سیب کو ایک سال پہلے روک دیا گیا تھا لیکن پھر کشمیر کے سیب کی قیمتوں میں اضافہ کیوں نہیں ہوا۔ غلام محی الدین میر کے 13 ایکڑ کے باغ میں سیب کے 200 سے 300 درخت ہیں، جس سے انہیں ہر سال عام طور سے 32000 ڈبّے پھل حاصل ہوتے ہیں، جن میں سے ہر ایک ڈبّے میں 20 کلو سیب ہوتا ہے۔ ’’ہم پہلے ایک ڈبّہ 1000 روپے میں فروخت کرتے تھے۔ لیکن ابھی ہمیں ایک ڈبّہ کے صرف 400 روپے مل رہے ہیں‘‘۔ مرکزی حکومت نے 5 اگست کو جب دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کے بعد ریاست کو یونین ٹیریٹری (مرکز کے زیر انتظام علاقہ) میں تبدیل کر دیا تھا، تبھی سے سیب کی یہ پوری صنعت زبردست بحران کا شکار ہے۔
مقامی اقتصادیات کا ایک بڑا حصہ اسی پھل پر مبنی ہے۔ جموں و کشمیر میں سیب کی باغبانی 124519 ہیکٹر رقبے میں کی جاتی ہے، جس سے سال 20-21-22 میں سیب کی کل پیداوار 751 ملین (18 لاکھ 74 ہزار 319) میٹرک ٹن سے زیادہ ہوئی (ڈائریکٹوریٹ برائے باغبانی، کشمیر کا ڈیٹا) حکومتِ جموں و کشمیر کے محکمہ باغبانی کا تخمینہ ہے کہ جموں و کشمیر میں باغبانی (بشمول سیب) 33 لاکھ لوگوں کا ذریعہ معاش ہے۔ باغبانی کے ڈائرکٹر، اعجاز احمد بھٹ نے بتایا کہ یہ صنعت 1004 ہزار کروڑ روپیوں کی ہے۔ شوپیاں میں باغ کے مالک، جاوید احمد میر کو تشویش ہے کہ سال 2023 میں سیب سے ہونے والی ان کی سالانہ آمدنی شاید آدھی ہی رہ جائے۔ ریاست کی باغبانی صنعت 1004 ہزار کروڑ روپے کی ہے اور یہ کشمیر کے اندر اور باہر کے لاکھوں لوگوں کو ذریعۂ معاش فراہم کرتی ہے لیکن افسوس کہ بہت سارے کاشتکار اس صنعت کو خیر آباد کہنے کے لیے مجبور ہورہے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پورے ملک میں سالانہ 2437 میٹرک ٹن سیب کی پیداوار ہوتی ہے جس میں سے 70 فیصد پیداوار جموں و کشمیر سے ہوتی ہے۔ اس شعبے کے ساتھ تقریباً 7 لاکھ کنبے یا 33 لاکھ افراد وابستہ ہیں۔ اسی شعبے سے جموں وکشمیر کی معیشت کا سات فیصدی حصہ آتا ہے اور ہر سال یہاں کی پیداوار میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ کاشتکاروں کا مطالبہ ہے کہ حکومت ان کے مسائل اور مطالبات کا بغور جائزہ لے کر انہیں فوری طور پورا کرے اور سیب کی کاشت کرنے والوں کو ایک مؤثر مارکیٹنگ پلیٹ فارم مہیا کرائے تاکہ مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوسکیں۔ باغوں کے مالکین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت چاہے تو وہ کشمیر کے سیب کے ڈبوں کی مقرر قیمت کر سکتی ہے، انہوں نے کہا کہ اگر کیلے، سنترے، آم اور تربوز وغیرہ کی قیمت مقرر ہو سکتی ہے تو سیب کی کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا کہ سیب کی قیمتوں کو یقینی بنایا جائے تاکہ جموں و کشمیر میں کسانوں کی مجموعی آمدنی میں اضافہ ہو، بے روزگاری دور ہو اور کشمیری عوام تمام شعبوں میں ترقی و بلندی سے ہمکنار ہوں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ آنے والے وقت میں میوے کی  مناسب قیمتیں  لگائی جائیں گی جس سے کاشتکار گزشتہ سالوں میں ہونے والے نقصان کی بھرپائی کر سکیں گے۔
***

 

***

 جب سے ایرانی اور ترکی سے ملک میں سیب آنا شروع ہوئے ہیں تب سے کشمیر کے سیب کی قیمتیں بہت کم ہوئی ہیں جو ہمارے لیے کافی پریشانی کا سبب بنتا جا رہا ہے۔ کشمیر کے متعدد تاجروں نے یہ بھی بتایا کہ دہلی کے بازار میں کام کرنے والے تاجر انہیں انتہائی کم قیمت پر سیب فروخت کرنے کا دباؤ ڈال رہے ہیں، جس سے انہیں بھاری نقصان ہو رہا ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں گزشتہ سالوں کی طرح امسال بھی کاشتکاروں کو خسارہ نہ اٹھانا پڑے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 اکتوبر تا 07 اکتوبر 2023