’کارسیوکوں کی بوگی آر ایس ایس کے اشارے پرہی جلائی گئی تھی‘
عوام بی جے پی حکومت کی فرقہ پرست پالیسی کی اصلیت سمجھ چکے ہیں:شنکر سنگھ واگھیلا
’’میرے بی جے پی چھوڑنے سے مودی کو گجرات کے سیاسی افق پر ابھرنے کا موقع ملا‘‘۔ سابق چیف منسٹر گجرات کا ’ نیوزلانڈری کو دیے گئے انٹرویو کا خلاصہ
گجرات کی سیاست کے انسائکلوپیڈیا کہلائے جانے والے سیاسی میدان کے ایک نہایت تجربہ کار لیڈر، شنکر سنگھ واگھیلا نے کہا کہ 1947تک سیاست کا مقصد، انگریزوں سے آزادی کا حصول تھا، جس کے روح رواں گاندھی جی تھے۔ آزادی کے بعد ملک کی سیاست سے حب الوطنی ختم ہوگئی اور خود غرضی باقی رہ گئی۔ آج کے سیاسی ماحول میں خود غرضی، موقع پرستی او راپنے ہی دوستوں کو دھوکے سے کنارے کرنے کی پالیسی عام ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کے میدان میں قدم رکھنے کے لیے عوام کبھی کسی سیاست دان کو مدعو نہیں کیا کرتے بلکہ سیاست دان اپنی مرضی سے محض اپنے مفادات کے حصول کے لیے اس میدان میں خود قدم رکھتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ سیاست داں بھی بدلتے رہتے ہیں لیکن عوام وہی ہیں جو 1947کے بعد سے آج تک بھارت میں رہتے ہوئے اپنے ووٹ کے ذریعے، اپنے ہاتھوں سے سیاست دانوں کو حکومتیں اور اقتدار سونپتے چلے آرہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کے اور کیشو بھائی پٹیل کے درمیان اختلافات پیدا ہونے کی وجہ، صرف بی جے پی کی احمقانہ پالیسیاں رہی ہیں حالاں کہ جن سنگھ کی انتظامی امو رکی ساری ذمہ داری انہیں دو قائدین کے کندھوں پر تھی۔ پتہ نہیں کس بات پر ان مخلص قائدین پر سے جن سنگھ کی اعلیٰ کمان کا اعتبار اٹھ گیا۔ لگتا ہے کوئی آستین کا سانپ ان لیڈروں کے خلاف سیاسی خود غرضی کا زہر گھولنے میں کامیاب ہوگیا۔ ویسے بھی واگھیلا ، بی جے پی کے قیام سے پہلے ہی جن سنگھ سے اپنا تعلق توڑ چکے تھے۔ بی جے پی کی قیادت نے بعد میں گجرات میں مہا بھارت رچی تاکہ ریاست کے عوام پر ان دونوں قائدین کے گہرے اثر و رسوخ کی جڑیں کاٹ سکیں اور ان کی گرفت کمزور ہو۔ اس کے بعد کیشو بھائی پٹیل، گجرات کے وزیر اعلیٰ بنائے گئے۔ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد ان کی پالیسی میں اچانک تبدیلی آئی۔ چنانچہ انہوں نے خود اپنے منتخب عوامی نمائندوں کو ملاقات کا وقت دینا بند کردیا۔ ایسی صورتحال میں فطری طور پر عوام اپنی شکایات او رمسائل کے حل کے لیے پہلے اپنے ایم ایل اے سے رجوع کریں گے اور پھر عوامی نمائندے ان شکایات کی یکسوئی کے لیے وزیراعلیٰ سے رجوع کریں گے۔ جب ریاست کے وزیر اعلیٰ خود اپنے ہی نمائندوں کو ملاقات کا وقت نہیں دیں گے تو عوامی مسائل کب حل ہوں گے اور مسائل حل نہیں ہونے کی صورت میں عوامی غم و غصے کا سامنا ان کے ایم ایل اے ہی کو کرنا پڑے گا۔ ایسی صورتحال کو جانتے بوجھتے ہوئے جب ایک وزیر اعلیٰ اپنے ہی ایم ایل ایز کو کوئی اہمیت نہ دے تو ایسی حکومت کا اقتدار میں قائم رہنے کا اخلاقی حق خود بخود ختم ہوجاتا ہے۔ ایک عرصے تک اگر ایسی ہی صورت حال برقرار رہے اور یہ مدت طویل تر ہوتی جائے تو اس کی سیاسی اہمیت گھٹ کر صفر رہ جاتی ہے۔ جب کسی ریاست میں سیاسی اور انتظامی صورت حال اس درجہ بدترین ہوجائے تو مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق ان کے اپنے ایم ایل ایز حکومت سے الگ ہوگئے اور کانگریس میں شامل ہوگئے۔ واگھیلا نے کہا کہ 1996میں اگر وہ سیاسی افق پر اوپر اٹھنے کی خواہش کو نہ دباتے تو مودی جی ہرگز آج اس مقام پر نہ ہوتے جس مقام پر وہ آج ہیں۔ انہوں نے شاندار سیاسی کرئیر کے مقابلے میں عوام کی خدمت کرنے کو ترجیح دی او حقیقتاً ایک عوامی خدمت گار کی حیثیت سے میدان میں جمے رہے۔ ایک کڑوے سچ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 1996میں پارٹی سے بغاوت کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو اندرونی طور پر کمزور محسوس ضرور کیا تھا لیکن جس نے عوام کی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کردی ہو، وہ اپنے اسی مقصد حیات کے ساتھ آج بھی عوامی خدمت سے جڑا ہوا ہے۔ بی جے پی کے ساتھ کسی بھی قسم کا کوئی سمجھوتہ کرنا انہوں نے مناسب نہیں سمجھا۔ کہنے لگے اگر وہ بی جے پی کے ساتھ جڑے رہتے تو ان کا سیاسی مقام و مرتبہ اور اثر آج ہرگز اتنا نہیں ہوتا جتنا بی جے پی سے باہر رہ کر قائم ہے۔ کروڑوں کا ذاتی کاروبار کو چھوڑ کر صرف عوام پر حکومت کرنے کے ارادے سے انہوں نے سیاست کے میدان میں قدم نہیں رکھا۔ دراصل بی جے پی کی جانب سے انہیں مسلسل نظرانداز کیے جانے کے بعد اور پھر ان کی اپنی وسیع النظر ی کی عادت کے پیش نظر، کانگریس نے خود انہیں اپنی صفوں میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی۔ ویسے یہ ایک فطری بات ہے کہ ایک منتخب عوامی نمائندہ، ایک پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں جانے کے بجائے، پانچ سال کے لیے گھر میں بیکار بیٹھا رہنا کیوں پسند کرے گا، واگھیلا کے بی جے پی سے نکل جانے کے بعد ہی مودی کو گجرات کے سیاسی افق پر ابھرنے کا سنہری موقع ہاتھ لگا، جو ابھی تک آر ایس ایس کے ایک عام پرچارک تھے اور سیاست سے کوسوں دور تھے۔ آخر کار ایک دن آر ایس ایس نے انہیں سیاسی میدان میں اتارہی دیا او رمودی ریاستی انتخابات کی دوڑ میں عملی طور پر شامل ہوگئے۔ اس کے بعد کانگریس نے جب مودی کی ناکام ازدواجی زندگی کو موضوع بناکر سیاسی پروپگنڈے کا آغاز کیا تب ایک باشعور شہری اور قابل احترام عوامی لیڈر کی حیثیت سے واگھیلا نے کانگریس کے اس قدم کو غیر شائستہ اور غلط کہا اور کہا کہ جس کو بھی اپنی خانگی زندگی جس انداز سے بھی گزارنی ہو، اسے گزارنے دیجیے۔ بازاروں میں یوں کسی بھی سیاسی شخصیت کے نجی معاملات کو موضوع بناکر اس طرح کی گفتگو کرنا غیر اخلاقی حرکت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی سیاست داں میں حقیقتاً اگر کوئی خامی یا برائی موجود ہوتب بھی اس کا تذکرہ سیاسی انتخابی میدان میں کرنا صحیح نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ سیاسی جماعتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ عوام سے ووٹ ویسے ہی آسانی کے ساتھ حاصل نہیں ہوا کرتے۔ واگھیلا کے لاکھ منع کرنے کے باوجود کانگریس اسی موضوع پر سیاسی چال چلنا چاہتی تھی کیوں کہ ہر سیاسی پارٹی کی طرح ان کی بھی خواہش تھی کہ کسی طرح انہیں ووٹ مل جائیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی میدان میں اپنے ساتھیوں کو دھوکہ دینا ، ان کا نا حق قتل کرنا یا کروانا، آپس میں بلاوجہ جھگڑا کروادینا، اب کوئی ناجائز یا خراب کام نہیں سمجھا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ اپنی پوری سیاسی زندگی میں انہوں نے کسی غیر اخلاقی زبان، غیر انسانی سلوک اور غیر قانونی حرکتوں کا ارتکاب نہیں کیا۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب آر ایس ایس کے حکم پر بی جے پی نے کیشو بھائی پٹیل کو بھی اقتدار سے بے دخل کردیا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ آر ایس ایس کے تھنک ٹینک میں آج تک پختگی پیدا نہیں ہوئی۔ ہاں! کسی معمولی سے معمولی سیاسی فائدے کی خاطر کسی بھی جگہ فرقہ وارانہ فسادات برپا کرنے کی وہ ماہر ہے اور انہیں چالبازیوں کی بنیاد پر بی جے پی گجرات میں 1995سے آج تک اقتدارپر قابض ہے۔ میں اس حقیقت کا اظہار کرنے میں ہرگز کوئی خوف محسوس نہیں کرتا کہ اگر بی جے پی اور آر ایس ایس گودھرا ٹرین کے حادثہ کے نام پر خود اپنے ہی بے قصور کارسیوکوں کو زندہ جلا کر مار نہ ڈالتے، بے گناہ نہتے مسلمانوں کا قتل عام نہ کرتے، مسلمان عورتوں کی عزتیں لوٹی نہ جاتیں، ان کے گھر جلائے نہ جاتے تو 2002میں بی جے پی کا وجود گجرات سے پوری طرح ختم ہوچکا ہوتا۔ آج بھی ہندووں کو بار بار یہ کہہ کر ڈرایا جارہا ہے کہ بھارت میں ہندو مائیں، بہنیں بیٹیاں، سب مسلمانوں کے نشانے پر ہیں، اگر بی جےپی نہیں ہوگی تو ان کی عزت و آبرو گلی گلی لٹتی رہے گی۔ میں ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں کہ گودھرا ٹرین کے جس ڈبے میں آر ایس ایس کے کار سیوک سفر کررہے تھے، اس ڈبے میں آگ خود آر ایس ایس کے اشارے پر لگائی گئی تھی کیوں کہ آر ایس ایس کے علاوہ، باہر کے کسی آدمی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس ڈبے میں آر ایس ایس کے کارسیوک سفر کررہے ہیں۔ چنانچہ گجرات اسمبلی انتخابات جیتنے کے لیے اپنے کارسیوکوں کا قتل خود بے رحم آر ایس ایس نے کروایا تھا۔ سیاست میں مودی کے داخلے کا استقبال کرنا، آر ایس ایس کی عملی مجبور تھی اور ان کے بنیادی اصولوں کی پاسداری بھی کیوں ان کے دستور کے مطابق آر ایس ایس کا پرچارک ہی مقامی تنظیم کا سکریٹری ہوسکتا ہے۔ جب واگھیلا کو جو مقامی آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری تھے، تنظیم کا صدر مقرر کیا گیا تو جنرل سکریٹری کی جگہ خالی ہوگئی جس پر فوراً مودی کو بٹھادیا گیا ۔ اس انتخاب پر تنظیم کے مقامی ذمہ داروں نے سخت اعتراض کیا تھا اور مودی کے بجائے لال جی بھائی ٹنڈن کے نام کی سفارش کی تھی۔ ان تمام مخالفتوں کے باوجود آر ایس ایس نے اپنا فیصلہ برقرارر کھا اور مودی کو جنرل سکریٹری بنادیا گیا کیوں کہ آر ایس ایس ، سیاسی میدان میں بی جے پی پر مکمل کنٹرول چاہتی تھی اور مودی کی شخصیت ان کے لیے موزوں تھی۔
کانگریس کے ساتھ ان کے تعلقات کے سوال پر واگھیلا نے بتایا کہ ان کی مادھو راو سندھیا کے ساتھ ایک فیصلہ کن بات چیت کے بعد ان کی پارٹی، کانگریس سے اتحاد کرتے ہوئے اس میں ضم کردی گئی کیوں کہ انتخابات میں اگر ان کی پارٹی اور کانگریس علیحدہ اپنے طور پر انتخابات میں حصہ لیتے تو یقیناً ووٹ تقسیم ہوجاتے اور بی جے پی کو سیاسی فائدہ ہوتا۔ کانگریس اور بی جے پی کے تنظیمی کلچر کے سوال پر انہوں نے وضاحت کی کہ دونوں کا سیاسی تنظیمی کلچر ایک دوسرے سے مختلف ہے اور اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ سیشن میں کانگریس کی صدر سونیا گاندھی، جب تقریر کرنے کے لیے کھڑی ہوئیں اور وہ اپنی تقریر شروع کرنا ہی چاہتی تھیں کہ بحیثیت کانگریسی ممبر آف پارلیمنٹ انہوں نے ان سے پہلے کچھ کہنے کے لیے اپنا ہاتھ اٹھایا جس پر سندھیا نے انہیں مجھے خاموش رہنے اور صدر کانگریس کی تقریر سننے کا اشارہ کیا۔ انہیں بتایا گیا کہ جب کانگریس پارٹی کے صد رکے ایوان میں بیان سے پہلے اس پارٹی کے ارکان کچھ نہیں بولتے جبکہ بی جے پی میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔ چنانچہ وہ بغیر کچھ کہے خاموشی کے ساتھ اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔ اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کچھ خاص سیاسی نکات بیان کیے کہ بھارت میں کوئی بھی حکومت اس کی ملکیت کے اعتبار سے چلتی ہے جیسے کہ کانگریس پارٹی آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد سے آج تک نہرو خاندان کی ملکیت کی حیثیت سے کام کررہی ہے۔ پارلیمنٹ میں بی جے پی کا ممبر، ایوان میں اپنے قائد کے بولنے سے پہلے جو کچھ بولنا چاہتا ہے بول سکتا ہے لیکن کانگریس کا ممبر ایسا نہیں کرسکتا۔ کانگریس کی اس حکمت عملی پر انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہ یہ تو ایسا ہی ہوا جیسے کسی مریض کا بے ہوشی کا انجکشن دیے بغیر آپریشن کیا جارہا ہو۔ البتہ انہو ںنے تسلیم کیا کہ بی جے پی کی اعلیٰ کمان ، لیڈروں اور ان کے اپنے منتخب عوامی نمائندوں کے درمیان بہت بڑا خلا پایا جاتا ہے۔
آج ریاست گجرات کا انتخابی ماحول 2022کے اسمبلی انتخابات کی وجہ سے کافی گرمایا ہوا ہے۔ بی جے پی کے سارے لیڈر دن رات زور و شور سے مہم چلانے میں پوری قوت کے ساتھ لگے ہوئے ہیں کیوں کہ انہیں یقین ہے کہ ان انتخابات کے نتائج، بی جے پی کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ یاد رہے کہ واگھیلا کا بیٹا بھی ان انتخابات میں حصہ لے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گجرات میں کانگریس کا پلڑا بلاشبہ بھاری ہے پھر بھی کانگریس کی انتخابی مہم اطمینان بخش نہیں ہے۔ بی جے پی سرکار کی مسلسل نا اہلی کی وجہ سے کانگریس ووٹرس کا تناسب اپنے آپ ہی بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس پارٹی کی مالک سونیا گاندھی ہیں لیکن خالص جمہوری اور سیکولر پارٹی کی حیثیت سے لوگ کانگریس پارٹی پر آج بھی مکمل اعتماد کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف بی جے پی اپنی دیگر ہم خیال اور ہمنوا پارٹیوں کو دھوکہ دینے کے لیے بدنام ہوچکی ہے۔
’’بھارت جوڑو ‘‘یاترا کے سربراہ راہول گاندھی کے بارے میں سوال کرنے پر انہوںنے دو ٹوک جواب دیا کہ راہول کوئی سیاستداں نہیں ہے بلکہ ان کے خون میں سیاست ہی نہیں ہے۔ بنیادی طور پر وہ ایک ایماندار اور صاف گو انسان ہیں۔ انہیں تو محض راجیو گاندھی کی غیر موجودگی میں، بادل ناخواستہ سیاست کے میدان میں اتارا گیا۔ بھارت جوڑو یاترا کے اختتام کے بعد پورے بھارت میں راہول گاندھی کی ایک نئی ، نہایت صاف ستھری اور نکھری ہوئی شبیہ عوام کے سامنے آئے گی۔ وہ ایک سیدھا سادہ آدمی ہے جسے بھارت جوڑو یاترا کے دوران ہم سب نے دیکھا کہ مختلف ریاستوں سے گزرتے ہوئے، سڑکوں پر کس طرح عوام شہریوں سے بچوں سے خواتین اور بزرگوں سے سیکوریٹی کی پروا کیے بغیر کس طرح پرتپاک انداز سے ملتا ہے انہیں لگے لگالیتا ہے۔
انہو ں کہا کہ سیاست دانوں کے لیے کسی پارٹی کے پرچم تلے چناو لڑنا اور چناو جیتنا ایک الگ کام ہے اور چناو جیتنے کے بعد کسی اور پارٹی میں شامل ہوجانا، ان کا اپنا شخصی اور مکمل اختیاری عمل ہے جس پر کسی بھی پارٹی کے ایجنڈے میں اس پر پابندی عائد کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ہم نے سب سے زیادہ کانگریس کے کئی ایم ایل ایز کو انتخابات سے پہلے ہی یہ اعلان کرتے ہوئے بارہا سنا ہے کہ انتخابات جیتنے کے بعد بی جے پی میں جانے سے بھلا ہمیں کون روک سکتا ہے۔
اس سوال پر کہ آج سوشل میڈیا کے اس دور میں کن سیاسی پارٹیوں اور کن سیاسی قائدین کا اثر کونسے مقامات پر ہے، انہوں نے جواب دیا کہ گجرات میں آج بی جے پی ، بلاشبہ سب سے آخری مقام پر کھڑی ہے کیوں کہ وہاں کے ووٹرس باشعور ہوچکے ہیں اور ان کے ذہنوں میں یہ بات گھر کرچکی ہے کہ بی جے پی پارٹی نکمی ہے، ناکارہ ہے، نا اہل ہے۔ ان کے لیڈر اپنی باتوں اور نا اہلی کی وجہ سے اپنے آپ کو جھوٹے اورلا پرواہ ثابت کرچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام ان انتخابات میں بی جے پی کو ہرگز ووٹ نہیں دیں گے۔ اس کے باوجود عوام سے بی جے پی کے حق میں ووٹ استعمال کرنے کی امید رکھنے پر انہوں نے ایک دلچسپ دیہاتی کہاوت ’’بھروسے کی بھینس کھلگا جنی‘‘ کا حوالہ دیتے کہا کہ دیہاتوں میں جب کوئی بھینس بچہ جننے والی ہوتی ہے تو اس کا مالک اس سے یہی امید لگائے بیٹھتا ہے کہ اس کی بھینس ضرور مادہ بچہ ہی جنے گی لیکن جب وہ بھینس نربچہ جنتی ہے تو بھینس کا مالک مایوس ہوجاتا ہے۔ یہی حال بی جے پی کے ایم ایل ایز کا ہے جو آج گجرات کے عوام سے اس بات کی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اب کی بار بھی وہ گجرات میں بی جے پی ہی کو ووٹ دیں گے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ گجرات کے عوام 27سال میں پوری طرح باشعور ہوچکے ہیں۔ اب تک بی جے پی نے ، انہیں جتنا بے وقوف بنانا تھا، بناچکی، اب وہ پھر ان کے جال میں پھنسنے والے نہیں ۔ عوام اپنے اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے ، رشوت ، مہنگائی ، بیروزگاری، لڑائی جھگڑے، فرقہ وارانہ فسادات سے مکمل چھٹکارا پانا چاہتے ہیں۔ ریاست میں پرامن ماحول چاہتے ہیں۔ بی جے پی کے لیڈروں کو گھر گھر جاکر انہیں ووٹ دینے کے لیے بھیک مانگنے سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔
آخر میں واگھیلا نے سیاسی میدان کے ایک تجربہ کار سپاہی کی حیثیت سے عوام کو مشورہ دیا کہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر وہ کسی بھی الجھن کا شکار نہ ہوں۔ کانگریس کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کریں اور مستقبل میں ہر قسم کی پریشانی سے محفوظ رہیں۔
(بشکریہ نیوز لانڈری ترجمہ :سلیم الہندیؔ حیدرآباد)
***
سیاست میں مودی کے داخلے کا استقبال کرنا، آر ایس ایس کی عملی مجبور تھی اور ان کے بنیادی اصولوں کی پاسداری بھی کیوں ان کے دستور کے مطابق آر ایس ایس کا پرچارک ہی مقامی تنظیم کا سکریٹری ہوسکتا ہے۔ جب واگھیلا کو جو مقامی آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری تھے، تنظیم کا صدر مقرر کیا گیا تو جنرل سکریٹری کی جگہ خالی ہوگئی جس پر فوراً مودی کو بٹھادیا گیا ۔ اس انتخاب پر تنظیم کے مقامی ذمہ داروں نے سخت اعتراض کیا تھا اور مودی کے بجائے لال جی بھائی ٹنڈن کے نام کی سفارش کی تھی۔ ان تمام مخالفتوں کے باوجود آر ایس ایس نے اپنا فیصلہ برقرارر کھا اور مودی کو جنرل سکریٹری بنادیا گیا کیوں کہ آر ایس ایس ، سیاسی میدان میں بی جے پی پر مکمل کنٹرول چاہتی تھی اور مودی کی شخصیت ان کے لیے موزوں تھی۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 ڈسمبر تا 17 ڈسمبر 2022