کرناٹک: شیو موگا میں بجرنگ دل کے کارکن کے قتل کے الزام میں دو اور افراد گرفتار
نئی دہلی، فروری 23: ریاست کے وزیر داخلہ اراگا جنیندرا کے حوالے سے اے این آئی نے اطلاع دی کہ کرناٹک کے شیوموگا ضلع میں بجرنگ دل کے رکن ہرشا کے قتل کے سلسلے میں بدھ کو مزید دو افراد کو گرفتار کیا گیا۔ اس معاملے میں اب تک آٹھ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
جنیندرا نے کہا کہ اس معاملے میں تمام زاویوں کو دیکھنے کے لیے انکوائری جاری ہے۔ اے این آئی کے مطابق جنیندرا نے کہا ’’سینئر افسران، بشمول دو ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اور پولیس فورس، تحقیقات کر رہے ہیں۔‘‘
منگل تک اس کیس کے سلسلے میں چھ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا اور 12 سے پوچھ گچھ کی جا رہی تھی۔ پولیس نے چھ ملزمان کی شناخت محمد کاشف، سید ندیم، آصف اللہ خان، ریحان شریف، نیہان اور عبدالافنان کے نام سے کی ہے۔ ان سب کا تعلق شیوموگا سے ہے اور ان کی عمریں 20 سے 22 کے درمیان ہیں، سوائے کاشف کے جو 32 سال کا ہے۔
ہرشا پر اتوار کی رات شہر کی بھارتی کالونی میں روی ورما لین میں نامعلوم افراد نے حملہ کیا تھا۔ اگلے دن اس کے جنازے کے جلوس کے دوران تشدد پھوٹ پڑا جس میں 20 افراد زخمی ہو گئے۔ مردوں کے ہجوم نے شیوموگا میں متعدد مقامات پر مسلم اکثریتی علاقوں پر حملہ کیا اور مسلمانوں کے گھروں پر پتھراؤ کیا اور ان کی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔
پولیس نے کہا کہ ہرشا کے خلاف دو مقدمات زیر التوا ہیں – ایک فساد سے متعلق اور دوسرا مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے متعلق۔
منگل کو جنیندرا نے کہا کہ پولیس تمام ملزمین کے پس منظر کی جانچ کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے مطابق انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان سب کا ’’لمبا مجرمانہ ماضی‘‘ ہے۔
انھوں نے کہا ’’میں نے ڈائرکٹر جنرل آف پولیس پروین سود کو شیوموگا میں بڑھتے ہوئے سماج دشمن عناصر کے پیچھے کی وجہ جاننے کے لیے لکھا ہے۔ یہ ضلع کرناٹک بھر میں جرائم پیشہ افراد کے لیے ’’افزائش گاہ‘‘ میں تبدیل ہو رہا ہے۔‘‘
وزیر داخلہ نے ضلعی ہیڈکوارٹر ٹاؤن کے دو تھانوں میں تعینات پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی انکوائری کا حکم دیا۔
انھوں نے کہا کہ ’’ہمیں یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں ان دو تھانوں میں کتنے پولیس افسران اور اہلکار تھے۔ اور انھوں نے ان ملزمان کی نگرانی کیسے کی، جن کا بہت بڑا مجرمانہ ماضی ہے۔‘‘
جنیندرا نے کہا کہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا اور کیمپس فرنٹ آف انڈیا جیسی تنظیموں کے کردار پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔