زیر التوا مقدمات پر کوئی سیاسی بیان نہیں دیا جانا چاہیے: سپریم کورٹ
نئی دہلی، مئی 9: سپریم کورٹ نے منگل کو کرناٹک میں مسلمانوں کے لیے 4 فیصد ریزرویشن کو ختم کرنے پر سیاسی رہنماؤں کے بیانات پر اعتراض کیا۔
جسٹس کے ایم جوزف، جسٹس بی وی ناگارتھنا اور احسن الدین امان اللہ کی بنچ نے کہا کہ جو مسائل عدالت میں زیر غور ہیں ان پر سیاست نہیں کی جانی چاہیے۔ عدالت نے اپنی ناراضگی کا اظہار اس وقت کیا جب سینئر ایڈوکیٹ دشینت ڈیو نے کہا کہ وزیر داخلہ امت شاہ مسلم ریزرویشن کے بارے میں بیانات دے رہے ہیں۔
ڈیو نے عدالت کو بتایا ’’ہر روز وزیر داخلہ [امت شاہ] کہتے ہیں کہ ہم نے یہ [مسلم کوٹہ] ختم کر دیا ہے… یہ توہین عدالت ہے۔‘‘
24 مارچ کو کرناٹک میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے دیگر پسماندہ طبقات کے کوٹے سے مسلمانوں کے لیے 4 فیصد ریزرویشن کو ہٹا دیا تھا۔ یہ فیصلہ 10 مئی کو ہونے والے اسمبلی انتخابات سے قبل حکومت کی آخری کابینہ میٹنگ میں لیا گیا تھا۔
بسواراج بومائی حکومت نے کہا تھا کہ یہ ریزرویشن آئینی طور پر قابل عمل نہیں ہے اور اس نے اس 4% کوٹہ کو ریاست کی دو غالب برادریوں ووکلیگاس اور ویراشائیوا-لنگایتوں میں مساوی طور پر تقسیم کر دیا۔
لیکن 13 اپریل کو سپریم کورٹ نے کرناٹک حکومت سے کہا کہ کوٹہ کو ختم کرنے کے حکومتی حکم کے پڑھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی فیصلہ سازی کے عمل کی بنیادیں ’’انتہائی متزلزل اور ناقص‘‘ ہیں۔ 25 اپریل کو سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ فیصلے پر 9 مئی تک عمل درآمد نہ کیا جائے۔
اسی دن امت شاہ نے بی جے پی حکومت کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ پارٹی ’’مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن‘‘ میں یقین نہیں رکھتی ہے۔ 29 اپریل کو انھوں نے کہا کہ مسلمانوں کے ریزرویشن کو ختم کرکے بی جے پی نے کانگریس کی غلطی کو درست کیا ہے۔
منگل کو جسٹس ناگارتھنا نے کہا کہ عوامی رہنماؤں کو عدالت کے سامنے زیر التوا مسائل پر بات کرتے ہوئے خود پر قابو رکھنا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ جب معاملہ زیر سماعت ہے اور اس عدالت کے سامنے ہے تو ایسے بیانات نہیں دیے جانے چاہئیں۔