حجاب کو لے کر تنازعہ: ہائی کورٹ نے طلبا سے امن برقرار رکھنے کو کہا، بدھ کو بھی کیس کی سماعت جاری رہے گی

نئی دہلی، فروری 8: کرناٹک ہائی کورٹ نے منگل کو ان طلبہ سے کہا جو تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے کی اجازت دینے کے معاملے پر احتجاج کر رہے ہیں کہ وہ امن و سکون برقرار رکھیں۔

جسٹس کرشنا دکشت گورنمنٹ ویمنز پری یونیورسٹی کالج کی طالبات کی طرف سے دائر درخواستوں کی سماعت کر رہے ہیں جس میں کالج میں حجاب پہننے کی اجازت مانگی گئی ہے۔ یہ طالبات تقریباً ایک ماہ سے احتجاج کر رہی ہیں۔ عدالت نے معاملے کی مزید سماعت بدھ تک کے لیے ملتوی کر دی ہے۔

پچھلے کچھ دنوں میں کرناٹک کے کئی کالجوں میں طلبہ کے گروپوں کے درمیان تصادم دیکھنے میں آیا ہے۔ دریں اثنا آج کرناٹک حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ریاست کے تمام ہائی اسکول اور کالج 9 فروری سے 11 فروری کے درمیان تین دن کے لیے بند رہیں گے۔ یہ اس وقت ہوا جب کم از کم دو اور کالجوں کی ویڈیوز میں زعفرانی شال پہنے ہوئے مردوں کے گروپس کو حجاب پہننے والی خواتین کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے دکھایا گیا۔

آج کی سماعت میں جسٹس دکشت نے ایک ’’شر پسند طبقے‘‘ کو مورد الزام ٹھہرایا جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس نے اس تنازعہ کو ’’بھڑکایا‘‘ ہے۔

جسٹس دکشت نے کہا ’’لیکن احتجاج کرنا، سڑک پر جانا، نعرے لگانا، طلبا پر حملہ کرنا، طلبا کا دوسروں پر حملہ کرنا، یہ اچھی چیزیں نہیں ہیں۔‘‘

اس سے پہلے دن میں دکشت نے کہا تھا کہ وہ آئین کی پاسداری کریں گے اور کالجوں میں طالبات کو حجاب پہننے کی اجازت دینے کے معاملے کی سماعت کے دوران جذبات کا شکار نہیں ہوں گے۔

جسٹس کرشنا دکشت نے کہا ’’آئین میرے لیے بھگود گیتا ہے۔ میں نے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہے۔ آئیے جذبات کو ایک طرف رکھیں۔‘‘

ہندوستان کا آئین کسی شخص کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے جو کہ بعض پابندیوں کے ساتھ ایک بنیادی حق ہے۔ ماضی میں عدالتوں نے کہا ہے کہ حجاب پہننے کا حق ان تحفظات کے تحت آئے گا جن کی آئین کے تحت ضمانت دی گئی ہے۔

آج کی سماعت کے دوران محمد طاہر نے درخواست گزاروں میں سے ایک کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ تعلیمی سال ختم ہونے میں صرف دو ماہ رہ گئے ہیں اور درخواست کی کہ طالبات کو کم از کم اس مدت کے لیے حجاب پہننے کی اجازت دی جائے۔

عدالت نے طاہر کے بیان کا نوٹس لیتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل سے جواب طلب کر لیا۔ لائیو قانون کے مطابق جسٹس دکشت نے کہا ’’ہم عام طالبات کو سڑک پر جاتے نہیں دیکھ سکتے۔ یہ کوئی خوش کن منظر نہیں ہے۔ بین الاقوامی برادری بھی دیکھ رہی ہے۔‘‘

ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ ریاستی حکومت نے کالج ڈیولپمنٹ کمیٹیوں کو یونیفارم کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے خود مختاری دی ہے۔ انھوں نے عدالت کو بتایا کہ اگر طلبا کوئی نرمی چاہتے ہیں تو انھیں کمیٹیوں سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

تاہم، سینئر وکیل دیودت کامت، جو کندا پورہ کالج کی طالبات کی نمائندگی کر رہے ہیں، نے کہا کہ ریاستی حکومت کا موقف اتنا ’’معصوم‘‘ نہیں ہے اور کہا کہ ریاستی حکومت نے اس سلسلے میں ایک حکم جاری کیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ احتجاج کے خلاف بلینکٹ آرڈر پاس کرنے سے سنگین آئینی مسائل پیدا ہوں گے۔

عدالت نے پھر کہا کہ وہ اس کیس کی میرٹ پر سماعت کرے گی، کیوں کہ ریاستی حکومت نے درخواست گزاروں کے تعلیمی سیشن کے باقی دو مہینوں کے لیے طالبات کو حجاب پہننے کی اجازت دینے کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا ہے۔