کنڑ زبان کی فلم ’ڈیرڈیوِل مصطفیٰ‘

مسلمانوں کے تعلق سے غلط فہمیوں کو دور کرنے والی ایک بہترین فلم

تبصرہ : سعادت حسین

 مسلمان امتیازی سلوک کا سامنا کرتے ہوئے بھی اخوت و بھائی چارگی کا درس دیتے ہیں
’’ڈیرڈیول مصطفیٰ‘‘ آج کے اس مسلم مخالف اور پرآشوب ماحول میں بنائی گئی ایک بہترین فلم ہے جسے کے پی پورن چندرا تیجسوی کے سو سے زیادہ مداحوں نے مل کر فلمایا ہے کیوں کہ بیشتر فلم پروڈیوسروں نے اس فلم کو بنانے کے لیے پہلی دفعہ اس میدان میں قدم رکھنے والے ایک ڈائرکٹر کی خدمات کو ٹھکرا دیا تھا۔ رائٹر، پروڈیوسر تیجسوی  کنڑ زبان کے ایک مشہور مصنف، ناول نگار اور فوٹوگرافر کے علاوہ ماہر ماحولیات بھی ہیں۔ ان کی مختصر کہانیاں، افسانے اور دیگر ادبی اشاعتیں، ریاست کرناٹک کی کنڑ زبان کی نصابی کتابوں میں شامل ہیں۔ دراصل یہ فلم اپنی لاجواب اور متاثر کن کہانی کی وجہ سے روز بروز مقبول ہو رہی ہے۔ کرناٹک کا ہر شہری، بلالحاظ مذہب و ملت، جنس، رنگ و نسل جس نے ریاست کے سرکاری یا امدادی اسکولوں میں سینئر سکینڈری سطح کی یا امدادی پری یونیورسٹی کالجوں میں تعلیم حاصل کی ہو، اس فلم کے مقصدی اور متاثر کن ہونے کی گواہی دے گا۔ یہ فلم دراصل 1973 میں تیجسوی  کی لکھی ہوئی ایک کتاب ’’ابا چور کا پوسٹ آفس‘‘ کے مرکزی خیال پر بنائی گئی ہے۔ فلم کی شوٹنگ زیادہ تر کرناٹک کے ایک تاریخی اسکول ’’ہارڈوک ہائی اسکول میسور‘‘ میں ہوئی ہے جہاں انگریزوں کی حکومت قدرے زیادہ مستحکم تھی۔
بنیادی طور پر فلم کی کہانی، مقامی مسلم سماج کے اپنے پرانے خیالات اور مذہبی اعتقادات پر مبنی ہے۔ اس فلم میں ایک مسلم مرکزی کردار مصطفیٰ کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس سرکاری اسکول میں غیر مسلم طلباء کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے والے ایک مسلمان طالب علم کے دماغ میں دوران تعلیم کس طرح کے خیالات اور اندیشے پیدا ہوتے ہیں۔ انہی خیالات کو جمع کرکے کس طرح مصطفی کچھ سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس فلم میں ایسے تمام واقعات کو ہلکے مزاحیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے جس سے فلم بینوں کو اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ ایک اہم نکتہ  یہ بھی ہے کہ اس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ غیر مسلموں کو مسلمانوں کے ناموں کے تلفظ کو ادا کرنے میں دقّت محسوس ہوتی ہے بالخصوص فلم کے اصلی کردار مصطفی کا پورا نام ‘ یعنی جمال عبدالمصطفی حسین ہے۔ فلم میں یہ نام سنتے ہی کئی غیر مسلم طالب علم کرداروں کے چہروں پر ظاہر ہونے والے تاثرات اور ان کے دماغ میں ابھرنے والے تصورات کو پیش کیا گیا ہے۔ فلم کی ابتدا میں، عام بھارتی سماجی ڈھانچہ پیش کیا گیا ہے جیسے خاندان کے افراد پر مشتمل، نظام، ان کا مذہب، عقائد اور سماج میں ذات پات کی اہمیت وغیرہ، جو یہاں رہنے والے ہر شخص کی زندگی کے بنیادی اجزاء ہوتے ہیں۔ فلم میں اس نکتے کو خاص طور پر اجاگر کیا گیا ہے کہ اسکول کی ابتدائی تعلیم مکمل ہونے تک اگر کوئی بچہ، اپنے معاشرے اور اس کے الگ الگ کرداروں کو اچھی طرح سمجھ نہیں پایا تو سمجھ لیجیے کہ ایسا بچہ، آسانی کے ساتھ ذہنی تعصب کی نفسیات کا شکار ہوسکتا ہے۔ فلم میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خود اس کے سماج میں موجود ہر قسم کے تعصبات اور دقیانوسی تصورات کا سامنا کرتے ہوئے مصطفی انہیں افکار پر عمل تو کرتا ہے لیکن اس کے اطراف و اکناف، اردگرد کے ماحول میں رہنے والے انسانوں کے ساتھ فطری طور پر ہمدردی‘ شفقت اور فلاح کا عنصر خود بخود اس کے فلمی کردار میں پیدا ہوبجاتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے ہم جماعت ساتھی‘ اسکول کا پرنسپل‘ اس کو پڑھانے والے اساتذہ اور اسکول کے غیر تدریسی عملے کے افراد نے مسلم سماج کے تعلق سے پائی جانے والی غلط فہمیوں کو بڑی حد تک ختم کر دیا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس بہترین برادرانہ ماحول کے پیدا ہوجانے کے باوجود مسلم سماج اور دیگر سماج کے لوگوں کے درمیان وہ بامعنی تعاون اور اعتماد پیدا نہیں ہوسکا جس کی آج ضرورت ہے۔
فلم کے ایک منظر میں ایک ہم جماعت غیر مسلم طالب علم کو ایک دلچسپ کردار میں پیش کیا گیا ہے جو اچھے اچھے کھانوں کا شوقین ہے۔ یہ طالب علم، پی ٹی کے پیرئیڈ میں جب سارے طلبا کھیل کود میں مصروف ہوتے ہیں، کلاس روم میں داخل ہوتا ہے اور ساتھی طلبا کے ٹفن باکس تلاش کرنے لگتا ہے۔ مختلف ٹفن باکس تلاش کرنے کے باوجود اسے اپنی پسند کی غذا کہیں نہیں ملتی۔ آخر میں اسے ایک مسلم طالب علم جمال کا ٹفن ملتا ہے۔ یہ سوچتے ہوئے وہ ٹفن کھولتا ہے کہ ضرور اس میں گوشت یا بریانی ہوگی! لیکن اس میں صرف دہی اور چاول ہی ملتا ہے وہ حیرت زدہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔ اس موقع پر مصطفی ناظرین کو بتاتا ہے کہ مسلمان روزانہ بریانی اور گوشت نہیں کھاتے بلکہ سب کی طرح دال، ترکاری جیسی روزمرہ کی چیزیں ہی کھاتے ہیں۔ فلم میں مسلمانوں کی غذاؤں کے تعلق سے اس طرح کے دیگر تصورات کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سماج کے عام مسلم طالب علموں کے خلاف غیر مسلموں کے دماغوں میں کس طرح شکوک و شبہات اور امتیازی سلوک کا کلچر، فروغ پا رہا ہے۔ اس کے باوجود یہی وہ مسلمان طالب علم ہیں جو اپنے اپنے گاؤں میں آپسی بھائی چارہ، ہم آہنگی جیسی انسانی بنیادوں پر انسانی اقدار کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔
اگرچہ کہ آج کے یہ طالب علم اس وقت وہاں ان متاثرہ مقامات پر موجود نہیں تھے لیکن ماضی میں مسلمانوں کے ساتھ فرقہ وارایت پر مبنی نفرت انگیز سلوک کی ایک لمبی تاریخ سب کے دماغوں میں آج بھی تازہ ہے ۔ فلم کے کلائمکس میں سماجی بقائے باہم کے تصور کو نمایاں کرنے کے لیے ایک کرکٹ میچ کی نہایت مؤثر انداز میں منظر کشی کی گئی ہے۔ ہم اس فلم کو دیکھنے کی ضرور سفارش کریں گے کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ خصوصاً اس دور میں، جس میں ہم جی رہے ہیں، جہاں پر آج سینما کے ذریعے، سماج کے مختلف طبقات کے درمیان نفرت، دشمنی اور حسد کی فضاء پیدا کرنے کی مسلسل کوششیں کی جا رہی ہیں، یہ فلم عوام کو ایک عمدہ، مثبت اور کارآمد پیغام دیتی ہے یہ فلم افراد کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی بہترین کوشش ہے۔ یہ فلم Amazon Prime پر دیکھی جاسکتی ہے جو انگریزی سب ٹائٹل کے ساتھ موجود ہے۔
ترجمہ : سلیم الہندی

 

***

 ہم اس فلم کو دیکھنے کی ضرور سفارش کریں گے کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ خصوصاً اس دور میں، جس میں ہم جی رہے ہیں، جہاں پر آج سینما کے ذریعے، سماج کے مختلف طبقات کے درمیان نفرت، دشمنی اور حسد کی فضاء پیدا کرنے کی مسلسل کوششیں کی جا رہی ہیں، یہ فلم عوام کو ایک عمدہ، مثبت اور کارآمد پیغام دیتی ہے یہ فلم افراد کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی بہترین کوشش ہے


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 اکتوبر تا 07 اکتوبر 2023