!!کہ رشتے اب گلابوں کی طرح خوشبو نہیں دیتے
محض یومِ والد یا یومِ والدہ مناکر والدین سے حقیقی محبت کا اظہار نہیں کیا جاسکتا
ایم شفیع میر،کشمیر
والدین ، رشتے داروں اور دیگر تما م متعلقین سے بے لوث محبت ہی انسانیت کی معراج
رشتوں کا ایک روپ مطلب پرستی ہے۔ کٹھ پتلی کی طرح جی حضوری کرتے رہو تو سب ٹھیک ورنہ رشتے کچے دھاگے کی مانند ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔ رشتے چاہے کسی بھی نوعیت کے ہوں، ان کی چمک دھمک اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک ان کے پیچھے مفاد پرستی یا مطلب پرستی کا عنصر نہ ہو، بغیر مطلب پرستی کے رشتوں کو پروان چڑھانا یا رشتوں کا قائم رہنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن سی بات ہے۔ یعنی سب کچھ اُلٹا ہو رہا ہے۔ انسان رشتوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کے کام نہیں آتا بلکہ کام کی بنیاد پر رشتے استوار کرتا اور نبھاتا ہے اور پھر اِن رشتوں میں حقیقت بھی اِسی حد تک ہوتی ہے کہ جب تک کام ہے یعنی جب تک انسان کسی بھی دوسرے انسان کو اپنے کام کی چیز سمجھتا ہے تب تک ہی وہ رشتے نبھاتا ہے، کام ہو گیا تو رشتوں کا اختتام ہو جاتا ہے۔
موجودہ دور میں رشتوں کی حقیقت کو دیکھا جائے تو بھائی بھائی، باپ بیٹا، بھائی بہن، میاں بیوی جیسے عظیم رشتے بھی مطلب پرستی کی بھینٹ چڑھتے نظر آرہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بھائی بھائی کا نہیں رہتا، بیٹا اپنے ماں باپ کا نہیں رہتا، رشتوں کی اہمیت و افادیت دن بدن ختم ہوتی جا رہی ہے۔ موجودہ مشینی دور میں انسان خود ایک مشین بن چکا ہے۔ رشتوں کو احساسات، ہمدردی، پیا ر و محبت اور اخلاص کی نیت سے استوار کرنے اور نبھائے جانے کی کوئی مثال باقی نہیں رہی ہے۔ مطلب پرستی نے انسان کو اِس قدر سنگ دل بنا دیا ہے کہ اس کے اندر رشتوں سے متعلق احساسات مر چکے ہیں، رشتوں کو اب دکھاوے کے طور نبھایا جاتا ہے بلکہ دکھاوے کے طور پر رشتوں کو استوار کرنا بھی تب ہی بہتر سمجھا جاتا ہے جب کوئی مطلب ہو ورنہ آج کا انسان رشتوں کو نبھانا جہاں فضول مشق کہتا ہے وہیں اپنے لیے نقصان دہ بھی سمجھتا ہے۔
موجودہ وقت میں انسان کس قدر رشتوں کی اہمیت، افادیت، روحانیت اور مقصدیت کو بھول چکا ہے کہ کبھی انسان دماغ پر زور ڈال کر سوچا جائے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ بے حسی کا یہ عالم ہے کہ عظیم رشتوں کو دکھاوے کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ انسان اس حد تک اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوا ہے کہ ہر رشتے کو نبھانے اور استوار کرنے میں اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔
قارئین کرام! جیسا کہ آپ بخوبی واقف ہیں کہ رشتوں کو سمجھنے اور نبھانے میں کس طرح سے غیر ذمہ داری اور غیر اخلاقی رویے کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اِس کی مثالیں آپ کو سوشل میڈیا سائٹس بالخصوص فیس بک پر دیکھنے کو مل سکتی ہے، جہاں ہر انسان اپنی ایمانداری، بالغ نظری، دور اندیشی، وسیع النظری اور بے باکی کے ڈھنڈورے پیٹتا نظر آ رہا ہے لیکن حقیقی دنیا میں کہانی اِس کے برعکس ہے۔ مثال کے طور پر آپ ’’یوم مادر‘‘ یعنی Mothers Day کی ہی مثال لیجیے۔ کیا کہیں ایسا محسوس کیا جا سکتا ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا بیٹا ہوگا جو اپنی ماں کی خدمت میں کوتاہی برت رہا ہوگا؟ ماں کے حقوق پورے نہیں کر رہا ہوگا؟ ماں کو اُف تک نہیں کہہ رہا ہوگا؟ جہاں تک سوشل میڈیا کی بات ہے تو شاید ہی کوئی ایسا شخص آپ کو ملے گا جو اپنی ماں کی خدمت میں کسی قسم کی لاپروائی اور کوتاہی کا مرتکب پایا گیا ہے لیکن جب حقیقی دنیا میں آکر دیکھا جا ئے تو ایسے درندہ نما اولاد کی بے شمار مثالیں ملیں گی جنہوں نے اپنی ماؤں سے صرف دوریاں نہیں بنائی ہیں، انہیں صرف اپنے سے الگ نہیں کیا ہے بلکہ ان کا دانہ پانی بند کرنے میں بھی کوئی شرم محسوس نہیں کی ہے۔ بدقسمتی سے سماج میں ایسے ہی لوگوں کو احترام واکرام سے نوازا جاتا ہے۔
جب سماج میں پنپنے والی خود غرضی و مطلب پرستی کو جاننے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایسے ایسے تجربات اور افسوسناک واقعات سے آگاہی ملتی ہے کہ سوچنے پر انسان خود کو گنہگار اور قصوروار ٹھیرائے بغیر نہیں رہ سکتا اگرچہ اس کے اندر اخلاص، نیک نیتی اور ایمان داری ہو۔ ناچیز ایک مدت سے اِس موضوع پر لکھنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن ہمت یکجا نہیں کر پا رہا تھا کیونکہ غور و فکر اور اپنا محاسبہ کرنے کے بعد جو نتائج سامنے آئے اس میں ناچیز خود بھی قصور وار پایا گیا۔ میرے نقطہ نظر سے کسی بھی برائی پر قلم اٹھانے سے قبل انسان کو اپنے اندر جھانک لینا چاہیے کہ کہیں وہ خود بھی اِس برائی کا حصہ تو نہیں؟
معروف شاعر مومن خان مومن نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا‘‘ بے شک جب تک انسان کسی مصیبت یا مشکل دور سے نہ گزرے، تب تک اسے خدا کی یاد نہیں آتی۔ اِسی طرح جب تک انسان اپنی آسائشوں میں مگن ہوتا ہے تو اپنوں کی یاد ہرگز نہیں آتی، نہ ہی انہیں اپنانے کا کوئی خیال آتا ہے بلکہ رشتے نبھانا یا استوار کرنا فضول مشق اور بے کار لوگوں کا مشغلہ سمجھا جاتا ہے ہاں! کبھی ضرورت پڑے یا کہیں مطلب دکھائی دے تو انسان اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی رشتے استوار کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔
غور طلب ہے کہ ’’یوم مادر‘‘ بڑے ہی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے لیکن انسان نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا کیوں نہیں کی کہ بھلا ماں کا بھی کوئی دن ہوتا ہے؟ ماں کے بغیر تو کوئی دن ہی نہیں ہوتا پھر ’’یوم مادر‘‘ منانے کی کیا تُک ہے۔ کیا ہم اپنی ماؤں کے حقوق اور ان کی خدمت کر کے روز ہی یوم والدہ نہیں منا سکتے؟ بالکل اِسی طرح سے جن کے والدین اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے ہیں انہیں روز ہی یاد کر سکتے ہیں لیکن ہماری مطلب پرستی کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنے والدین تک کو اپنے مطلب کے مطابق یاد کرتے ہیں اور پھر ان کے نام پر تعریفیں بٹورتے ہیں جبکہ حقیقی معنوں میں ہم نہ ہی اپنے والدین کی خدمت گزاری کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں اور نہ ہی اِس اہل بننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم ان کے نقش قدم پر چلیں اور ان کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کریں۔
ہم جس قدر والدین کے تئیں اپنی غیر ذمہ داری اور غیر سنجیدگی برت رہے ہیں وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ ہم میں سے جن کے والدین زندہ ہیں ان کی فکر ہرگز نہیں کرتے اور جن کے والدین اِس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے وہ صرف برسیاں بنانے تک محدود ہیں۔ چلیے اِسی کو مان لیتے کہ کم از کم یوم وفات پر تو ہم اپنے والدین کو یاد کرتے لیکن ہماری بے بسی اور بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ہم اِس روز بھی قرآن خوانی کے لیے مدارس میں زیر تعلیم بچوں کو اُٹھا لاتے ہیں، خود ہم اِس روز بھی قرآن خوانی میں حصہ نہیں لیتے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم والدین کے تئیں اپنی محبت کو مصنوعی روپ دیے ہوئے ہیں۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ کرایے کی یہ قرآن خوانی والدین کے تئیں ہماری محبت نہیں بلکہ مطلب پرستی اور دکھاوے کا افسوس ناک ثبوت ہے۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ ’یوم پدر‘ یعنیFather’s Day کے موقع پر لوگوں نے کس قدر اپنے والدین کی شان میں بہت کچھ لکھا اور سنا لیکن سوال پیدا ہوتا کہ جو کچھ بھی سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس پر لکھا اور کہا جاتا ہے کیا عملی دنیا میں اس کی کوئی مثال دیکھنے کو مل رہی ہے؟ لازماً جواب نفی میں ہی ملتا ہے کیونکہ ہمارے کہنے اور کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ بجائے اس کے آپ اخبارات میں دیکھیے روز ہی کسی نہ کسی اخبار میں کسی والد کا اپنے فرزند کے لیے عاق نامہ پڑھنے کو مل جاتا ہے جس میں والد نے اپنے بیٹے کی نافرمانی اور والدین کے ساتھ مار پیٹ کا ذکر کیا ہوتا ہے۔ کیا والدین اتنے سنگ دل ہوسکتے ہیں کہ وہ اپنی اولاد کو بغیر کسی جرم کے اتنی بڑی سزا دیں؟ نہیں! بلکہ بچوں میں والدین کے تئیں محبت اور خدمت میں کوتاہی اور لاپروائی کی اصل وجہ مطلب پرستی ہے جس کی وجہ سے ہم عارضی طور رشتوں کو استوار کرتے اور نبھاتے ہیں ورنہ اب کے ہمارے سماج، معاشرے اور گمان میں رشتوں کی اہمیت وافادیت کی تمام امیدیں دم توڑتی نظر آ رہی ہیں۔
اس لیے یاد رہے کہ رشتے ضرورت کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ عزت اور توجہ چاہتے ہیں۔ اگر احساس انسان کے دلوں سے ختم ہوجائے تو ان ٹوٹے ہوئے رشتوں کی چبھن انسان کو جینے نہیں دیتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے غلط رویوں کی وجہ سے رشتوں کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ اگر کسی کی غلطیوں کو معاف کرنا پڑے تو فوراً معاف کردینا چاہیے۔ معافی انسان کے دلوں کو صاف رکھتی ہے۔ اگر ہماری زندگی سے اعتبار کا پرندہ ایک بار اڑ جائے تو پھر وہ زندگی بھر لوٹ کر واپس نہیں آتا۔ بڑی محنت اور اعتماد سے خلوص کے اس پودے کو اپنے پیار اور چاہت سے سینچتے ہیں تاکہ یہ ایک مضبوط اور ہرا بھرا درخت بن جائے۔ مگر افسوس کہ برداشت، سمجھ، احساس تو آج کے دور میں ناپید ہوچکا ہے۔ اپنی زندگی میں ان رشتوں کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہیے جن کے بغیر زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔ ہماری زندگی ان رشتوں کے بغیر ادھوری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رشتوں کی حقیقت کو سمجھنے اور نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 نومبر تا 11 نومبر 2023