آندھرا پردیش: 2007 میں قبائلی خواتین کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کے کیس میں ملزم 13 پولیس اہلکاروں کو عدالت نے بری کیا، متاثرین نے کہا کہ ہمیں انصاف سے محروم کر دیا گیا
نئی دہلی، اپریل 9: آندھرا پردیش میں پولیس اہلکاروں کے ایک گروپ کے ذریعے 2007 میں مبینہ طور پر اجتماعی عصمت دری کی شکار قبائلی خواتین میں سے ایک نے اتوار کو کہا کہ ’’ایک پولیس والا کبھی بھی دوسرے پولیس والے کے جرم کی تفتیش نہیں کرے گا۔‘‘
انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق 6 اپریل کو وشاکھاپٹنم کی ایک ضلعی عدالت نے ان تمام 13 پولیس اہلکاروں کو بری کر دیا جن پر 20 اگست 2007 کو آندھرا پردیش کے الوری سیتاراما راجو ضلع میں 11 قبائلی خواتین کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کرنے کا الزام تھا۔
دی نیوز منٹ کے مطابق عدالت نے فیصلہ سنایا کہ اس کیس کے تفتیشی افسر نے غیرجانب دارانہ اور منصفانہ تحقیق نہیں کی۔
تاہم خصوصی جج ایل سری دھر نے ہدایت دی کہ تفتیشی افسر کے خلاف کارروائی کی جائے اور خواتین کو معاوضہ ادا کیا جائے۔
مذکورہ قبائلی خاتون نے دی انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ ’’انصاف ہم سے چھین لیا گیا ہے۔ صرف چاندی کی پرت چڑھائی گئی ہے جو کہ عدالت کا ہمیں معاوضہ فراہم کرنے کا حکم ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ عدالت مانتی ہے کہ ہم متاثرین ہیں۔‘‘
معلوم ہوکہ کونڈ قبیلے سے تعلق رکھنے والی 11 خواتین نے الزام لگایا تھا کہ اگست 2007 میں آندھرا پردیش کے الوری سیتاراما راجو ضلع کے وکاپلی گاؤں میں ایک خصوصی اینٹی ماؤسٹ ٹیم کے ذریعہ کیے گئے کومبنگ آپریشن کے دوران پولیس اہلکاروں نے بندوق کی نوک پر ان کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی۔
خواتین نے الزام لگایا ہے کہ پہلی معلوماتی رپورٹ کے اندراج اور طبی معائنے میں تاخیر کی وجہ سے کیس کی تفتیش سست اور کوتاہیوں سے بھری ہوئی تھی۔
تعزیرات ہند کی دفعہ 376(2) (پولیس افسر کے ذریعہ عصمت دری) اور ایس سی/ایس ٹی مظالم ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ تاہم مقدمے کی سماعت اگست 2018 میں عصمت دری کے واقعے کے 11 سال بعد سپریم کورٹ کی مداخلت کے سبب شروع ہوئی۔
ٹرائل شروع ہونے تک متاثرہ 11 خواتین میں سے دو کی موت ہو چکی تھی۔
اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر سنکارا راجندر پرساد نے بتایا کہ وشاکھاپٹنم ضلعی عدالت نے اپنے فیصلے میں نوٹ کیا ہے کہ پولیس نے اس معاملے میں 26 اگست 2007 کو ایف آئی آر درج کی تھی، یعنی خواتین کی اس شکایت کے چھ دن بعد کہ ان کے ساتھ عصمت دری کی گئی تھی۔
عدالت نے کہا ’’27 اگست 2007 کو ریاستی حکومت نے وشاکھاپٹنم رورل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس بی آنندا راؤ کو الزامات کی تحقیقات کے لیے مقرر کیا تھا۔ تاہم راؤ نے 8 ستمبر تک گاؤں کا دورہ نہیں کیا۔ جائے وقوعہ کو محفوظ نہیں بنایا گیا، شواہد اکٹھے نہیں کیے گئے اور مبینہ اجتماعی عصمت دری کے بعد 17 دنوں تک شکایت کنندگان کے بیانات ریکارڈ نہیں کیے گئے۔‘‘
عدالت نے مزید کہا کہ ایف آئی آر درج کرنے میں چھ دن کی تاخیر کے بعد پولیس نے خواتین کو طبی معائنے کے لیے بھیجنے کے لیے مزید دو دن انتظار کیا۔ پولیس نے خواتین کو ایک ایسے ہسپتال میں بھیجنے کی بھی کوشش کی جہاں ٹیسٹ کرانے کے لیے ناکافی سہولیات تھیں۔
2018 میں ٹرائل شروع ہونے تک ملزمان کا کوئی شناختی ٹیسٹ نہیں کیا گیا۔
ایک اور خاتون، جو شکایت کرنے والوں میں شامل تھی، نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد انھیں ان کے گاؤں سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہمارے شوہروں اور گاؤں کے بزرگوں کی طرف سے ہمارے ساتھ ظالمانہ اور غیر انسانی سلوک کیا گیا۔ …ہمیں اپنے بچوں سے بھی بات چیت کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ہمیں کئی دنوں کے بعد اپنے گھروں میں واپس جانے کی اجازت دی گئی اور ہمیں طہارت کے غسل کرتے رہنا پڑا۔‘‘