جوڈیشل مجسٹریٹ یو اے پی اے کے مقدمات میں چارج شیٹ داخل کرنے کی آخری تاریخ میں توسیع نہیں کرسکتے: سپریم کورٹ
نئی دہلی، ستمبر 11: بار اینڈ بنچ کی خبر کے مطابق سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ جوڈیشل مجسٹریٹ غیر قانونی سرگرمیاں روک تھام ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت درج مقدمات میں انکوائری مکمل کرنے اور چارج شیٹ داخل کرنے کے لیے تفتیشی ایجنسیوں کو دی گئی ڈیڈ لائن میں توسیع نہیں کر سکتے۔
منگل کو ایک حکم میں جسٹس یو یو للت، بیلا ترویدی اور ایس روندرا بھٹ پر مشتمل بنچ نے کہا کہ صرف قومی تحقیقاتی ایجنسی ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالتیں یا ان کی غیر موجودگی میں سیشن عدالتوں کو یہ ڈیڈ لائن بڑھانے کا اختیار ہے۔
سپریم کورٹ کا یہ حکم یو اے پی اے کے تحت چار افراد کی جانب سے دائر درخواست پر منظور کیا گیا۔
بھوپال کی ایک عدالت نے 2014 میں ان کی ضمانت مسترد کردی تھی، جس کے بعد انھوں نے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ ہندوستان ٹائمز کے مطابق درخواست گزاروں نے اس بنیاد پر ضمانت مانگی کہ پولیس ان کے خلاف 90 دن کی مدت میں چارج شیٹ داخل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
لیکن ہائی کورٹ نے نوٹ کیا تھا کہ بھوپال میں چیف جوڈیشل مجسٹریٹ نے چارج شیٹ داخل کرنے کی آخری تاریخ 90 دن سے بڑھا کر 180 دن کر دی ہے اور اس سے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ درخواست گزاروں کو ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ ہائی کورٹ نے مجسٹریٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔
اس تناظر میں سپریم کورٹ کے بنچ نے نوٹ کیا ’’جہاں تک مکمل تفتیش کا وقت ہے، یہ ایک مجسٹریٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں ہوگا کہ وہ چارج شیٹ داخل کرنے کا وقت بڑھا سکے۔۔۔ایسا اختیار موجود نہیں ہے۔‘‘
بار اینڈ بنچ کے مطابق سپریم کورٹ نے یہ بھی فیصلہ دیا کہ درخواست گزار اس کیس میں ڈیفالٹ ضمانت کے حق دار ہیں۔
یو اے پی اے کی تنقید
بھارت میں وکلاء نے کہا ہے کہ پولیس انسداد دہشت گردی کے قانون کو کثرت سے استعمال کر رہی ہے کیوں کہ اس سے ملزم کو بغیر کسی مقدمے کے طویل عرصے تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ وکلاء اسے پرامن احتجاج اور اختلاف رائے کو روکنے کے لیے پولیس کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
اگست میں مرکز نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ 2019 میں یو اے پی اے کے تحت 1948 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا لیکن صرف 34 کو سزا سنائی گئی تھی۔
پچھلے دو مہینوں کے دوران عدالتوں اور سپریم کورٹ کے سابق اور موجودہ ججوں نے بھی اس قانون کے غلط استعمال پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
جولائی میں ایک تقریب میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ اس قانون کو ’’اختلاف رائے کو ختم کرنے‘‘ کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
اسی مہینے کے دوران یو اے پی اے کی مطابقت سے متعلق ایک اور سیشن میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس دیپک گپتا نے زور دیا تھا کہ یہ قانون اپنی موجودہ شکل میں نہیں رہنا چاہیے۔
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مدن لوکور نے کہا کہ عدالتوں، معاشرے اور ریاست کو ان کارکنوں، صحافیوں اور سول سوسائٹی ممبروں کے خاندانوں پر ہونے والے ذہنی صدمے پر غور کرنا چاہیے جن پر بغاوت اور یو اے پی اے کا الزام ہے۔