جامعہ تشدد کیس میں شرجیل امام اور دیگر 10 کو بری کرنے والے جج نے چند دن بعد جامعہ تشدد سے متعلق ایک دوسرے کیس سے خود کو الگ کیا
نئی دہلی، فروری 11: لائیو لاء کی خبر کے مطابق دہلی کی ایک ٹرائل کورٹ کے جج نے، جس نے جمعہ کو شہر کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں 2019 کے تشدد کے سلسلے میں کارکن شرجیل امام اور دس دیگر افراد کو بری کر دیا تھا، اسی طرح کے ایک دوسرے کیس کے خود کو الگ کرلیا۔
ساکیت ضلع عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج ارول ورما نے ذاتی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے کیس کو دوسرے جج کو منتقل کرنے کی درخواست کی۔ ساکیت عدالت کے پرنسپل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج 13 فروری کو کیس کی منتقلی کا فیصلہ کریں گے۔
15 دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف طلبہ کے احتجاج کے دوران تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ دہلی پولیس پر یونیورسٹی کیمپس میں گھسنے اور مظاہروں کو روکنے کے لیے ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کرنے کا الزام تھا۔ تاہم پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کی کارروائی جائز تھی کیوں کہ مظاہرین نے مبینہ طور پر اس کے اہلکاروں کو زخمی کیا تھا اور بسوں کو آگ لگا دی تھی۔
شرجیل امام کے علاوہ ورما نے 4 فروری کو کارکنان صفورا زرگر، آصف اقبال تنہا اور آٹھ دیگر کو اس کیس میں بری کر دیا تھا۔ اپنے حکم میں جج نے کہا تھا کہ دہلی پولیس نے کارکنوں کو قربانی کا بکرا بنایا کیوں کہ وہ اصل مجرموں کو پکڑنے میں ناکام رہے تھے۔
جج نے مزید کہا تھا کہ اس بات کا کوئی ابتدائی ثبوت نہیں ہے کہ ملزمین ہجومی تشدد کا حصہ تھے یا ان کے پاس کوئی ہتھیار تھا یا وہ پتھر پھینک رہے تھے۔
تاہم دہلی پولیس نے اس حکم کو دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے اور کہا ہے کہ ٹرائل کورٹ نے ملزمین کو بری کرتے ہوئے ’’جذباتی‘‘ تھی۔
پولیس نے استدلال کیا ہے کہ ٹرائل کورٹ ریکارڈ پر موجود شواہد پر غور کرنے میں ناکام رہی اور الزامات عائد کرنے کے مرحلے پر ملزمان کو بری کرنے کی کارروائی کی۔
پولیس کی درخواست کی سماعت جسٹس ایس کانتا شرما 13 فروری کو کریں گے۔