الہ آباد ہائی کورٹ نے صحافی صدیق کپن کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی
نئی دہلی، اگست 4: الہ آباد ہائی کورٹ نے صحافی صدیق کپن کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی ہے، جن پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
کپن کو اترپردیش پولیس نے 5 اکتوبر 2020 کو ہاتھرس جاتے ہوئے گرفتار کیا تھا، جہاں 14 ستمبر 2020 کو چار اونچی ذات کے ٹھاکر مردوں نے ایک دلت خاتون کی اجتماعی عصمت دری کے بعد اسے قتل کر دیا تھا۔
پولیس نے پہلے کیرالہ میں مقیم صحافی پر ذات پات کی بنیاد پر فساد شروع کرنے اور فرقہ وارانہ انتشار پیدا کرنے کا الزام لگایا۔ اس کے بعد غداری کے الزامات اور غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کی دفعات شامل کی گئیں۔
الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کے جسٹس کرشن پہل نے متھرا کی ایک عدالت کے اس حکم کو چیلنج کرنے والے صحافی کی عرضی کو مسترد کر دیا، جس نے اسے ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ تفصیلی حکم نامہ ابھی اپ لوڈ ہونا باقی ہے، لیکن جمعرات کی صبح ہائی کورٹ کی ویب سائٹ پر کیس کی حیثیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ درخواست کو ’’میرٹ کی بنیاد پر خارج کر دیا گیا ہے۔‘‘
اپریل 2021 میں اتر پردیش اسپیشل ٹاسک فورس نے 5,000 صفحات پر مشتمل چارج شیٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ کپن نے ’’ذمہ دار صحافی‘‘ کی طرح نہیں لکھا اور ’’مسلمانوں کو اکسانے‘‘ والے واقعات کی رپورٹنگ کی۔
چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’فسادات کے دوران اقلیت کا نام لینا اور ان سے متعلق واقعات پر بات کرنا جذبات کو بھڑکا سکتا ہے۔ ذمہ دار صحافی ایسی فرقہ وارانہ رپورٹنگ نہیں کرتے۔ کپن صرف اور صرف مسلمانوں کو اکسانے کے لیے رپورٹنگ کرتا ہے، جو PFI [پاپولر فرنٹ آف انڈیا] کا پوشیدہ ایجنڈا ہے۔ کچھ اسٹوریز ماؤنوازوں اور کمیونسٹوں کے ساتھ ہمدردی کے لیے بھی لکھی گئیں۔‘‘
پچھلے سال جولائی میں متھرا کی عدالت نے ان الزامات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی کہ کپن نے دیگر شریک ملزمان کے ساتھ مل کر دشمنی کو فروغ دینے والی حرکتیں کیں۔
ایڈیشنل سیشن جج انل کمار پانڈے نے کہا تھا کہ پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے کہ کپن اور دیگر لوگ اس وقت امن و امان کی صورت حال کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے تھے، جب وہ دلت عورت کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی رپورٹنگ کرنے ہاتھرس جا رہے تھے۔