صحافی صدیق کپن کو تقریباً دو سال کی حراست کے بعد سپریم کورٹ سے ضمانت ملی

نئی دہلی، ستمبر 9: سپریم کورٹ نے جمعہ کو صحافی صدیق کپن کو ضمانت دے دی جنھیں 2020 میں ہاتھرس اجتماعی عصمت دری اور قتل کیس سے منسلک مبینہ سازش کے لیے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون اور بغاوت کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔

اتر پردیش پولیس نے کیرالہ سے تعلق رکھنے والے صحافی کو 5 اکتوبر 2020 کو تین دیگر مردوں کے ساتھ گرفتار کیا تھا، جب وہ ہاتھرس جا رہے تھے جہاں 14 ستمبر 2020 کو ایک دلت خاتون کو چار اعلیٰ ذات کے ٹھاکر مردوں نے اجتماعی عصمت دری کے بعد قتل کر دیا۔

کپن کو تین دن بعد ٹرائل کورٹ میں پیش کیا جائے گا، جہاں ان کی ضمانت کی شرائط طے کی جائیں گی۔

جمعہ کی سماعت میں چیف جسٹس یو یو للت اور جسٹس ایس رویندر بھٹ پر مشتمل بنچ نے کہا کہ صحافی کو اگلے چھ ہفتوں تک دہلی میں رہنا ہوگا اور شہر کے نظام الدین پولیس اسٹیشن میں اپنی موجودگی کو درج کرانا ہوگا۔ ججوں نے کہا کہ اس کے بعد وہ کیرالہ میں اپنے گھر واپس جا سکتا ہے لیکن اسے پولیس کو رپورٹ کرنا پڑے گا۔

بنچ نے کپن کو ہدایت کی کہ وہ ذاتی طور پر یا وکیل کے ذریعے ’’ہر ایک تاریخ پر‘‘ ٹرائل کورٹ کے سامنے کارروائی میں شرکت کریں۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ وہ اس مرحلے پر تحقیقات کی پیش رفت پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔

اتر پردیش حکومت کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے سینئر وکیل مہیش جیٹھ ملانی نے عدالت کو بتایا کہ صحافی کے پاس ملنے والے دستاویزات میں ’’ہاتھرس لڑکی کے لیے انصاف‘‘ کی بات کی گئی ہے۔ اس نے دلیل دی کہ کپن اور شریک ملزمان بدامنی پھیلانے کے ارادے سے ہاتھرس جا رہے تھے۔

تاہم عدالت نے کہا کہ ہر شخص کو آزادی اظہار کا حق حاصل ہے۔ عدالت نے کہا ’’وہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ متاثرہ کو انصاف کی ضرورت ہے اور ایک مشترکہ آواز اٹھانی چاہیے۔ کیا یہ قانون کی نظر میں جرم ہے؟‘‘

بنچ نے نوٹ کیا کہ دہلی میں دسمبر 2012 کے اجتماعی عصمت دری کے بعد انڈیا گیٹ پر مظاہروں نے قانون میں تبدیلی کی تھی۔

سماعت کے دوران جیٹھ ملانی نے ایک ٹول کٹ کا بھی حوالہ دیا جس میں ہدایات تھیں کہ فسادات کے دوران اپنی حفاظت کیسے کی جائے اور آنسو گیس سے کیسے نمٹا جائے۔ تاہم سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ یہ ٹول کٹ امریکہ میں بلیک لائیوز میٹر کے مظاہروں کی ہے۔

تاہم اسکرول ڈاٹ اِن کی خبر کے مطابق کپن کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل ایشان بگھیل نے بتایا کہ صحافی ابھی جیل سے باہر نہیں آئیں گے۔

بگھیل نے کہا ’’ان کے خلاف منی لانڈرنگ کی روک تھام کے قانون کے تحت ایک اور مقدمہ درج ہے۔ ہم نے 5 ستمبر کو لکھنؤ کی متعلقہ عدالت میں ضمانت کی درخواست دائر کی ہے، کیس کی اگلی سماعت 19 ستمبر کو ہے۔ ریاست اپنا جواب داخل کرنے میں تاخیر کر رہی ہے، اس لیے ہم نے دباؤ ڈالا ہے کہ وہ تب تک اپنا جواب داخل کریں۔‘‘

بگھیل نے کہا کہ ریاست کے پاس اس کیس میں کپن کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے اور انھوں نے مزید کہا کہ مبینہ منی لانڈرنگ کیس کے مرکزی ملزم رؤف شریف کو پہلے ہی ضمانت مل چکی ہے۔

دیگر ملزمان مدھوون دت اور سیفن شیخ کی نمائندگی کرنے والے وکلا نے کہا کہ وہ ضمانت کے حکم سے خوش ہیں۔ دت نے کہا ’’یہ ہمارے لیے بڑا حوصلہ بخش ہے۔ پولیس کے پاس ملزمان کے خلاف خاطر خواہ ثبوت نہیں ہیں۔‘‘