جموں و کشمیر: حکومت کا کہنا ہے کہ ووٹر لسٹ میں 25 لاکھ اضافی ووٹرز کا تخمینہ گمراہ کن ہے
نئی دہلی، اگست 20: جموں و کشمیر انتظامیہ نے ہفتے کے روز کہا کہ مرکز کے زیر انتظام علاقے میں ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کے دوران 25 لاکھ ووٹروں کو شامل کرنے کے تخمینہ کے بارے میں میڈیا رپورٹس ’’حقائق کی غلط بیانی‘‘ ہیں۔ اس نے واضح کیا کہ اس تخمینہ میں پہلی بار ووٹ دینے والے بھی شامل ہیں۔
یہ اس علاقے میں نئے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد کو شامل کرنے کے تنازعہ کے درمیان سامنے آیا ہے۔ علاقائی سیاسی رہنماؤں نے الزام لگایا ہے کہ انتخابی فہرستوں پر نظرثانی، بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کے حربے کا حصہ ہے۔
ڈائریکٹوریٹ آف انفارمیشن اینڈ پبلک ریلیشن نے کہا کہ انتخابی فہرستوں کی یہ نظرثانی مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے موجودہ رہائشیوں کا احاطہ کرے گی اور تعداد میں اضافہ ان ووٹروں کی وجہ سے ہو گا جنھوں نے 1.10.2022 یا اس سے قبل تک 18 سال کی عمر کو پہنچ چکیں ہوں گے۔‘‘
جمعرات کو ایک نامعلوم سرکاری اہلکار نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ 25 لاکھ اضافی ووٹروں کے اعداد و شمار میں سے کم از کم 22 لاکھ پہلی بار ووٹ دینے والے ہیں۔
انتظامیہ کی طرف سے یہ وضاحت بھی جموں و کشمیر کے چیف الیکٹورل آفیسر ہردیش کمار کے یہ کہنے کے دو دن بعد سامنے آئی ہے کہ مرکز کے زیرِ انتظام علاقے کو 25 لاکھ مزید ووٹر مل سکتے ہیں، جن میں اصل میں جموں و کشمیر سے باہر کے وہ لوگ بھی شامل ہیں جو یہاں رہتے ہیں، جیسے کہ تارکین وطن کارکنان اور سیکورٹی فورسز۔
کمار نے کہا تھا کہ یہ انتخابی فہرستوں کی نظر ثانی کی وجہ سے ہے، جو جموں و کشمیر کے دفعہ 370 کے تحت اپنی باضابطہ خودمختاری کھونے کے بعد پہلی بار کیا جا رہا ہے۔
مرکز نے 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کے لیے دفعہ 370 کے تحت ریاست کا درجہ اور خصوصی درجہ ختم کر دیا تھا۔ سابقہ ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ مرکز نے دفعہ 35A کو بھی منسوخ کر دیا تھا، جس نے جموں اور کشمیر کے ’’مستقل باشندوں‘‘ کے لیے خصوصی حقوق اور مراعات کو یقینی بنایا تھا۔ تب سے یہ خطہ مرکزی حکومت کے زیر انتظام ہے۔
چیف الیکٹورل آفیسر نے یہ بھی کہا تھا کہ جموں و کشمیر میں ووٹر کے طور پر اندراج کے لیے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ ضروری نہیں ہے۔
اگست 2019 کی قانون سازی میں تبدیلیوں کے بعد مرکز نے ’’مستقل باشندوں‘‘ کی اصطلاح کو ’’ڈومیسائل‘‘ سے بدل دیا تھا، جو ایک وسیع تر نوکر شاہی زمرہ ہے جس میں ہر وہ شخص شامل ہے جو جموں اور کشمیر میں کچھ سالوں سے مقیم ہے۔
کمار کے تبصرے پر جموں و کشمیر کے سیاسی رہنماؤں نے سخت تنقید کی۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے کہا تھا کہ یہ اقدام مرکز کے زیر انتظام علاقے میں ’’انتخابی جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل‘‘ ہے اور بی جے پی 25 لاکھ اضافی ووٹروں کو ’’بیک ڈور‘‘ کے ذریعے لا کر خطے کی آبادی کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
تاہم ہفتے کے روز انتظامیہ نے الزام لگایا کہ یہ تنازعہ حقائق کی غلط بیانی کی وجہ سے ہے جو ’’مفادات‘‘ رکھنے والوں کے ذریعے پھیلایا جا رہا ہے۔
محکمہ نے کہا کہ انتخابی فہرستوں کی نظرثانی کا کام الیکشن کمیشن وقتاً فوقتاً طے شدہ عمل کے مطابق کرتا ہے۔ ’’یہ ان نوجوانوں کو قابل بنانا ہے جو خود کو ووٹر کے طور پر رجسٹر کرنے کے اہل ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ایک ایسے شخص کو بھی ووٹنگ کی اجازت دیتا ہے جس نے اپنی عام رہائش گاہ کو تبدیل کیا ہے اور وہ پرانی جگہ پر خود کو حذف کر کے نئے مقام پر اندراج کروا سکتا ہے۔‘‘
اس میں مزید کہا گیا کہ 2011 میں جموں و کشمیر کی خصوصی نظرثانی میں شائع ہونے والے ووٹرز کی تعداد 66,00,921 تھی جو اب بڑھ کر 76,02,397 ہو گئی ہے۔
محکمے نے کہا ’’یہ اضافہ بنیادی طور پر نئے ووٹروں کی وجہ سے ہے، جو 18 سال کے ہوئے ہیں۔‘‘